جامعہ اسلامیہ انجراء: ایک خاندان کا کارنامہ

   
یکم ستمبر ۲۰۰۴ء

جنگل میں منگل کا محاورہ تو بچپن سے سن رکھا ہے، مگر اس کی صحیح تصویر ۲۵ اگست کو ضلع اٹک کے تھانہ انجراء کے صدر مقام پر پراچہ برادری کے قائم کردہ دینی دارالعلوم کو دیکھ کر سامنے آئی۔ راولپنڈی سے کوہاٹ جاتے ہوئے جنڈ کے مقام پر مین سڑک کوہاٹ کی طرف مڑ جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف مکھڈ شریف اور انجراء کی طرف سڑک جاتی ہے، جس پر کم و بیش پینتیس چالیس کلومیٹر آگے ایک طرف دریائے سواں کے کنارے مکھڈ شریف ہے اور دوسری طرف چند میل کے فاصلے پر انجراء ہے۔ مکھڈ شریف سیاسی اور روحانی دونوں حوالوں سے ملک کی ایک معروف جگہ ہے، جہاں کی پیر فیملی ملکی سیاست میں ایک متحرک کردار کے طور پر متعارف ہے، جبکہ انجراء کے مقام پراچہ برادری نے ایک بہت بڑا دینی دارالعلوم قائم کر رکھا ہے، جس کے طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کی دعوت پر میں وہاں حاضر ہو اور ایک ۔۔۔ قیام کا موقع ملا۔

خشک پہاڑیوں کا یہ خطہ بلوچستان کے علاقے ژوب سے ملتا جلتا ہے۔ زمین میں پانی خاصی گہرائی پر دستیاب ہوتا ہے، اس لیے بارانی علاقہ کہلاتا ہے اور تھوڑی بہت کاشت ہوتی ہے۔ علاقے کی پراچہ برادری کی ایک بڑی تعداد کراچی، لاہور اور کوئٹہ وغیرہ میں قیام پذیر ہے اور یہ اچھے خاصے کاروباری لوگ ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزار کر اس برادری کے نوجوانوں میں خدمت دین کا جذبہ بیدار ہوا اور انہوں نے ’’نوجوانانِ پراچگان‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کر کے دینی تعلیم اور خدمت خلق کو اپنا پروگرام بنا لیا۔ مکھڈ شریف میں مدرسہ تعلیم القرآن کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی، جو گزشتہ باون برس سے قرآن کریم، حفظ و ناظرہ کی تدریس و تعلیم میں مصروف ہے اور اس وقت اس میں تین سو کے لگ بھگ طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن کے قیام و طعام کی ذمہ داری مدرسے پر ہے۔ اس تنظیم میں ملک کے مختلف شہروں میں بسنے والے تین سو کے قریب پراچگان شامل ہیں، جن کا ہر سال مارچ میں مکھڈ شریف میں اجلاس ہوتا ہے۔ سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے، اگلے سال کا پروگرام بنتا ہے اور اخراجات میں اجلاس کے شرکاء اپنے اپنے حصے کا تعین کرتے ہیں۔ یہ این جی او ملک بھر میں ایک سو تیس کے قریب دینی مدارس کے اخراجات میں تعاون کرتی ہے اور چھ سو کے لگ بھگ مستحق خاندانوں کو، جن میں زیادہ تر خاندان یا معذور افراد انجراء اور مکھڈ شریف سے تعلق رکھتے ہیں، باقاعدہ وظائف دیتی ہے۔

انجراء میں آٹھ سال قبل ایک بڑے دارالعلوم کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور ایک سو بیس کنال رقبے پر اس منصوبے کا آغاز کیا گیا، جہاں اس وقت ”پراچہ جامعہ اسلامیہ“ کے نام سے ایک بڑی اور معیاری درسگاہ مصروف کار ہے۔ چھ سو کے قریب طلبہ مختلف درجات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جامعہ میں رہتے ہیں اور ان کے قیام و طعام کی کفالت جامعہ کے ذمے ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب و نظام کے مطابق حفظ قرآن کریم سے لے کر دورہ حدیث تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تئیس اساتذہ اس وقت درس و تدریس کی خدمات میں محو ہیں، جبکہ دوسرا عملہ اس کے علاوہ ہے۔ چار کنال سے زائد رقبے پر خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی ہے، جس کے تہہ خانے میں شعبہ حفظ قرآن کریم کے سینکڑوں طلبہ رہتے ہیں اور وہیں ان کی کلاسیں لگتی ہیں۔ مسجد کی وسعت، مضبوطی اور خوبصورتی کو دیکھ کر کراچی کی خوبصورت مساجد کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ جامعہ کی درسگاہیں اور اساتذہ کی رہائش گاہیں بھی کراچی کی طرز اور معیار پر ہیں، بلکہ اردگرد کے خالص دیہاتی اور پہاڑی ماحول سے نکل کر جامعہ اسلامیہ کے احاطے میں داخل ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوتے سوتے کراچی میں داخل ہو گئے ہیں اور وہاں کے کسی دارالعلوم میں آنکھ کھلی ہے۔

جامعہ اسلامیہ نے اپنی ضروریات کے لیے خاصی گہرائی تک کھدائی کر کے ٹیوب ویل لگوایا ہے، جس سے اردگرد کے عوام کو بھی تین گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام مفت پانی دیا جاتا ہے۔ جبکہ جامعہ کے زیر اہتمام ایک ہسپتال بھی زیر تعمیر ہے، جو مکمل ہونے پر جامعہ کے اساتذہ و طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کے عوام کو بھی مفت طبی سہولیات فراہم کرے گا۔ پراچہ برادری اس جامعہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتی ہے اور انتظامات کی نگرانی حاجی شمس الدین پراچہ اور حاجی احمد بخش پراچہ کے ذمے ہے، جو جامعہ کے مہتمم اور نائب مہتمم ہیں۔ وہ کراچی کے کاروباری لوگوں میں سے ہیں، وہ باری باری چھ چھ ماہ کے لیے آتے اور تعمیری و تعلیمی کاموں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی رہائش کے لیے ’’پراچہ ریسٹ ہاؤس‘‘ کے نام سے ایک الگ عمارت تعمیر کر رکھی ہے، جو ان کی رہائش گاہ کے علاوہ مہمان خانے کا کام بھی دیتی ہے۔ مجھے جامعہ اسلامیہ اور پراچہ ریسٹ ہاؤس دونوں جگہوں میں جانے کا موقع ملا۔ حاجی شمس الدین پراچہ اور حاجی محمد بخش پراچہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کے رہن سہن کے انداز اور معیار میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں کیا، بلکہ اگر مجھ سے ان حضرات کا اس طور پر تعارف نہ کرایا جاتا کہ یہ پراچہ برادری کے بڑے کاروباری افراد میں سے ہیں اور جامعہ کے سربراہ ہیں تو میں انہیں اساتذہ میں سے ہی تصور کرتا، کیونکہ ان دونوں پراچہ صاحبان کو پہلی نظر دیکھنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ کسی دارالعلوم کے استاذ ہیں یا تبلیغی جماعت کے پرانے حضرات میں سے ہیں۔

حاجی شمس الدین پراچہ نے مجھے فون پر جامعہ اسلامیہ آنے اور اساتذہ و طلبہ سے حالات حاضرہ کے تقاضوں پر گفتگو کی دعوت دی تو میرے ذہن میں ایک عام سی دینی درسگاہ کا تصور تھا، لیکن وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ دینی تعلیم اور رفاہ عامہ کا ایک بڑا اور معیاری ادارہ ہے، جس کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور اس کی بنیاد عام لوگوں کے چندوں اور عطیات پر نہیں، بلکہ ایک خوشحال اور کھاتی پیتی برادری نے اپنے طور پر اس کا اہتمام کر رکھا ہے اور وہ اس کے سارے اخراجات کی کفالت کرتی ہے۔

پراچہ برادری کا ایک دارالعلوم کوہاٹ میں بھی ہے، جو اسی طرز پر کام کر رہا ہے۔ چند سال قبل مجھے وہاں جانے کا موقع بھی مل چکا ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق رکن اور مجاہدین و مہاجرین کی نصرت و حمایت میں عالمی شہرت رکھنے والے حاجی جاوید ابراہیم پراچہ انہی پراچگان میں سے ہیں اور قومی سیاست میں اپنی برادری کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

حاجی شمس الدین پراچہ نے وہاں سے رخصت ہونے سے قبل مجھ سے میرے تاثرات کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ پراچہ برادری کا یہ کام میرے تصورات اور توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے، جس پر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں اس کی کامیابی اور ترقی کے لیے دعاگو ہوں، مگر دو باتوں کا خلا مجھے محسوس ہو رہا ہے:

  1. ایک یہ کہ بچوں کی طرح بچیوں کی دینی تعلیم کے لیے بھی اسی طرز اور سطح پر اہتمام ضروری ہے۔
  2. اور دوسرا یہ کہ آپ لوگوں کو علاقے کے عام بچوں کے لیے سکول بھی قائم کرنے چاہئیں، جہاں سکول کی مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم و تربیت اور ماحول کا اہتمام ہو۔ یہ اس علاقے کی ضرورت اور علاقے کے لوگوں کا حق بھی ہے۔

حاجی صاحب نے اس بات پر غور کرنے اور اسے اپنی شوریٰ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پراچہ برادری نے ان دونوں باتوں کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کر لیا تو علاقے میں ایک بڑے تعلیمی اور اصلاحی انقلاب کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

انجراء سے واپسی پر ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑا۔ جاتے ہوئے میں ویگن کے ذریعے جنڈ پہنچا تھا، جہاں سے جامعہ اسلامیہ کی گاڑی نے مجھے وصول کیا اور واپسی کے لیے کوئی مختصر راستہ دریافت کیا تو بتایا گیا ہے کہ تلہ گنگ سے واپسی کا روٹ شارٹ ہے، مگر گاڑی نہیں جا سکے گی کیونکہ دریائے سواں پر کوئی پل نہیں ہے۔ صرف ایک ایئر لفٹ ہے، جس کے ذریعے دریا پار کرنے کے بعد دوسرے کنارے سے تلہ گنگ کے لیے گاڑی مل جائے گی۔ یہ ایئر لفٹ پرائیویٹ طور پر طوطی خان نامی ایک صاحب نے قائم کر رکھی ہے، جو کرائے پر اسے چلا رہے ہیں اور علاقے کے لوگوں کو اس سے بڑی سہولت ہے۔ میں پراچہ جامعہ اسلامیہ کے استاذ مولانا محمد یوسف کے ہمراہ وہاں پہنچا تو ہمارے ہاں کی سوزوکی پک اپ کی طرز کی ایک گاڑی فضا میں لٹکی ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا: ’’سواں ایئر وے‘‘۔ بارہ چودہ مرد و خواتین اس کے اندر آمنے سامنے سیٹوں پر بیٹھ گئے اور دو ساتھی دروازہ بند ہونے کے بعد اس کے باہر پائیدان پر لٹک گئے اور پھر ’’سواں ایئر وے‘‘ نے صرف دو منٹ کی فلائیٹ میں ہمیں دریائے سواں کے کنارے ضلع اٹک کے آخری گاؤں ’’تراپ‘‘ سے دوسرے کنارے پر ضلع چکوال کے پہلے گاؤں” شاہ محمدی“ تک پہنچا دیا۔

احباب کا کہنا ہے کہ اگر دریائے سواں پر پل بن جائے تو انجراء سے تلہ گنگ کی مسافت صرف ایک گھنٹے کی رہ جاتی ہے۔ اس سے آگے موٹر وے ہے، جو پنجاب کے اس آخری کنارے کو لاہور اور اسلام آباد کے بہت قریب کر دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اس علاقے میں تشریف لائے تھے اور انہوں نے اس مقام پر پل بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا، مگر اس وعدے کی تکمیل کے حوالے سے علاقے کے لوگ اس وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کی بات ہو رہی ہے اور اگر یہ ڈیم تعمیر ہو گیا تو تراپ کا یہ علاقہ بھی زیر آب آئے گا، جس کے بعد یہاں پل بننے کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا۔

خواہش تو مکھڈ شریف جانے کی بھی تھی، جس میں اس خبر نے اور شدت پیدا کر دی کہ وہاں ایک پرانی لائبریری ہے، جس میں ہزاروں نایاب کتابیں اور مخطوطات موجود ہیں، مگر وقت کم تھا اور مجھے عصر سے قبل فیصل آباد پہنچنا تھا، اس لیے تشنگی کا احساس دل میں باقی رکھتے ہوئے ظہر کی نماز تلہ گنگ میں ادا کر کے فیصل آباد کی طرف روانہ ہو گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter