ربوہ نہیں چناب نگر : جھنگ کی عدالت کا مستحسن فیصلہ

   
-

گزشتہ روز بعض اخبارات میں یہ خبر نظر سے گزری کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے قادیانی جماعت کے آرگن ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے جریدہ پر مقام اشاعت کا نام ’’ربوہ‘‘ کی بجائے ’’چناب نگر‘‘ تحریر کریں۔ چنانچہ ’’الفضل‘‘ نے اس کے بعد چناب نگر لکھنا شروع کر دیا ہے۔ نیز خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ربوہ کے نام کی تبدیلی کے بعد چناب نگر کے قادیانیوں نے اس فیصلہ کو قبول نہ کرتے ہوئے اس شہر کے پرانے نام ربوہ پر اصرار جاری رکھا ہوا ہے اور وہ اپنے مراکز اور کاروباری اداروں پر مسلسل یہ نام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر مولانا منظور احمد چنیوٹی اور دیگر رہنماؤں کے پر زور مطالبے پر ضلعی انتظامیہ نے ربوہ کے نام کی تبدیلی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے قادیانیوں کو پابند کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

دریائے چناب کے کنارے پر یہ شہر قیامِ پاکستان کے بعد قادیانیوں نے آباد کیا تھا اور مشرقی پنجاب میں واقع قادیان سے نقل مکانی کر کے آنے والے قادیانیوں اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان نے اس وقت کے گورنر پنجاب سے کوڑیوں کے بھاؤ زمین لیز پر حاصل کر کے ایک الگ شہر بسا لیا تھا، جو ایک عرصہ تک خالص قادیانی بستی رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلہ کے بعد اس شہر کے ساتھ کچھ رقبہ مسلمانوں کو دیا گیا جہاں ’’مسلم کالونی‘‘ قائم ہوئی، اور وہیں عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کا مرکز اور مدرسہ ہے۔ قادیانیوں نے اس نئے شہر کا نام جان بوجھ کر ربوہ رکھا، جو قرآن کریم کا لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے تذکرہ میں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی تحریر میں متعدد مقامات پر یہ لکھا ہے کہ وہ خود عیسیٰ ابن مریم ہے (نعوذ باللہ)، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کے دوبارہ نزول کی جو پیشین گوئی فرمائی ہے اس سے مراد وہ یعنی مرزا غلام احمد قادیانی ہے (العیاذ باللہ)۔

اس پس منظر میں قادیانیوں کا اپنے نئے شہر کو ربوہ کے نام سے منسوب کرنا بہت بڑے دجل اور فریب کا مظاہرہ تھا، جس کا مقصد دنیا بھر کے ان مسلمانوں کو دھوکہ دینا تھا جو قادیانیوں کی اصلیت سے آگاہ نہیں ہیں کہ وہ قرآن کریم میں ربوہ کا لفظ دیکھ کر اور مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں میں عیسیٰ ابن مریم ہونے کا دعویٰ پڑھ کر گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اور امرِ واقع یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے مسلمان اس فریب کا شکار ہو کر گمراہی میں مبتلا ہوئے ہیں۔

چنانچہ تحریکِ ختمِ نبوت کے ممتاز راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی نے سب سے پہلے اس فریب کے خلاف آواز بلند کی اور دینی حلقوں کو اس طرف متوجہ کیا۔ جس کے بعد کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت اور عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت نے بھی اپنے مطالبات میں یہ مطالبہ شامل کر لیا کہ ربوہ کا نام تبدیل کر کے قرآن کریم کے لفظ کے غلط اور گمراہ کن استعمال کو روکا جائے۔ مولانا چنیوٹی نے اس مطالبہ کو اجاگر کرنے اور دینی جماعتوں اور حکام کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے سالہا سال تک مسلسل محنت کی، اور پنجاب اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اسمبلی میں دوسرے ارکان کے تعاون سے ربوہ کا نام سرکاری طور پر تبدیل کرنے کی باقاعدہ قرارداد پیش کی جو متفقہ طور پر منظور ہو گئی، اور گزشتہ سال پنجاب اسمبلی کے فیصلہ کے مطابق ربوہ کا نام تبدیل کر کے چناب نگر رکھ دیا گیا۔

اس کے بعد سے قادیانی گروہ اس فیصلہ کے خلاف اپنی تلملاہٹ کا مسلسل اظہار کر رہا ہے اور اندرون ملک اور بیرون ملک دینی حلقوں کے اس متفقہ مطالبے اور منتخب پنجاب اسمبلی کے ایک آرگن ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ نے چند ماہ قبل ’’ربوہ کا نام بحال کیا جائے‘‘ کے عنوان سے ملک کے دینی حلقوں اور خاص طور پر مولانا منظور چنیوٹی کے خلاف جو بدزبانی کی ہے، اور جس طرح خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے وہ ملک کے دینی حلقوں اور منتخب ارکان اسمبلی کے اس اجتماعی فیصلے پر قادیانیوں کی تکلیف کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ

  • جس طرح ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر دنیا بھر میں قادیانیوں کی اصل حقیقت کو آشکارا کر دیا تھا، اور یہ فیصلہ ایسا تھا کہ جسے قادیانی گروہ صرف مولویوں کا فیصلہ کہہ کر اس کے خلاف نفرت انگیز مہم نہیں چلا سکتا تھا۔
  • اسی طرح ۱۹۹۸ء میں پنجاب اسمبلی نے ربوہ کا نام چناب نگر رکھ کر قادیانیوں کے اس فریب کو بھی دنیا پر کھول دیا، جو وہ ربوہ کے قرآنی لفظ کی آڑ میں سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔

اس لیے اپنے مکر و فریب کے جال کو ٹوٹتا دیکھ کر قادیانیوں کی تلملاہٹ ایک طبعی بات ہے۔ قادیانیوں نے نہ صرف اس فیصلہ کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے، بلکہ چناب نگر کے درودیوار، مراکز، تجارتی اداروں اور لٹریچر پر بدستور ربوہ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جو پنجاب اسمبلی کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے اور عملاً اسے چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ حتیٰ کہ چناب نگر کے بعض مقامات پر نئے نام کے جو بورڈ لکھوائے گئے انہیں بھی قادیانیوں نے مٹانا شروع کر دیا۔ اس پر جمعیت علماء اسلام، مجلسِ احرارِ اسلام، مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت، انٹرنیشنل ختمِ نبوت موومنٹ، پاکستان شریعت کونسل اور دیگر دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے قادیانیوں کے اس طرز عمل کا سختی سے نوٹس لیا۔

قادیانیوں کا اس نئے نام پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی اکثریت کو اس شہر کا نام تبدیل کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ لیکن وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ اگر کوئی فرم اپنے لیے کوئی ایسا نام اختیار کر لے جس سے لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہو، تو مجاز حکام کو اس فرم کا نام بدلنے اور لوگوں کو فریب سے بچانے کے لیے اس دھوکہ باز فرم سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

بہرحال جھنگ کی ضلعی انتظامیہ نے یہ قدم اٹھا کر دینی حلقوں کے مطالبہ پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنی منصبی اور ملی ذمہ داریوں کی تکمیل کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ قادیانیوں کے بارے میں عالمی اداروں اور این جی اوز کی سفارشات اور گمراہ کن تجاویز کو قبول کرنے کی بجائے اپنے ملک کے عوام، دینی حلقوں، منتخب اداروں اور عدالتوں کے فیصلے کو سامنے رکھے اور ان پر عملدرآمد کا اہتمام کرے کیونکہ اس کی ذمہ داری یہی بنتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter