بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترمی صاحبزادہ ڈاکٹر پیر نور الحق قادری صاحب، وزیر مذہبی امور حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا ہے کہ اسلام آباد میں ہندو مندر کی تعمیر کے حوالہ سے اسلامی نظریاتی کونسل سے باقاعدہ استفسار کیا گیا ہے۔ ہماری رائے میں ایسے مسائل پر دستوری اداروں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے ہی کوئی متوازن، قابل قبول اور قابل عمل حل تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مگر یہ بات باعث تشویش ہوئی کہ سوال صرف مندر کی تعمیر میں سرکاری فنڈ کے استعمال کے بارے میں کیا گیا ہے جو ایک جزوی مسئلہ ہے، جبکہ مجموعی مسئلہ پر اس کے تمام ضروری پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اصولی اور جامع موقف طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ اس سلسلہ میں چند اہم سوالات کو فیصلہ سے قبل زیر بحث لانا اس کا اہم تقاضہ ہے، مثلاً:
- کیا پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتیں دستور پاکستان کی رو سے ذمی ہیں یا معاہد کی حیثیت رکھتی ہیں؟
- غیر مسلم اقلیتوں کو خود اپنی آبادیوں میں ضرورت کے مطابق عبادت خانے تعمیر کرنے کی اجازت کن شرائط کے تحت دی جا سکتی ہے؟
- ضرورت سے زائد یا ضرورت کے بغیر عبادت گاہوں کی تعمیر کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور ضرورت کے تعین کا اصول کیا ہوگا؟
- ان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدات یا ان کے حوالہ سے مروجہ بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت کیا ہے اور ان کی کس حد تک پاسداری ضروری ہے؟
- کیا غیر مسلم اقلیتوں کو عبادت خانوں کی تعمیر میں سرکاری فنڈ سے مدد دی جا سکتی ہے؟
اس سلسلہ میں ملک کے سرکردہ مفتیان کرام کو بھی اعتماد میں لے لیا جائے اور سیکولر مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے مساجد کی تعمیر کے بارے میں رائج الوقت قوانین و شرائط کا بھی مطالعہ کر لیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ ہمارا خیال ہے کہ ان بنیادی مسائل کو واضح کیے بغیر کوئی بھی فیصلہ کنفیوژن کو دور کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے جس سے ہر صورت ہمیں بچنا چاہیے۔ امید ہے کہ آنجناب ان گزارشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور فرما کر اس نازک اور حساس مسئلہ پر کسی صحیح اور باوقار حل تک پہنچنے میں مؤثر کردار ادا کریں گے۔
ابوعمار زاہد الراشدی
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل
کاپی برائے :
(۱) چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان
(۲) سرکردہ علماء کرام و مفتیان عظام