پاپائے روم جان پال دوم نے گزشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں جامع مسجد اموی کا دورہ کیا اور شام کے مفتی اعظم الشیخ احمد کفتارو سے ملاقات کے علاوہ مسجد کے ایک حصہ میں عبادت بھی کی۔ پاپائے روم مسیحیوں کے کیتھولک فرقہ کے سربراہ ہیں اور اس مسجد میں جانے والے پہلے پوپ ہیں۔ اخبارات میں الشیخ احمد کفتارو کے ساتھ ان کی فوٹو شائع ہوئی جس کے مطابق وہ مسجد میں مفتی اعظم شام کے ساتھ بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔
بظاہر اس واقعہ میں خبریت کا پہلو صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ پاپائے روم مسلمانوں کی ایک مسجد میں گئے اور مسجد میں انہوں نے عبادت کی۔ مگر اس مسجد کے تاریخی پس منظر اور مستقبل کے امکانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ واقعہ بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے، اور اسی وجہ سے اس کے بارے میں کچھ معلومات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ دمشق ہی سے تعلق رکھنے والے آٹھویں صدی ہجری کے معروف محدث، مفسر اور مؤرخ حافظ ابن کثیرؒ نے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ اور ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں جامع مسجد اموی کے تاریخی پس منظر اور مستقبل کے کردار کے بارے میں بہت سی تفصیلات بیان کی ہیں، ان میں سے بعض کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دمشق یونانی کلدانیوں نے آباد کیا تھا اور اس میں یہ عبادت خانہ بھی انہی کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ بعض روایات کے مطابق اس عبادت گاہ کی پہلی اینٹ حضرت ہود علیہ السلام نے رکھی تھی جن کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ چنانچہ تاریخی روایات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دمشق تشریف آوری اور یہاں کے بت پرست اور ستارہ پرست حضرات سے ان کے مباحثہ و مناظرہ کا تذکرہ ملتا ہے، حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہی دمشق میں ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام کے بعد اس عبادت گاہ پر ستارہ پرستوں کا تسلط ہو گیا اور ہزاروں سال ان کی عبادت گاہ کے طور پر یہ جگہ اور عمارت استعمال ہوتی رہی۔ ستارہ پرستوں نے دمشق کے سات بڑے دروازے بنائے تھے جو نظام شمسی کے سات سیاروں سورج، زمین، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری اور زحل کے نام پر تھے، اور سات دروازوں پر ان ستاروں کے نام کے ہیکل بھی تعمیر کیے گئے تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے تین سو سال بعد قسطنطنیہ آباد کرنے والے مسیحی فرمانروا شاہ قسطنطین کے عہد میں دمشق عیسائیوں کے قبضہ میں آیا، اور انہوں نے کم و بیش چار ہزار سال سے چلے آنے والے اس معبد کو مسیحی عبادت گاہ کلیسا کی شکل دے کر اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری حضرت یوحنا کے نام سے موسوم کر دیا، اور اس کے بعد کم و بیش تین سو سال تک یہ کلیسا یوحنا کے طور پر عیسائیوں کی عبادت گاہ رہی۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ۱۴ھ میں حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں دمشق کو مسلمانوں نے فتح کیا۔ مسلمان فوجیں دمشق پر دو طرف سے حملہ آور ہوئیں، مشرقی جانب سے خالد بن ولیدؓ نے دمشق پر چڑھائی کی، اور مسیحی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے دمشق میں داخل ہو گئے، جبکہ دوسری طرف سے حضرت ابو عبیدہؓ نے حملہ کیا، مگر مسیحی فوجوں کی اس طرف کی کمان نے حضرت ابو عبیدہؓ سے جنگ کرنے کی بجائے صلح اور امان کے معاہدہ کے تحت ان کے لیے شہر میں داخلے کا راستہ صاف کر دیا، اور دونوں مسلمان جرنیلوں کی فوجیں شہر کے وسط میں ایک دوسرے سے مل گئیں۔
اب یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ دمشق لڑائی سے فتح ہوا ہے یا صلح سے مسلمانوں کی تحویل میں آیا ہے؟ کیونکہ دونوں صورتوں کے شرعی احکام الگ الگ ہیں، تو یہ طے پایا کہ نصف شہر کو لڑائی اور نصف شہر کو امن اور صلح کے ساتھ مفتوح قرار دیا جائے۔ چنانچہ اس کے مطابق مسیحی رہنماؤں سے باہمی امن اور معاملات کا نیا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت اس قدیمی عبادت گاہ کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کا مشرقی حصہ مسجد قرار پایا اور اس میں حضرت ابوعبیدہؓ نے سب سے پہلی نماز پڑھا کر اس کا افتتاح فرمایا، جبکہ مغربی حصہ بدستور مسیحی عبادت گاہ یعنی ’’کلیسا یوحنا‘‘ کے نام سے موسوم رہا۔ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ ۸۴ھ تک یہ کیفیت رہی کہ اس کا مرکزی دروازہ ایک ہی تھا جس سے مسلمان اور عیسائی دونوں داخل ہوتے تھے اور اس کے بعد دونوں الگ الگ اپنی عبادت گاہوں کی سمت مڑ جاتے تھے۔
۱۴ھ میں جب اس عبادت گاہ کو ایک معاہدہ کے تحت نصف نصف تقسیم کیا گیا تو اس معاہدہ میں عیسائیوں کے کم و بیش بارہ کلیساؤں کو تحفظ دیا گیا تھا کہ وہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کے طور پر محفوظ رہیں گے اور مسلمان ان سے کوئی تعرض نہیں کریں گے۔ ۸۴ھ میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملکؒ کے دور میں مسجد کا حصہ مسلمانوں کے لیے تنگ پڑ گیا اور اس میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی تو خلیفہ ولیدؒ نے مسیحی رہنماؤں کو بلا کر انہیں پیشکش کی کہ اس کے عوض وہ اپنی ان عبادت گاہوں کو دوبارہ حاصل کر لیں جو ۱۴ھ کے معاہدہ میں شامل نہیں تھیں اور کلیسا یوحنا کا یہ باقی نصف حصہ مسلمانوں کو دے دیں تاکہ مسجد کو توسیع دی جا سکے۔ مگر مسیحی رہنماؤں نے یہ تجویز مسترد کر دی اور کہا کہ ۱۴ھ کا معاہدہ دوبارہ سامنے لا کر پڑھا جائے اور اس کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ معاہدہ مسلمان اور مسیحی رہنماؤں کے سامنے مشترکہ طور پر دوبارہ پڑھا گیا۔
اس معاہدہ میں جن کلیساؤں کو تحفظ دیا گیا تھا ان میں ’’کلیسا توما‘‘ شامل نہیں تھا، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری حضرت توما کے نام سے موسوم تھا اور عیسائیوں کے نزدیک کلیسا یوحنا سے بھی زیادہ اہمیت اور تقدس رکھتا تھا۔ خلیفہ ولیدؒ نے مسیحی رہنماؤں سے کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ کلیسا یوحنا کا باقی نصف حصہ نہیں دیتے تو آپ کی مرضی ہم آپ پر زبردستی نہیں کریں گے، لیکن کلیسا توما چونکہ تحفظ کے معاہدہ میں شامل نہیں ہے اس لیے ہم اسے گرا کر مسجد کی شکل دے دیتے ہیں۔ یہ صورتحال مسیحی رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں تھی، چنانچہ انہوں نے دوبارہ آپس میں صلاح مشورہ کیا اور کلیسا توما کے تحفظ کی شرط پر کلیسا یوحنا کے باقی ماندہ حصہ سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا اور ایک نئے معاہدہ کے تحت یہ کلیسا خلیفہ ولیدؒ کے حوالے کر دیا گیا۔
عیسائیوں سے کلیسا یوحنا کا باقی ماندہ حصہ حاصل کرنے کے بعد اس مسجد کی تعمیر نو کا مرحلہ پیش آیا تو خلیفہ ولید بن عبد الملکؒ نے اس کی تعمیر میں ذوق اور عقیدت کی انتہا کر دی اور دس سال کے عرصہ میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو وہ مؤرخین کے مطابق اپنے دور میں دنیا کی خوبصورت ترین عمارت تھی۔
پہلا مرحلہ کلیسا کی عمارت کو گرانے کا تھا جس کے بارے میں مسیحی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ اس مقدس عمارت کو جو بھی گرائے گا وہ عذاب کا شکار ہو گا۔ چنانچہ بعض مسیحی رہنماؤں نے خلیفہ ولیدؒ کو بھی ڈرانے کی کوشش کی اور کہا کہ گرجا کی عمارت پر جو سب سے اونچا مجسمہ ’’شاہد‘‘ کے نام پر ہے اسے گرانا بہت بڑے خطرے کی بات ہے اس لیے اس سے گریز کیا جائے۔ اس کے جواب میں خلیفہ ولیدؒ نے کہا کہ اس مجسمہ کو میں خود اپنے ہاتھ سے گراؤں گا۔ اسے کہا گیا کہ اس مجسمے پر ضرب لگانے والے شخص کے پاگل ہونے کا خطرہ ہے تو خلیفہ نے کہا کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لیے پاگل ہونے کو تیار ہوں‘‘۔
چنانچہ عمارت کو گرانے کے لیے وقت کا اعلان کیا گیا۔ دمشق کے سب لوگ مسلمان اور عیسائی کثیر تعداد میں جمع ہوئے۔ خلیفہ ولید بن عبد الملکؒ خود تیشہ لے کر اوپر چڑھا اور اس مجسمہ کے سر پر پہلا وار کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ مسلمانوں نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا، مسیحی صفوں میں رونے چیخنے کی آوازیں بلند ہوئیں اور اس کے ساتھ ہی خلیفہ کی پہلی ضرب کے انتظار میں کھڑے ہزاروں لوگ عمارت پر چڑھ دوڑے جس سے تھوڑی ہی دیر میں وہ جگہ صاف اور ہموار میدان کی صورت اختیار کر چکی تھی۔
خلیفہ ولیدؒ نے دنیا کے مختلف ملکوں سے بہترین انجینئر بلوائے، نقشہ بنوایا اور خود اپنی نگرانی میں تعمیر شروع کرا دی جو دس سال تک جاری رہی۔ ایک مرحلہ پر انجینئروں نے خاص قسم کے سیسہ کی فرمائش کی جو عام مارکیٹ میں نہیں مل رہا تھا۔ پتہ چلا کہ ایک اسرائیلی خاتون کے پاس اس کا ذخیرہ ہے۔ اس سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ چاندی کے ساتھ تول کر اس کے عوض دوں گی۔ خلیفہ نے کہا کہ سونے کے ساتھ تول کر ملے تو بھی لے لیا جائے۔ اس خاتون کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بلا معاوضہ یہ سیسہ وقف کرتی ہوں۔ چنانچہ وہ سیسہ عمارت میں استعمال کیا گیا اور اس کے ساتھ یہ کتبہ لگایا گیا کہ ’’یہ ایک اسرائیلی خاتون کا مسجد کے لیے عطیہ ہے‘‘۔
مسجد پر دس سال کے عرصہ میں جتنا خرچہ ہوا اس کے بارے میں حافظ ابن کثیرؒ نے مختلف روایات نقل کی ہیں، جن میں متوسط مقدار کی روایت کے مطابق پانچ کروڑ دینار سے زیادہ رقم مسجد کی تعمیر پر خرچ ہوئی۔ دینار سونے کا سکہ تھا جس کا وزن ساڑھے چار ماشے بتایا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جامع مسجد اموی کی تعمیر پر ہماری کرنسی کے حساب سے کس قدر رقم خرچ ہوئی ہوگی۔
مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ خلیفہ ولیدؒ نے فضول خرچی کی ہے اور بیت المال کی رقوم کو بے جا خرچ کیا ہے۔ اس پر خلیفہ نے عام لوگوں کو مسجد میں بلایا اور کھلے اجتماع میں بیت المال کے انچارج عمرو بن مہاجرؒ کو حکم دیا کہ بیت المال میں جس قدر خزانے ہیں وہ سامنے میدان میں لا کر ڈھیر کر دیے جائیں۔ تھوڑی دیر میں میدان میں ہر طرف سونے چاندی کے ڈھیر ہی ڈھیر نظر آ رہے تھے۔ ان کا اسی وقت اندازہ لگوایا گیا تو معلوم ہوا کہ بیت المال کے شرعی مصارف کے مطابق یہ خزانہ دس سال کی قومی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اس کارروائی کے بعد خلیفہ ولیدؒ نے اعلان کیا کہ مسجد کی تعمیر میں بیت المال سے ایک درہم بھی خرچ نہیں کیا گیا، اور جو کچھ خرچ ہوا ہے وہ میں نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ اس پر لوگوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور خلیفہ کی تعریف کی۔
نئی مسجد کی تعمیر سے قبل بے شمار صحابہ کرامؓ اس مسجد میں نماز ادا کرتے رہے۔ البتہ نئی مسجد کی تعمیر کے آخری مراحل میں حضرت انس بن مالکؓ بطور خاص مسجد میں تشریف لائے اور اس میں نماز ادا کی۔ مسجد تعمیر کرنے والے کاریگروں کے ایک نگران زید بن واقدؒ کی روایت حافظ ابن کثیرؒ نے نقل کی ہے کہ تعمیر کے دوران ایک غار نظر آئی جس میں ہم روشنی لے کر اندر گئے تو تین گز کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی خوبصورت عبادت گاہ بنی ہوئی تھی اور اس میں ایک صندوق تھا۔ صندوق کھولا تو اس میں ایک خوبصورت اور وجیہ سر تھا جس کے ساتھ ایک کتبہ لکھا ہوا تھا کہ ’’یہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر مبارک ہے‘‘۔ خلیفہ ولیدؒ کے حکم پر اس غار کو اسی طرح بند کر دیا گیا اور اس پر ایک ستون کھڑا کیا گیا جسے رنگ و نقش کے لحاظ سے دوسرے ستونوں سے ممتاز کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پاپائے روم نے اپنے حالیہ دورے میں اسی ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت کی ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام کے فرزند اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی تھے، اور جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ نزول کی جو پیش گوئی فرمائی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ دمشق کے مشرق میں سفید مینارے پر نازل ہوں گے۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت نواس بن سمعانؓ کی روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے جب نازل ہوں گے تو دمشق کے مشرق میں سفید مینارہ پر پہلے اتریں گے اور وہاں سے نیچے تشریف لائیں گے‘‘۔ یہ مینارہ اسی مسجد اموی کا مشرقی مینار ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ۷۴ھ میں عیسائیوں کی شرارت سے اس مینارہ کو آگ لگ گئی تھی جس کے بعد اس کو گرا کر سفید پتھروں سے دوبارہ بنایا گیا۔
حافظ ابن کثیرؒ نے ان روایات کو متواتر قرار دیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ مسجد میں فجر کی نماز کھڑی ہونے والی ہو گی اور حضرت امام مہدیؒ امامت کے مصلیٰ پر جانے کی تیاری کر رہے ہوں گے کہ اوپر مینار سے آواز آئے گی کہ سیڑھی لائی جائے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نیچے اتریں گے، حضرت امام مہدیؒ ان کا استقبال کریں گے اور نماز پڑھانے کے لیے کہیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ نماز آپ ہی پڑھائیں۔ چنانچہ ان کے ارشاد پر حضرت امام مہدیؒ نماز فجر پڑھائیں گے اور اس کے بعد ان دونوں بزرگوں کی قیادت میں عالمِ اسلام کے نئے دور کا آغاز ہوگا، جس میں یہودی سلطنت کے مکمل خاتمہ، خلافتِ اسلامیہ کے اَحیا اور پوری دنیا میں اسلامی نظام کے ذریعے امن و خوشحالی کا دور دورہ شامل ہے۔
اس پس منظر میں جامع مسجد اموی دمشق میں پاپائے روم کی آمد اور عبادت بظاہر مسجد کے ساتھ عقیدت اور مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کے اظہار کی ایک صورت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن مسیحی اشاعت خانہ فیروز پور روڈ لاہور کی شائع کردہ ‘‘قاموس الکتاب‘‘ میں دمشق کے بارے میں اس ریمارکس پر نظر ڈالی جائے تو پاپائے روم کے اس دورے کے بین السطور کو پڑھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا کہ
’’صدیوں تک یہ مثل مشہور رہی ہے کہ دنیا کی ابتداء دمشق سے ہوئی اور اختتام بھی دمشق پر ہو گا۔ آج کل یہ مسیحی دنیا اور اسلامی دنیا کے درمیان کشمکش اور بین الاقوامی بے چینی کا مرکز ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی کشمکش تو سب کو نظر آ رہی ہے۔ مسیحی دنیا کی کشمکش اور بین الاقوامی بے چینی درمیان میں کہاں سے ٹپک پڑی ہے؟ کیا یہ تاریخ کے بہت سے الجھے ہوئے سوالوں کا جواب تو نہیں؟