سود کے خاتمہ کے بارے میں دینی حلقوں کی طویل عدالتی جنگ منزل پر پہنچتے پہنچتے ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے تیس جون ۲۰۰۱ء تک ملک سے سودی نظام کے مکمل خاتمے کا ٹارگٹ دے کر حکومت کو غیر سودی نظام لانے کے لیے جو ہدایات جاری کی تھیں، انہیں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی طرف سے دوبارہ چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اور سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست میں مذکورہ بینک کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کو کسی قانون کو خلافِ اسلام قرار دینے کا اختیار تو حاصل ہے، مگر اس کے متبادل کوئی قانون نافذ کرنے کا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ یہ قانون سازی ہے اور قانون سازی عدلیہ کے بجائے مقننہ کا کام ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی ہے اور اس طرح یکم جولائی ۲۰۰۱ء سے غیر سودی نظام کے آغاز کی جو توقع کسی درجہ میں ملک کے دینی حلقوں نے موجودہ حکومت سے وابستہ کر لی تھی، وہ دم توڑ گئی ہے۔ اب یہ رٹ کتنا عرصہ چلتی ہے اور سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کب اور کیا صادر کرتی ہے؟ اس کا ابھی کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کام پر مزید کئی سال گزر جائیں گے۔
البتہ صورتحال میں ایک تبدیلی آئی ہے کہ سودی نظام برقرار رکھنے والے حلقوں کی طرف سے اس دفعہ یہ نہیں کہا گیا کہ سودی نظام کا کوئی متبادل موجود نہیں، اور نہ ہی مختلف حیلوں بہانوں سے سود کی بعض صورتوں کو شرعاً جائز قرار دینے کی (اخباری اطلاعات کی حد تک) کوئی صورت اختیار کی گئی ہے، بلکہ ان دونوں امور پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے قوانین کو ختم کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں اب سودی نظام کے حامی حلقے تاویل کے بجائے صاف انکار کے موقف پر آ گئے ہیں، اور ان کا نیا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ ٹھیک ہے سود کا نظام خلافِ اسلام ہے اور یہ بھی تسلیم کہ اس کا متبادل نظام بھی دنیا میں موجود ہے، لیکن اس کے باوجود سودی نظام ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور کسی اتھارٹی کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اس غیر اسلامی نظام کو ختم کرنے کا حکم دے۔
اس نئی صورتحال پر دل لرز رہا ہے کہ سودی نظام سے صریح انکار کے نتائج کیا ہوں گے اور تباہ حالی اور افراتفری کا شکار قومی زندگی کو خدا کے عذاب کی اور کون کی شکل کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود سے باز نہ آنے والوں کے طرز عمل کو اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ ہم گزشتہ نصف صدی سے قومی سطح پر جن مصائب و مشکلات سے دوچار ہیں ان کی بنیادی وجہ اسلامی نظام سے انحراف بالخصوص سودی نظام کو باقی رکھنے پر اصرار ہے، اور جب تک ہم اس ضد سے باز نہیں آتے اس وقت تک صورتحال میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پاکستان کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس نئے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا۔ بانئ پاکستان محمد علی جناحؒ نے صراحت کے ساتھ بار بار اس کا اعلان کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد میں ملک کی منزل اسلامی نظام کی عملداری کو قرار دے دیا۔ مگر جن طبقات کے ہاتھ میں ملک کا عملی نظام ہے وہ کبھی اس کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئے اور ان کی غیر سنجیدگی کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ محمد علی جناحؒ کے ان صریح اعلانات میں سے دو کا حوالہ دینا چاہوں گا جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ تحریکِ پاکستان کے موقع پر قوم سے کس قدر واضح وعده کیا گیا تھا۔
آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ۱۹۴۳ء کے سالانہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر محمد علی جناح نے کہا کہ
مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصل کر دیا تھا۔
اسی طرح پاکستان بن جانے کے بعد پندرہ جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بانئ پاکستان جناب محمد علی جناحؒ نے کہا کہ
’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی مجلسِ تحقیقِ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افراد انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش کو دور کرنے میں ناکام رہا ۔ بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی، ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمانوں کی حیثیت سے اپنا فرض سر انجام دیں گے، انسانیت کو سچ اور صحیح امن کا پیغام دیں گے، اور صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے، صرف ایسا امن ہی بنی نوعِ انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین ہو سکتا ہے۔‘‘
ان تصریحات کے مطابق ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کے بارے میں بانئ پاکستان نے کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیا، اور ہر مسئلہ کو صفائی کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے لیے قرآن پاک اور سنتِ نبویؐ کے واضح ارشادات (نعوذ باللہ) کوئی اہمیت نہیں رکھتے وہ محمد علی جناحؒ کی ان باتوں سے کیا سبق حاصل کریں گے؟ بہرحال یہ نئی صورتحال انتہائی تشویشناک اور اضطراب انگیز ہے، اور قوم کو اس دلدل سے صرف اور صرف دینی حلقے ہی نکال سکتے ہیں، جو اگر متحد ہو جائیں اور اسلامی نظام کے نفاذ اور سودی نظام کے خاتمہ کے لیے مشترکہ طور پر آواز بلند کریں تو ہو سکتا ہے ان کی آواز کسی نئے عذابِ الٰہی کے لیے رکاوٹ بن جائے۔