صدر جنرل پرویز مشرف نے ریفرنڈم کے لیے رابطہ مہم کا لاہور سے آغاز کر دیا ہے اور زندہ دلانِ لاہور نے شکر کیا ہے کہ انہیں طویل عرصہ کے بعد کسی سیاسی جلسہ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس سے قبل ۲۳ مارچ کو اے آر ڈی (الائنس فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی) نے موچی دروازہ کے تاریخی گراؤنڈ میں جلسہ کرنا چاہا تو اسے اجازت نہ ملی، گراؤنڈ کو پانی سے بھر دیا گیا، راستے بند کر دیے گئے، لیڈروں کو گرفتار کر کے ضلع بدر کر دیا گیا اور تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ مگر وہی پولیس اور ناظمین جو اے آر ڈی کے جلسہ کو روکنے اور ناکام بنانے کے لیے سرگرم تھے صدر جنرل پرویز مشرف کے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے انہوں نے دن رات ایک کر دیا۔ دو روز پہلے ہی بسیں اور ویگنیں پکڑ لی گئیں، تمام سرکاری محکمے جلسہ کے لیے متحرک ہو گئے اور ناظمین نے اسے اپنی عزت بلکہ بقا کا مسئلہ سمجھ لیا۔ چنانچہ جلسہ حاضری کے لحاظ سے کامیاب ہوا اور خوب کامیاب ہوا۔
ریفرنڈم کے لیے ۳۰ اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور سوال بھی سامنے آ گیا ہے کہ اگر عوام کو صدر پرویز مشرف کی موجودہ پالیسیوں سے اتفاق ہے تو وہ انہیں پانچ سال کے لیے صدر بنانے کی تائید کر دیں۔ ریفرنڈم کے نتائج کے بارے میں صدر پرویز مشرف کے اس اعلان کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ انہوں نے ہارنے کے لیے ریفرنڈم کا فیصلہ نہیں کیا۔ اور ویسے بھی ہمارے ہاں ریفرنڈم کی اپنی روایات ہیں اور کسی حکومت کے کسی ریفرنڈم میں ناکام ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اس ریفرنڈم میں ووٹوں کا تناسب کیا ہو گا؟ ووٹروں کی فہرستوں کو غیر ضروری قرار دے کر اور صرف شناختی کارڈ کی بنیاد پر اٹھارہ سال کے کسی بھی شخص کو ملک کے کسی بھی پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈالنے کی سہولت دینے کا اعلان کر کے باقاعدہ ووٹروں اور ان کے تناسب کا مسئلہ ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ بات پیشگی طور پر طے شدہ ہے کہ صدر پرویز مشرف ہماری سابقہ روایات کے مطابق یہ ریفرنڈم جیت چکے ہیں اور ۳۰ اپریل کو اس کا صرف رسمی اعلان ہوگا۔
اے آر ڈی اور متحدہ مجلس عمل نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دے کر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے اور دونوں متحدہ محاذوں کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ ریفرنڈم کے خلاف رائے عامہ کو منظم کریں گے اور عوام کو ریفرنڈم کے دن پولنگ سٹیشنوں تک جانے سے منع کریں گے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ یہ دونوں متحدہ محاذ اپنی رابطہ عوام مہم کو کس طرح چلاتے ہیں؟ انہیں عوام سے رابطہ کرنے اور جلسے جلوسوں کی اجازت ملتی ہے یا وہی موچی دروازے والی روایت دہرائی جاتی ہے؟ اور ریڈیو، ٹی وی و دیگر ذرائع ابلاغ ان کے نقطہ نظر کو عوام تک پہنچانے میں کس حد تک ان سے تعاون کرتے ہیں؟ کیونکہ اس کے بغیر تو یہ شو سراسر یک طرفہ ہوگا اور صدر پرویز مشرف نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ایسی صورت میں بہرحال جیت ہی جیت ہوتی ہے، اس میں ہار کا کوئی امکان آخر ہو بھی کیسے سکتا ہے؟
مگر اس سب کچھ سے قطع نظر ہم لاہور میں صدر پرویز مشرف کے حالیہ خطاب کے اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں جس میں انہوں نے جلسہ عام کے شرکاء نے پوچھا کہ کیا انہیں صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اتفاق ہے؟ جس کے جواب میں عوام نے ہاتھ ہلا ہلا کر اثبات میں جواب دیا اور صدر محترم نے فرمایا کہ وہ مطمئن ہیں کہ لاہور کے عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔
ہمارے ہاں یہ روایت بہت عرصہ سے چلی آ رہی ہے کہ جلسہ عام میں سٹیج کی طرف سے کسی فیصلے کا اعلان کر کے عوام سے رائے طلب کی جاتی ہے اور جلسہ کے شرکاء کی اجتماعی آواز کو اس کی تائید تصور کر کے اسے عوام کا فیصلہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے قذافی سٹیڈیم لاہور کے جلسہ عام میں بنگلہ دیش کو منظور کرنے کی عوامی تائید اسی طرح حاصل کی تھی۔ اور ہمارے ہاں کے دینی اور سیاسی دونوں طرح کے جلسوں میں کسی فیصلہ، موقف یا قرارداد کی تائید عام طور پر جلسوں میں اس طرح حاصل کی جاتی ہے، لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی فیصلے کے لیے اس طریق کار کو پسند نہیں فرمایا اور اسی کے حوالہ سے ہم کچھ گزارش کرنا چاہتے ہیں۔
بخاری شریف کی ایک تفصیلی روایت کے مطابق غزوہ حنین میں مسلمانوں کی فتح کے بعد بہت سے افراد گرفتار ہوئے اور بے شمار مال و دولت اور جانور وغیرہ غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے قانون کے مطابق اسلامی لشکر میں تقسیم فرما دیا۔ قیدی بھی غلام اور لونڈی کے طور پر تقسیم کر دیے گئے اور مال و دولت اور جانور وغیرہ بھی تقسیم ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد ہوازن یعنی حنین میں شکست کھانے والے قبیلہ کا ایک وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ان کے قیدی اور مال واپس کر دیے جائیں۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ وہ اس بات کے لیے چند روز ان کا انتظار کرتے رہے ہیں اور ان کے نہ آنے پر قیدی اور مال دونوں تقسیم کر دیے گئے ہیں، جس کے بعد اب ان قیدیوں اور مال پر ان کا اختیار نہیں رہا بلکہ وہ اب مسلمانوں کی ملکیت میں چلے گئے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں فیصلہ کرنا بھی ان کے مالکوں کا کام ہے اور ان سے دریافت کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم وفد کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ مال اور قیدی دونوں واپس نہیں مل سکتے، اس لیے ان میں سے ایک کا انہیں انتخاب کر لینا چاہیے، تاکہ وہ اس کے لیے مسلمانوں سے بات کر سکیں۔ بنو ہوازن کے وفد نے کہا کہ اگر دونوں میں سے ایک ہی چیز واپس مل سکتی ہے تو وہ قیدیوں کا انتخاب کرتے ہیں اور مال و دولت کے مطالبہ سے دستبردار ہوتے ہیں، ان کے قیدی واپس کر دیے جائیں۔
بنو ہوازن کے وفد سے بات کرنے کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کو جمع کیا، جس کی تعداد اس وقت بارہ ہزار تھی۔ آنحضرتؐ نے مجاہدین کو بنو ہوازن کے وفد کے ساتھ اپنی گفتگو کی تفصیل سنائی اور فرمایا کہ میں نے قیدی واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن یہ چونکہ آپ لوگوں کی ملکیت میں ہیں، اس لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ تم میں سے جو شخص اپنے حصے کا قیدی بخوشی واپس کر دے اس کی مرضی ہے، اور جو شخص اس پر راضی نہ ہو میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ پہلی جنگ کی غنیمت میں سے اس کو اس کے عوض قیدی دے دیے جائیں گے، وہ اس وقت میرے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے قیدی واپس کر دے۔ اس پر بارہ ہزار کے جلسہ میں اجتماعی آواز آئی کہ ہم سب بخوشی اپنے قیدی واپس کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آواز کو قبول نہ کیا اور فرمایا کہ ہمیں اس بات کا پتہ نہیں چل رہا کہ تم میں سے کون اس بات کو قبول کر رہا ہے اور کس کو یہ قبول نہیں ہے۔ اس لیے تم سب اپنے اپنے خیموں میں واپس جاؤ اور تمہارے نمائندے تم سے بات کر کے ہمیں آ کر بتائیں، پھر ہم حتمی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ سب لوگ خیموں میں چلے گئے اور ان کے نمائندوں نے باری باری آ کر جناب نبی اکرمؐ کو بتایا کہ وہ جس حلقے یا قبیلے کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ اپنے قیدی بخوشی واپس کرنے کو تیار ہیں۔ اور سب نمائندوں کی طرف سے توثیق مل جانے کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی بنو ہوازن کو واپس کرنے کا فیصلہ فرما دیا۔
بخاری شریف کی اس روایت سے دو باتیں بطور اصول سمجھ میں آتی ہیں:
- ایک یہ کہ کسی بھی اجتماع کی عمومی آواز کو سارے اجتماع کا فیصلہ قرار دینا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر دس بارہ ہزار کے اجتماع میں ہزار بارہ سو افراد بھی اجتماع کی آواز بلند کر دیں تو وہ بظاہر سارے اجتماع کی آواز سمجھی جاتی ہے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مبہم اور مجمل عوامی رائے کو قبول نہیں کیا بلکہ نمائندوں کے ذریعے سب لوگوں سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
- دوسری بات یہ کہ جہاں سب لوگوں کی رائے براہ راست معلوم کرنا ممکن نہ ہو اور عوام تک براہ راست رسائی محال ہو وہاں نمائندگی کے ذریعے لوگوں کو مشاورت میں شریک کرنا، ان تک رسائی حاصل کرنا اور ان کی رائے معلوم کرنا بھی سنت نبویؐ ہے، اور اسلام کے اجتماعی مشاورتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس لیے سیاسی جلسوں میں لوگوں سے ہاتھ اٹھوا کر فیصلے لینے کی روایت ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ضرور ہے، مگر اسلامی روایات اور سنت نبویؐ کی روشنی میں یہ کوئی پسندیدہ طریق کار نہیں ہے۔ اگر عوام کی رائے لینا ہے تو اس کے لیے وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے ذریعے عوام کی صحیح معنوں میں رائے معلوم ہو سکے۔ محض خانہ پری کرنا عوامی رائے کا احترام نہیں بلکہ اس کی بے حرمتی اور توہین ہی کہلائے گا۔