قربانی — شبہات کا ازالہ

   
۱۰ فروری ۲۰۰۳ء

ذی الحجہ ہجری سن کا آخری مہینہ ہے جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن فریضۂ حج اور اسلامی شریعت کے احکام میں سے ایک حکم قربانی کی ادائیگی کا ہے۔ حج فرض ہے اور قربانی احناف کے نزدیک واجب، جبکہ دیگر فقہاء امت کے ہاں سنت مؤکدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ واجب اور سنت مؤکدہ کا فرق بھی محض اصطلاحی اور فنی سا ہے، ورنہ عملی طور پر امتِ مسلمہ کے تمام فقہی مکاتب فکر کے ہاں قربانی کی ادائیگی کا یکساں اہتمام ہوتا ہے، اور یہ اہتمام چودہ سو برس سے تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے۔

عصر حاضر کے بعض متجددین نے یہ کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ قربانی صرف منیٰ کے ساتھ خاص ہے کہ دنیا بھر سے جو حاجی آتے ہیں ان کی مہمان نوازی کے لیے وہاں جانور ذبح کیے جاتے تھے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ صحاح ستہ کی روایات کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ہر سال قربانی کیا کرتے تھے اور صحابہ کرامؓ بھی مدینہ منورہ میں عیدالاضحیٰ پر قربانی کے لیے جانور ذبح کیا کرتے تھے، حالانکہ اس دور میں حاجیوں کا مدینہ منورہ آنے کا کوئی معمول نہیں تھا۔

یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحیٰ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ قربانی کا وقت نماز عید ادا کرنے کے بعد ہے۔ اس لیے جس نے نماز عید سے قبل جانور ذبح کیا ہے اس کی قربانی نہیں ہوئی اور اسے دوبارہ قربانی کرنا ہو گی۔ اس پر ایک صحابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں تو نماز عید کے لیے عیدگاہ میں آنے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر کے آیا ہوں تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ یہ عام گوشت کی طرح ہے اس کو کھا سکتے ہو، لیکن قربانی تمہیں دوبارہ کرنا پڑے گی۔ چنانچہ اس صحابی نے دوبارہ قربانی کا جانور ذبح کیا۔

اس واقعہ سے ان لوگوں کا اشکال بھی ختم ہو جاتا ہے کہ قربانی کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ غریب لوگوں کو گوشت کھلانا اور ان کی ضروریات میں ہاتھ بٹانا ہے۔ اس لیے اگر جانور ذبح کرنے کی بجائے کسی اور ذریعہ سے رقم صدقہ خیرات کر دی جائے، یا قربانی کی رقم غریب لوگوں کے کسی اور مصرف میں لائی جائے تو بھی قربانی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے نماز عید سے قبل ذبح کیے ہوئے جانور کی قربانی کی نفی کر کے اور دوبارہ جانور ہی ذبح کرنے کا حکم دے کر یہ واضح فرما دیا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جانور ذبح کرنا ہے اور یہ عبادت صرف اسی صورت میں ادا ہو گی۔

ہر آسمانی مذہب کی طرح اسلام میں بھی عبادت کی مخصوص صورتیں متعین ہیں جو اسی صورت اور شکل میں ادا کی جائیں گی تو بطور عبادت قبول ہوں گی، اور اگر اس کی کوئی متبادل صورت اپنی طرف سے نکالی جائے گی تو وہ عبادت کا درجہ حاصل نہیں کر سکے گی۔

مثلاً نماز کے اوقات اور اس کی عملی شکل طے شدہ ہے اور اس کے شرائط و آداب بھی متعین ہیں۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اصل مقصد تو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا ہے، اس کی حمد و ثنا کرنا ہے اور اس کی بندگی میں کچھ وقت گزارنا ہے، اس لیے میں اس کی بجائے عبادت کا کوئی اور طریقہ اختیار کر لیتا ہوں۔ اور چونکہ میرے روز مرہ کے معمولات اور ضروریات کا دائرہ مختلف ہے اور میرے لیے ان مخصوص اوقات میں خود کو نماز کے لیے فارغ کرنا مشکل ہے، اس لیے میں اپنی سہولت، ضروریات اور مصروفیات کے مطابق نمازوں کے اوقات خود متعین کر لیتا ہوں۔ تو اس کا یہ عمل اس کی تمام تر مجبوریوں اور خلوصِ نیت کے باوجود عبادت نہیں کہلائے گا، بلکہ بدعت حتیٰ کہ بعض صورتوں میں کفر کی حد تک جا پہنچے گا۔

یا مثلاً روزہ کے اوقات اور ایام شریعت کی طرف سے متعین ہیں۔ مگر کسی شخص کے ذہن میں یہ خیال آ جائے کہ اصل مقصد تو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے جسمانی مشقت برداشت کرنا اور بھوکا پیاسا رہنا ہے۔ اس لیے میں اس بھوک اور پیاس کا دورانیہ اور اس کے ایام اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق خود طے کرتا ہوں، تو اس کا یہ عمل قطعاً روزہ نہیں کہلائے گا۔ اس میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص گرمی کے طویل اور صبرآزما روزوں کی ہمت نہ پاتے ہوئے وہی روزے سردیوں کے چھوٹے دنوں میں رکھنا چاہے گا، اور دوسرا شخص سردیوں کے چھوٹے اور ٹھنڈے روزوں کو ناکافی سمجھتے ہوئے ان کی بجائے گرمیوں کے لمبے اور گرم روزے رکھنا پسند کرے گا۔ لیکن ان دونوں کا یہ عمل عبادت نہیں کہلائے گا، بلکہ بدعت اور دین میں اپنی طرف سے رد و بدل کے زمرے میں شمار ہو گا۔

اسی طرح ظاہری اور سطحی عقل کے حوالے سے دیکھا جائے تو نمازوں کے اوقات اور ان کی رکعات کا معاملہ سطحی عقل کے الٹ دکھائی دیتا ہے۔ صبح کا وقت فراغت کا ہوتا ہے، سکون کا ہوتا ہے اور رات بھر آرام کے بعد انسان تازہ دم ہوتا ہے مگر فجر کی نماز میں دو رکعتیں فرض ہیں۔ جبکہ ظہر اور عصر کے اوقات کام کاج میں مصروفیت کے ہوتے ہیں، شور و غل کے ہوتے میں اور تھکاوٹ کے ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اس فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے فجر کی نماز کے وقت یہ سوچتا ہے کہ فراغت کا وقت ہے، کوئی کام کاج نہیں ہے، سکون کا وقت ہے، کوئی شور و غل نہیں ہے اور نیند کے بعد تازہ دم ہوں، کوئی تھکاوٹ نہیں ہے، اس لیے میں آج فجر کی نماز میں چار رکعت فرض پڑھوں گا، اور یہ سوچ کر وہ بڑے خلوص اور نیکی کے جذبے کے ساتھ چار رکعت فرض نماز فجر کے طور پر ادا کرتا ہے۔ اب ظاہری عقل کے حوالے سے اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا، دو رکعت نماز زیادہ پڑھی ہے، اس میں سورۃ فاتحہ، تسبیحات اور تکبیرات کا اضافہ کیا ہے اور رکوع و سجدہ کی تعداد بڑھائی ہے، لیکن اس کی یہ ساری مشق رائیگاں گئی ہے، بلکہ اس عمل کی وجہ سے اس کی وہ دو رکعتیں بھی نماز کے زمرہ سے خارج ہو گئی ہیں جن کے ساتھ اس نے مزید دو رکعتیں شامل کر دی ہیں۔ اور اس کا یہ عمل قطعی طور پر نماز نہیں کہلائے گا بلکہ نافرمانی، گناہ بلکہ بعض صورتوں میں کفر کا عمل بن جائے گا۔

اس لیے کہ عبادت وہ نہیں جسے ہم اپنی ظاہری سوچ، سطحی عقل، وقتی ضروریات اور عارضی مصروفیات کے دائرے میں خود طے کر لیں، بلکہ عبادت کا درجہ صرف اس عمل کو حاصل ہو گا جو شریعت نے بتایا ہے اور اس کے اوقات، شرائط اور کیفیات کو خود شریعت نے متعین کر دیا ہے۔

اسی طرح قربانی ہے۔ قربانی کے فوائد میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ اس سے عام لوگوں کی مہمانی ہوتی ہے اور غریب لوگوں تک گوشت پہنچتا ہے۔ بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق قربانی کے ایام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے عام بندوں کی مہمانی کے ایام ہیں۔ جس میں صاحبِ حیثیت لوگ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت اختیار کر کے اس کی طرف سے معاشرہ کے نادار، غریب اور مستحق لوگوں کی مہمانی کرتے ہیں۔ لیکن اس کی عملی شکل محض صدقہ خیرات نہیں، بلکہ شرعی احکام اور شرائط کے مطابق جانور کو ذبج کرنا ہی ہے، جیسا کہ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ان ایام میں جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ دو جانور ذبح فرماتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ایک جانور میں اپنی طرف سے ذبح کر رہا ہوں اور دوسرا جانور اپنی امت کے قیامت تک کے ان افراد کی طرف سے قربانی کر رہا ہوں جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے۔

قربانی سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے انہیں اسے اہتمام کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اور اس کی افادیت کے اس پہلو کو بہرحال سامنے رکھنا چاہیے کہ ان کی قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی مہمانی کا مقصد پورا ہو۔ قربانی کا گوشت جتنے زیادہ مستحق لوگوں کے پیٹ میں جائے گا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کے درجات اسی قدر حاصل کرے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter