(مجلس صوت الاسلام کراچی کے آن لائن تربیتِ خطباء کورس سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ نشست میں آپ سے حلال و حرام کے متعلق گفتگو کی تھی، اس مناسبت سے کہ ایک تو ہماری اسمبلی میں حلال فوڈز اتھارٹی کا مسئلہ زیر بحث ہے، اور دوسرا صدر محترم نے یہ کہا تھا کہ سود کے بعض معاملات میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ میں نے اس پر اصولی بات کی تھی کہ حلال و حرام کے بارے میں ہمارا مذہبی تصور کیا ہے؟
حلال و حرام کی حتمی اتھارٹی اللہ تبارک و تعالیٰ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ خود اتھارٹی ہیں لیکن جناب نبی کریمؐ اتھارٹی کے نمائندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حلال و حرام کے معاملے میں حضور نبی کریمؐ سے یہ فرماتے ہیں ’’یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک‘‘ کہ اللہ نے حلال کیا ہے تو آپ کیسے حرام کر رہے ہیں؟ چنانچہ حلال و حرام کی واحد اتھارٹی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ کے نمائندے کے طور پر اتھارٹی ہیں، ان کی بات اللہ تعالیٰ ہی کی بات ہے۔ اس کے علاوہ حلال و حرام کے طے کرنے میں کوئی اور اتھارٹی نہیں ہے۔
دوسرے مذاہب مثلاً عیسائیوں میں سے کیتھولک عیسائیوں میں چرچ، پوپ اور ویٹی کن سٹی کو، جو اُن کا مذہبی مرکز ہے، یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ حلال و حرام میں کوئی رائے دیں تو وہ حتمی ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک مذہبی پیشواؤں کو یہ اتھارٹی حاصل رہی ہے اور اب بھی ہے۔ یہ اتھارٹی ہمارے ہاں کسی کو حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ جب حضرت عدی بن حاتمؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قرآن کریم نے عیسائیوں کے بارے میں کہا ہے ’’اتخذوا احبارھم ورہبانھم اربابا من دون اللّٰہ‘‘ کہ انہوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ تعالیٰ کے سوا رب بنا لیا تھا، حالانکہ ہم اسلام قبول کرنے سے قبل عیسائی تھے اور ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں احبار و رہبان کو حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال قرار دینے کا اختیار سمجھا جاتا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ تو ہم سمجھتے تھے۔ فرمایا کہ ’’ اربابا من دون اللّٰہ‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ چونکہ تمہارے ہاں تمہارے احبار اور رہبان کو حلال و حرام کی اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے اس لیے وہ قرآن مجید کے اس ارشاد کا مصداق ہیں۔
اسلام اور مسیحیت کے علاوہ باقی دنیا کے ہاں حلال و حرام کی اتھارٹی سوسائٹی خود ہے، یعنی سوسائٹی یا اس کے نمائندے جس کو جائز یا ناجائز کہہ دیں ان کی مرضی ہے۔ آج کی دنیا میں جائز، ناجائز، حلال و حرام کی ایک بنیاد تو یہ ہے کہ مارکیٹ فیصلہ کرتی ہے کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی ناجائز ہے۔ جو چیز سوسائٹی طلب کرے تو وہ جائز ہے اور جس کی مانگ ختم ہو جائے وہ دوسرے دائرے میں چلی جاتی ہے۔
یہ تین الگ الگ تصور ہیں۔ جب ضروریات اور مشکلات پیش آتی ہیں تو بہت سے لوگوں کی طرف سے تقاضہ ہوتا ہے کہ علماء اجتہاد سے کام لے کر سہولت پیدا کریں اور مشکل آسان کریں۔ میں یہ مغالطہ دور کرنا چاہتا ہوں کہ علماء جب اجتہاد کی بات کرتے ہیں تو اس کا تصور اور ہوتا ہے، جبکہ علماء سے اجتہاد کا تقاضہ کرنے والوں کا تصور اس سے مختلف ہے۔ جو طبقے علماء سے اجتہاد کا تقاضہ کرتے ہیں ان کے ذہن میں ’’اصول الشاشی‘‘ اور ’’نور الانوار‘‘ والا اجتہاد نہیں ہوتا، وہ نہیں جانتے کہ ’’حسامی‘‘ اور ’’توضیح تلویح‘‘ میں اجتہاد کی کیا تعریف ہے اور اس کی کیا شرائط و حدود ہیں۔ ان کے نزدیک اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ علماء کو پاپائے روم کی طرز کی کوئی اتھارٹی حاصل ہے جسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ یہ بنیادی مغالطہ ہے جس کی وجہ سے ہم ان مباحث میں الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں، کیونکہ جب علماء اجتہاد کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں وہ اصول ہوتے ہیں کہ اجتہاد کن مسائل میں ہو سکتا ہے، کن میں نہیں ہو سکتا؟ اجتہاد کا طریقہ کار کیا ہے؟ مجتہد کی شرائط کیا ہیں؟ اور جب بحث ہوتی ہے تو وہ فقہی اصطلاحات میں بات کرتے ہیں، اور اپنے اصول پر بات کرتے ہیں کہ جب علماء کے پاس اتھارٹی ہے تو پھر یہ اجتہاد کیوں نہیں کر رہے۔ میں اس پر دو ذاتی واقعات عرض کیا کرتا ہوں کہ جو لوگ علماء سے اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں ان کے نزدیک اس کا تصور کیا ہے۔
دلچسپ واقعہ ہے کہ میں ایک دفعہ برطانیہ میں بذریعہ ٹرین لندن سے مانچسٹر جا رہا تھا۔ بیرونی سفر میں بھی میرا حلیہ اور لباس یہی ہوتا ہے تو ایک نوجوان مجھے دیکھ کر میرے پاس آیا اور سلام کر کے بیٹھ گیا۔ وہ مسلمان تھا، غالباً انڈیا یا بنگلہ دیش کا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہا لوگ یہی کہتے ہیں۔ اس نے کہا میرا ایک مسئلہ حل کریں۔ میں نے کہا بتائیں۔ اس نے پوچھا کہ کیا آپ اجتہاد کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا اس بات کو چھوڑو، تم بتاؤ تمہارا مسئلہ کیا ہے، اگر میں حل کر سکتا ہوا تو کر لوں گا ورنہ معذرت کر لوں گا۔ اس نے جو بات کہی وہ قابلِ غور ہے۔ اس نے کہا میں مسلمان ہوں الحمد للہ، پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہوں، چونکہ برطانیہ میں ملازم ہوں تو ملازمت کے اوقات میں ظہر اور عصر کی نماز اپنے وقت پر پڑھنے کی گنجائش نہیں ملتی، تو میں نے اس کا ایک حل نکالا ہوا ہے کہ ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں اور عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھتا ہوں، آپ مجھے اس کی اجازت دے دیں تاکہ میرا مسئلہ حل ہو جائے۔
میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس نوجوان کے نزدیک اجتہاد کا تصور یہ تھا کہ میں کوئی اتھارٹی ہوں، میں اجازت دے دوں گا تو مسئلہ حل ہو جائے گا، میں اجازت نہیں دوں گا تو مسئلہ خراب ہوگا۔ اسی لیے اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ اجتہاد کر سکتے ہیں؟ میرا بات کرنے کا اپنا انداز ہے۔ میں نے اسے کہا بیٹا! ففٹی ففٹی کروں گا۔ اس نے کہا کیا مطلب؟ تو میں نے کہا کہ تم جو عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھتے ہو تو میں اس کی گنجائش دے سکتا ہوں کہ مجبوری میں قضا ہو گی لیکن نماز ہو جائے گی۔ لیکن جو تم ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھتے ہو، اس کی اجازت کی اتھارٹی میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ کوئی متبادل ملازمت تلاش کرو جہاں تمہیں نماز کی سہولت مل جائے، اور جب تک تمہیں متبادل جگہ نہیں ملتی تو ظہر بھی مغرب کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرو، وہ قضا ہو گی مگر فرض ادا ہو جائے گا۔
ایک اور واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ علماء سے اجتہاد کا مطالبہ کرتے ہیں ان کے نزدیک اجتہاد کس کا نام ہے۔ اب سے کوئی پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے شدید گرمی کے روزے تھے جیسے آج کل بھی روزے گرمیوں میں آ رہے ہیں اور گرم علاقوں میں گرمیوں کے روزے رکھنا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے مضمون لکھا جس میں تجویز پیش کی کہ جون جولائی کے روزے مشکل ہوتے ہیں خاص طور پر دو طبقوں کے لیے۔ جو مزدور آگ کی بھٹی پر کام کرتے ہیں، جون کا مہینہ اور دوپہر کا وقت اس میں روزے دار مزدور کا جو حال ہوتا ہے سو ہوتا ہے۔ اور دوسرے جو کسان کھیتوں میں کام کرتے ہیں جون جولائی کا مہینہ ہو، مونجی لگانے والا کاشتکار دوپہر کے وقت حبس اور سخت دھوپ میں مونجی کا ایک ایک پودا لگاتا ہے تو روزہ رکھ کر کام کرنا بہت مشکل ہے، اس نے کہا کہ اس لیے علماء کرام کو انسانیت دوستی کا ثبوت دینا چاہیے اور میری تجویز یہ ہے کہ علماء کرام آپس میں باہمی مشورہ کر کے رمضان کا پورے سال میں مختلف موسموں میں گھومنا پھرنا بند کر دیں اور مشورہ کر کے درمیان کا کوئی موسم طے کر دیں تاکہ سب کے لیے آسانی ہو اور لوگوں کو سہولت مل جائے گی۔ اس نے کہا میری یہ تجویز ہے کہ فروری کا مہینہ رمضان طے کر دیں اور یکم مارچ کی عید طے کر دیں، جس سے دو فائدے ہوں گے، ایک تو رمضان کا موسم مناسب ہو جائے گا اور دوسرا عید کا جھگڑا ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے گا کہ چارسدہ کی عید الگ ہوتی ہے اور کراچی کی عید الگ ہوتی ہے، یہ اکٹھی ہو جائیں گی۔ اس نے یہ لمبی چوڑی تجویز دے کر علماء کرام سے سوال کیا کہ آپ میری اس تجویز کا جواب دیں۔
میں نے اس کا جواب لکھا جو اس زمانے میں روزنامہ نوائے وقت میں چھپا۔ میں نے پہلی بات تو یہ لکھی کہ آپ نے جو تجویز دی ہے کہ فروری کو رمضان قرار دے دیا جائے اور یکم مارچ کی عید طے کر دی جائے، اس کے دو فائدے تو آپ نے گنوائے ہیں کہ رمضان مناسب موسم میں آ جائے گا اور عید کا جھگڑا ختم ہو جائے گا، اس کا ایک تیسرا فائدہ بھی ہوگا جو آپ نے شمار نہیں کیا، وہ میں بتاتا ہوں۔ وہ یہ کہ روزے بھی اٹھائیس رہ جائیں گے، لیپ کے سال فروری انتیس دن کا ہوتا ہے، اس لیے تین سال اٹھائیس روزے ہوا کریں گے اور چوتھے سال انتیسواں روزہ آئے گا، جبکہ تیسویں روزے سے ہمیشہ کے لیے چھٹی ہو جائے گی۔ یہ فائدہ بھی ہوگا جو آپ نے نہیں شمار کیا۔
پھر میں نے کہا دیکھو یہ بات پہلے بھی ایک دفعہ ہوئی تھی۔ تفسیر مظہری میں مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے ’’یسئلونک عن الاھلۃ‘‘ کے تحت کچھ روایات لکھی ہیں کہ بنی اسرائیل میں بھی روزے رمضان کے ہی تھے، اور وہ رمضان ہمارے والا چاند والا ہی تھا جو سارے سال میں گھومتا تھا۔ انہیں بھی جون جولائی کے روزوں نے تنگ کیا تھا اور انہوں نے بھی علماء کرام سے یہ تقاضا کیا تھا کہ رمضان کا گھومنا پھرنا بند کر دیں اور مشورہ کر کے کوئی مناسب موسم طے کر دیں۔ چنانچہ ان کے علماء نے فیصلہ کیا، مارچ کو رمضان طے کیا اور اپریل کا پہلا یا دوسرا اتوار عید طے کر دی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم گڑبڑ کر رہے ہیں اس لیے ہم کفارے کے طور پر دس روزے زیادہ رکھیں گے۔ تیس کی بجائے چالیس روزے ہوا کریں گے۔ تیس روزے اصل اور دس روزے اس گڑبڑ کے کفارے کے طور پر۔ چنانچہ مذہبی عیسائی جو روزہ رکھتے ہیں تو ایسٹر اُن کی عید الفطر ہوتی ہے۔ وہ چالیس دن روزے رکھنے کے بعد عید مناتے ہیں جو ان کے ہاں ایسٹر کہلاتی ہے، یہ اپریل کے پہلے یا دوسرے اتوار کو ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ مارچ کا پورا مہینہ اور فروری کا آخری عشرہ ان کے روزے ہوتے ہیں اور وہ آٹھ پہر کا روزہ رکھتے ہیں۔ میں نے کہا وہ جو عیسائی علماء تھے ان میں کچھ تھوڑی شرم تھی کہ ہم نے گڑبڑ کی ہے تو تیس کی بجائے چالیس روزے رکھیں گے۔ تم الٹا تیس کی بجائے اٹھائیس پر آ گئے ہو۔ خدا کا خوف کرو۔
پھر میں نے اس حوالے سے کہا کہ اس زمانے میں عیسائی امت کے ہاں ان کے علماء کو یہ اتھارٹی حاصل تھی جیسا کہ حضرت عدی بن حاتمؓ کی روایت میں ہے۔ اس لیے عیسائی علماء اور پاپائے روم کے پاس شاید یہ اتھارٹی ہو، ہمارے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں، ہم ایسا کرنا چاہیں تب بھی نہیں کر سکیں گے کہ ہمارے پاس اتھارٹی ہی نہیں ہے۔
یہ میں نے دو واقعات ذکر کیے ہیں کہ آپ کے ذہن میں یہ بات آئے کہ جب ہم سے مطالبہ ہوتا ہے کہ اس حلال کو حرام کر دو، یا حرام کو حلال کر دو، تو یہ مطالبہ اجتہاد کے نام پر ہوتا ہے۔ میں نے بتایا کہ اجتہاد اس کام کے لیے نہیں ہے۔ ہمارا اجتہاد ’’حسامی‘‘ اور ’’نور الانوار‘‘ (اصولِ فقہ کی کتابوں) والا ہوتا ہے اور ان کا اجتہاد پاپائے روم والا ہوتا ہے۔ میں نے چاہا کہ آپ کا مغالطہ دور کر دوں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اگر کسی کے پاس اللہ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے کی اتھارٹی ہوتی تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتی۔ جبکہ آپؐ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال و حرام کو بیان کرنے کی اتھارٹی تو ہے لیکن حلال یا حرام کرنے کی اتھارٹی نہیں ہے۔ اگر یہ اتھارٹی کسی اور کے پاس ہوتی تو اس کا حضور نبی کریمؐ سے زیادہ کون حقدار تھا؟ جبکہ اللہ تعالیٰ حضورؐ کو خطاب کر کے واحد مخاطب کے صیغے کے ساتھ کہہ رہے ہیں ’’یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک‘‘ کہ ہم نے حلال کیا ہے تو آپ کیسے حرام کر رہے ہیں؟
حلال و حرام کے حوالے سے ایک تو میں یہ بات عرض کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے حلال و حرام کی بنیاد میں اور آج کی دنیا کے تصور میں کیا فرق ہے۔ میں نے کیتھولک مسیحیوں کی بنیاد بھی بیان کی ہے اور اپنی بنیاد بھی ذکر کی ہے کہ حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بیان کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی ذمہ داری ہے، اور اگر حضورؐ کسی چیز کو حلال یا حرام کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے نمائندے کے طور پر آپؐ کی بات نافذ ہوتی ہے۔ اور جو منصوص حلال و حرام ہیں ان میں رد و بدل کا کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔
دوسری بات علماء کرام سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک وہ حلال و حرام ہے جو نصِ صریح، نصِ قطعی کے طور پر ہے۔ قرآن مجید، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ صریحہ اور اجماعِ صحابہؓ ہمارے تین دلائلِ قطعیہ ہیں۔ اگر ان کی بنیاد پر کوئی بات طے ہوئی ہے تو اس میں تو کوئی رد و بدل کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن ایک حلال و حرام کا دائرہ اور بھی ہے جو استنباطی ہے، یہ صریح نہیں ہے۔
نصوص کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ نص کے بارے میں ہمارے ہاں چار دائرے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا دائرہ الگ ہے، سب کے احکام ایک جیسے نہیں ہیں۔ ہم بہت سے مسائل میں اس لیے الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم ان چار دائروں کا فرق نہیں کرتے۔ پہلا درجہ قطعی الثبوت قطعی الدلالۃ کا ہے، دوسرا درجہ قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ کا ہے، تیسرا درجہ ظنی الثبوت قطعی الدلالۃ کا، اور چوتھا اور آخری درجہ ہے ظنی الثبوت ظنی الدلالۃ کا ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر آپ اس بات پر غور کریں کہ جو حلال و حرام استنباطی ہے، نصوص میں صراحت سے موجود نہیں ہے، فقہاء نے استنباط کر کے کسی کو حلال قرار دیا ہے اور کسی کو حرام قرار دیا ہے، یہ بالکل مختلف دائرہ ہے، یہ قطعی نہیں ہے بلکہ اجتہادی ہے۔ ان میں ایک امام کا مذہب اور ہوگا، دوسرے کے ہاں مذہب اور ہوگا۔ ایک کے ہاں اس کی گنجائش نہیں ہوگی، دوسرے کے ہاں اس کی گنجائش ہوگی۔ اس پر آپ فتوی نہیں لگائیں گے کہ حرام کو حلال کر دیا ہے، یا حلال کو حرام کر دیا ہے۔ کیونکہ یہ اجتہادی دائرہ ہے اور ہر مجتہد اپنے اجتہاد پر عمل کرتا ہے اور اس کا مقلد بھی اس پر عمل کرتا ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کیونکہ ہم فتویٰ لگانے پر آجاتے ہیں کہ حلال کو حرام کر دیا، حرام کو حلال کر دیا۔ حالانکہ حلال و حرام جو نصوصِ قطعیہ سے ہے اس کا بالکل الگ دائرہ ہے، اور وہ حلال و حرام جو استنباطی ہے اس کا دائرہ بالکل الگ ہے۔ آپ کو فقہ میں شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور حنفیہ کے ہاں ایسے سینکڑوں مسائل ملیں گے کہ ایک کہتا ہے حلال ہے دوسرا کہتا ہے حرام ہے، ایک کہتا ہے مکروہ تحریمی ہے دوسرا کہتا ہے تنزیہی ہے۔ یہ اجتہادی ہیں۔ ایسے حلال و حرام میں آپ کا یہ حق تو ہے کہ آپ اپنے مذہب پر عمل کریں، بلکہ اپنے مذہب پر ہی عمل کرنا چاہیے، لیکن فتویٰ بازی نہیں کریں گے۔
اس پر ایک مثال دیتا ہوں۔ آج کل حلال فوڈز اتھارٹی کا ایک بڑا مسئلہ زیر بحث ہے۔ اسمبلی میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ حلال فوڈز سٹیمپ اور حلال فوڈز اتھارٹی کا مسئلہ کیا ہے، اس کو ذرا سمجھیں۔ دنیا میں بین الاقوامی مارکیٹ میں حلال کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ آج سے تیس سال پہلے جب ہم بین الاقوامی سفر میں جاتے تھے تو حلال تلاش کرنا ہمارے لیے مسئلہ ہوتا تھا۔ کئی کئی ہفتے ہم گوشت نہیں کھاتے تھے کہ پتا نہیں کیسے ذبح ہوا ہے؟ لہٰذا بڑی تحقیق اور تفتیش کرنی پڑتی تھی۔ اور یہ فرق بھی ذہن میں رکھیں کہ امریکہ کا حلال و حرام آپ پاکستان کے مفتی سے نہیں بلکہ امریکہ کے مفتی سے پوچھیں گے کیونکہ وہاں کے حلال و حرام کو وہ بہتر جانتا ہے۔ وہاں کا عرف اور تعامل اور ہے، یہاں کا عرف اور تعامل اور ہے۔ لیکن بہرحال ہم بڑی مشکل میں ہوتے تھے۔ میں خود کتنے عرصے تک تردد میں رہا کہ یہ چیز استعمال کرنی ہے یا نہیں کرنی۔ ہم یہودیوں کا ’’کوشر‘‘ استعمال کرتے تھے۔ یہودی حلال و حرام کا بہت اہتمام کرتے ہیں، لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔
ہمیں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے کہ عیسائی ذبیحہ اصولاً تو ہمارے لیے حلال ہے لیکن یورپ کے اکثر مسیحی حقیقی مسیحی نہیں ہیں، بلکہ دہریے اور نان بلیورز ہیں۔ اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی دو شرطیں ہیں: (۱) جو ذبح کر رہا ہے وہ اہلِ کتاب ہے بھی یا نہیں (۲) اپنے مذہب کے مطابق ذبح کر رہا ہے یا اپنے مذہب کے طے کردہ طریقے سے آزاد ہو کر ذبح کر رہا ہے؟ یہ شک عیسائیوں کے حوالے سے تو یقیناً ہوتا ہے کیونکہ یورپ میں اَسی فیصد نسلی عیسائی ہیں، ان کا خدا، مذہب اور کتاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر وہ فی الواقع اہلِ کتاب ہے اور اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق ذبح کر رہا ہے تو اہلِ کتاب کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے۔ ذبیحہ کے مسئلے میں بلکہ نکاح کے مسئلے میں بھی یہ صورتحال درپیش ہے۔
علماء کرام کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہوگا کہ ہمارے نوجوان وہاں کام وغیرہ کے سلسلے میں جاتے ہیں تو وہاں کی عیسائی لڑکی سے نکاح جائز ہے یا نہیں۔ وہ ساتھ اکٹھے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح پڑھا دیں۔ میرے پاس جو کیس آتا ہے تو میں تفتیش کرتا ہوں۔ پہلے تو ترغیب دیتا ہوں کہ اسلام قبول کر لو تب نکاح پڑھاؤں گا، اگر وہ اسلام قبول نہ کرے تو پھر تحقیق کرتا ہوں کہ وہ واقعی اہلِ کتاب ہے یا نہیں، خدا اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے یا نہیں، اگر تسلی ہو جائے کہ وہ واقعی اہلِ کتاب ہے تو پھر نکاح پڑھا دیتا ہوں۔ لیکن یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ وہ نان بلیورز میں سے تو نہیں ، ورنہ مسئلہ گڑبڑ ہو جاتا ہے۔
اس پر ایک دلچسپ واقعہ عرض کروں گا۔ ہمارے گوجرانوالہ کے ایک نوجوان جرمنی گئے، وہاں تین چار سال کام کیا اور واپسی پر ایک لڑکی ساتھ لے آئے۔ جمعہ کے دن میرے پاس آ گئے اور کہا کہ یہ عیسائی لڑکی میرے ساتھ آ گئی ہے، میرے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے، آپ نکاح پڑھا دیں۔ میں نے انہیں بٹھا لیا کہ ٹھیک ہے۔ درمیان میں ترجمان تھا۔ میں نے اس لڑکی سے کہا کہ بیٹا! اسلام قبول کر لو۔ لیکن اس نے کہا کہ میں اسلام قبول نہیں کرتی، اگر ویسے نکاح جائز ہے تو پڑھا دیں ورنہ انکار کر دیں۔ اب صاف انکار تو میں نہیں کر سکتا تھا، میں نے تفتیش کی کہ لڑکی کون ہے۔ مجھے پانچ سات سوالوں پر تسلی ہو گئی کہ یہ کیتھولک عیسائی ہے۔ خدا پر، بائبل پر، حضرت عیسٰی علیہ السلام پر اور آخرت پر یقین رکھتی ہے۔ یہ مذہبی عیسائی ہے نان بلیور اور دہریہ نہیں ہے اس لیے اہلِ کتاب کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ بالآخر میں نے نکاح پڑھا دیا کیونکہ وہ نکاح جائز تو تھا اور تسلی ہو گئی تھی کہ وہ اہلِ کتاب ہے۔
نکاح کے بعد دعا اور مٹھائی وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو رخصت ہونے سے پہلے وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ ہمارا نکاح ہو گیا ہے؟ میں نے کہا ہاں ہو گیا ہے۔ کیا ہم میاں بیوی بن گئے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! اس نے کہا کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو؟ میں نے کہا نہیں! اس پر وہ کہنے لگی کہ مجھے کلمہ پڑھا دیں۔ میں بہت حیران ہوا کہ پہلے وہ بات نہیں سن رہی تھی اور اب کہہ رہی ہے کہ کلمہ پڑھائیں۔ بہرحال میں نے اس کو بٹھایا کلمہ پڑھایا، عقیدہ کی وضاحت کی، جو اسلام قبول کرنے کا عمل ہے وہ پورا کیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ بات تم نے نکاح سے پہلے کیوں نہیں کی؟ میں اتنی دیر تمہارے ساتھ دماغ کھپاتا رہا کہ اسلام قبول کر لو، تم نے نہیں کیا، تو اب کیوں کر لیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں جب گھر سے چلی تھی تو اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر کے چلی تھی۔ میں نے اسلام کو اسٹڈی کیا ہے، قرآن پاک پڑھا ہے لیکن میں نکاح کے لیے مسلمان نہیں ہونا چاہتی تھی، اس لیے پہلے نکاح کیا ہے اور اب اسلام قبول کیا ہے۔ سچی بات ہے اس لڑکی پر مجھے بہت بڑا رشک آیا، یہ بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے اسے کہا بیٹا! تم اس وقت معصوم ہو، ہمارے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائیں۔ اس وقت وہ گناہوں سے پاک ہو چکی تھی تو میں نے اس سے دعا کروائی۔
ہمیں حلال و حرام کے معاملے میں یہ بنیادی بات دیکھنی اور سوچنی پڑتی ہے کہ یہ اہلِ کتاب ہے یا نہیں، کیونکہ نان بلیورز پر اہلِ کتاب کا اطلاق نہیں ہوتا کہ وہ نسلاً تو عیسائی ہیں مگر خدا، قیامت اور مذہب کو نہیں مانتے۔ البتہ یہودیوں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ خاندانی قوانین میں بھی اور حلال و حرام میں بھی بہت مضبوطی کے ساتھ اپنے مذہب پر قائم ہیں۔ آج بھی کوئی شک والی چیز استعمال نہیں کرتے، انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی اتھارٹی منوائی ہوئی ہے، جب تک اس کی مہر نہ ہو اس وقت تک کوئی چیز استعمال نہیں کرتے۔ مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیز لانے والے کو ان کی سٹیمپ لینی پڑے گی۔ ’’کوشر‘‘ ان کی خاص اصطلاح ہے۔ ان کی حلال فوڈز اتھارٹی قائم ہے جس کے ذریعے ان کے مسائل حل ہوتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ امریکہ، یورپ اور فار ایسٹ میں حلال کی طلب بڑھتی جا رہی ہے اور یہ ماحول بن گیا ہے کہ لوگ اب حلال مانگتے ہیں ۔ اس کے اسباب اور ہیں کہ فطری طور پر ان کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ جانور حلال ہے اور حلال طریقے سے ذبح کیا ہوا ہے اس لیے کہ جدید تحقیق کے مطابق حلال اشیا جسم کے لیے مفید ہیں۔ اس پس منظر میں غیر مسلم بھی حلال مانگتے ہیں اور انہیں حلال ہونے کی گارنٹی چاہیے۔ یہودیوں کے ہاں تو سٹیمپ ہے، اس سے حلال ہونے کی تسلی ہو جاتی ہے۔ ہماری مسلمانوں کی عالمی سطح پر حلال فوڈز سٹیمپ اور حلال فوڈز اتھارٹی نہیں ہے۔ ملائشیا، جنوبی افریقہ اور ہائی لینڈ وغیرہ مختلف ملکوں میں مسلمانوں نے اپنی حلال فوڈز اتھارٹیز بنائی ہوئی ہیں، جو علاقائی سطح پر کام کرتی ہیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر اس کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے کہ حلال کی گارنٹی دو۔
پاکستان دنیا میں مسلّمہ اسلامی ملک ہے، ہمارا اندر کا حال جو بھی ہے، مگر دنیا ہمیں اسلام کا نمائندہ سمجھتی ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے، کافر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اسلام کا اصل نمائندہ پاکستان ہے اور دنیا کے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اسلام کا اصل نمائندہ پاکستان ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سٹیمپ جاری کرے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں طلب ہے کہ پاکستان میں حلال فوڈز اتھارٹی بنے اور پاکستان کی سٹیمپ بین الاقوامی مارکیٹ میں قبول ہوگی۔ چونکہ یہ تقاضہ ہے تو اس پر پنجاب گورنمنٹ نے حلال فوڈز اتھارٹی بنائی ہے۔ ہمارے دوست جسٹس خلیل الرحمٰن خان جو شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس ہیں، بڑے اچھے، متدین اور متصلب مسلمان ہیں وہ اس کے چیئرمین ہیں اور اس پر کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک پاکستان میں ایسی سٹیمپ طے نہیں پائی جو دنیا میں متعارف ہو سکے جبکہ اس کا تقاضہ بڑھتا جا رہا ہے تاکہ دنیا کی کسی مارکیٹ میں سٹیمپ دیکھ کر ہم اطمینان کر لیں کہ یہ حلال ہے۔
اس پر لطیفے کی بات عرض کروں گا کہ آج سے تین چار سال پہلے حلال فوڈز کے مسئلے پر لاہور پی سی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی، جس میں بنگلہ دیش، ہالینڈ، انڈیا، ملائشیا، جنوبی افریقہ، لندن اور پاکستان سمیت آٹھ دس ملکوں کے حلال فوڈز پر کام کرنے والے حضرات شریک تھے۔ مفتیان کرام بھی تھے، دوسرے حضرات ماہرین بھی تھے۔ کانفرنس دو دن رہی۔ مجھے بھی اس میں دعوت دی گئی اور گفتگو کا موقع ملا۔ اتفاق کی بات کہ جس نشست میں مجھے گفتگو کی دعوت دی گئی اس کی صدارت اس وقت پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیر محترم کر رہے تھے۔
میں نے وہاں کہا کہ بہت اچھی بات ہے کہ دنیا میں حلال فوڈ متعارف ہو رہی ہے اور اس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ اسلام کی صداقت اور حقانیت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی نشانی ہے کہ حلال فوڈز کی طلب بڑھ رہی ہے اور ماحول بن رہا ہے اور اس بات کی تصدیق طلب کی جا رہی ہے کہ قرآن مجید جو کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حلال فوڈز اور سٹیمپ کا جو پاکستان سے تقاضہ ہے یہ بھی ہمارے لیے اعزاز ہے۔ پاکستان سے یہ توقع کرنا کہ یہ دنیا رہنمائی کرے، یہ خوشی کی بات ہے۔لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ حلال و حرام کا فرق کرتے ہوئے، حلال فوڈز اتھارٹی قائم کرتے ہوئے، اور حلال کی سٹیمپ دنیا کو متعارف کراتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم آپس کے اختلافی معاملات کے لیے کوئی مشترکہ فارمولہ طے کریں۔ کیونکہ حلال و حرام کا ایک دائرہ وہ ہے جو اجتہادی اور استنباطی ہے۔ میں نے کہا اس نشست کے صدر انڈونیشیا کے سفیر محترم ہیں، یہ شافعی ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں شوافع اکثریت ہے۔ شوافع کے ہاں پانی کا ہر جانور حلال ہے۔ جبکہ حنفیوں کے نزدیک اگر مچھلی کی جنس سے ہے تو حلال ہے، ورنہ نہیں ہے۔ یہ واضح فقہی اختلاف ہے۔ سی فوڈ کا دائرہ ہمارے ہاں محدود ہے، لیکن شوافع کے نزدیک حلال ہونے کے لیے اس کا پانی میں رہنا کافی ہے۔ یہ سی فوڈز کے بارے میں احناف اور شوافع کا واضح اختلاف ہے۔ حتیٰ کہ جھینگا کے بارے میں خود حنفی مفتیان کا آپس میں اختلاف ہے۔ بنگلہ دیش والے حلال کہتے ہیں، کراچی والے حرام کہتے ہیں۔ اصل اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ مچھلی کی جنس میں سے ہے یا نہیں۔ بنگلہ دیشی علماء کہتے ہیں کہ جھینگا مچھلی کی نسل سے ہے تو وہ کھاتے ہیں، اور ہم اسے حرام یا کم از کم مکروہ کہتے ہیں کیونکہ جن کی تحقیق یہ ہے کہ جھینگا مچھلی کی نسل سے نہیں ہے وہ اسے حرام ہی کہیں گے۔
میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ صدر محترم شافعی ہیں، میں حنفی ہوں، پہلے ہم حلال و حرام کا آپس میں کوئی فارمولہ طے کر لیں۔ دنیا کی مارکیٹ میں یہ تماشہ نہ دکھائیں کہ یہ انڈونیشیا کا حلال ہے اور یہ پاکستان کا حلال ہے۔ ان کے نزدیک دائرہ وسیع ہے جبکہ ہمارا دائرہ محدود ہے۔ وہ تو ہر چیز کو جائز کہیں گے، وہ پانی کے ہر جانور کو کھاتے ہیں اور میں نے ان کو کھاتے دیکھا ہے۔ شوافع کے ہاں میں نے کئی دعوتیں کھائی ہیں۔ نیویارک میں ایک شافعی بزرگ تھے انہوں نے ہماری دعوت کی۔ جب دسترخوان پر بیٹھے تو اللہ کی قدرت ایسا عجیب و غریب جانور پورا روسٹ کیا ہوا موجود تھا کہ پتا نہیں اس کی کتنی ٹانگیں تھیں اور کتنے سر تھے۔ وہ پانی کی کوئی عجیب مخلوق تھی۔ میں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے تو وہ ہنس پڑے اور کہا کہ آپ نہ کھائیں، یہ آپ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ میں نے کہا ،یہ دسترخوان پر رہا تو میں اور بھی کچھ نہیں کھا سکوں گا۔ وہ تو اسے مزے لے لے کر کھاتے ہیں کہ ان کے نزدیک حلال ہے۔ میں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا کہ حلال و حرام کا آپس میں کوئی ضابطہ طے کر کے پھر دنیا کے سامنے بات کریں کہ دنیا میں تماشہ نہ بن جائے۔ صدر محترم میری تقریر کا ترجمہ سن رہے تھے۔ جب میں نے یہ بات کی کہ ان کا حلال و حرام اور ہے میرا حلال و حرام اور ہے تو وہ مسکرائے۔ بعد میں اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے فرمایا کہ یہ مولوی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں، پہلے آپس کا مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
میں نے فرق واضح کیا ہے کہ ایک حلال و حرام کا دائرہ منصوصات کا ہے، اور ایک حلال و حرام کا دائرہ استنباطی اور اجتہادی ہے۔ ہمیں ان میں فرق کرنا ہوگا ورنہ مسئلہ گڑبڑ ہو جائے گا۔
اس کے بعد تیسری بات کرنے لگا ہوں کہ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں حلال و حرام کے حوالے سے ہماری عمومی ذمہ داری کیا ہے؟ آج پاکستان کے عمومی معاشرے میں حلال و حرام کا احساس اور فرق ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہ بہت ہلکی بات سمجھی جانے لگی ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق عقائد کے بعد ہمیں اپنے معاشرے میں سب سے زیادہ حلال و حرام کے فرق کو واضح کرنا ہوگا۔ جبکہ ہم اس پر بات نہیں کرتے، ہمارے خطبات اور دروس میں جن مسائل پر بات کی جاتی ہے وہ بھی کرنی چاہیے، لیکن ہمارے ہاں عام طور پر دروس، خطبات اور مضامین حلال و حرام کے فرق اور حلال و حرام کے مسائل سے اکثر خالی ہوتے ہیں۔ عام آدمی کا حلال و حرام کا دائرہ اور تصور وہ نہیں ہے جو ایک مسلمان کا ہونی چاہیے۔ اگر آپ یہ بات محسوس کرنا چاہیں تو اپنے اپنے معاشرے اور ماحول میں اپنے نمازیوں سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ آپ کو اکثر یہ بات ملے گی کہ ان کا حلال و حرام کا تصور وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
جو باتیں میں نے پہلے آپ سے عرض کی ہیں وہ تو علمی، نظری اور فقہی بحثیں ہیں، لیکن عوامی سطح پر حلال و حرام کے بارے میں ہماری دعوت، افہام تفہیم کا ماحول، ہمارے دروس و خطبات اور تقریریں اس حوالے سے عام طور پر خالی ہوتی ہیں۔ اور ہمارے معاشرے، ماحول اور پاکستانی سوسائٹی میں حلال و حرام کا تصور اگر ختم نہیں ہو گیا، تو کم از کم کمزور ضرور پڑ گیا ہے۔ اس لیے یہ علماء کرام، خطباء عظام، مدرسین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ہاں حلال و حرام کا تصور واضح کریں چونکہ اسی پر مدار ہے۔ عقائد، فرائض و واجبات کے بعد حلال و حرام ہمارا ایک بہت بنیادی دائرہ ہے، اس سے بہت سے احکام وابستہ ہیں۔ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ حلال و حرام کے فرق، حلال کی ترغیب اور حرام سے بچنے پر مشتمل ہے۔ جس سے عوام کو آگاہ کرنا، انہیں حلال و حرام کا فرق قائم رکھنے کی ترغیب دینا، حلال کے فوائد و ثمرات اور حرام کے نقصان واضح کرنا، اور حلال و حرام اشیا کی نشاندہی کرنا بہرحال علماء کرام اور خطباء و اساتذہ کی ذمہ داری ہے جو ہمیں مکمل اہتمام کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔