مسلم سربراہ کانفرنس لاہور کے بارے میں اپنے جذبات، تاثرات اور توقعات کا اظہار ہم گزشتہ اشاعت میں کر چکے ہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ یہ گزارشات عالم اسلام کے قائدین تک پہنچیں اور مسلم سربراہ کانفرنس اسلام کی سربلندی و نفاذ اور عالم اسلام کے اتحاد و ترقی کے لیے صحیح طور پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کر سکے۔ اس وقت ہم کانفرنس کے انتظامات کے سلسلہ میں کچھ امور کی طرف حکومت کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ اعزاز اسلامیان پاکستان کے لیے باعث صد افتخار ہے کہ اس عظیم کانفرنس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہو رہا ہے اور دنیائے اسلام کے مسلم قائدین ملت اسلامیہ کے مسائل پر غوروخوض کے لیے ہمارے گھر تشریف لا رہے ہیں۔ یہ سعادت ہمارے لیے موجب مسرت و انبساط ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان ذمہ داریوں کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے جو اس کانفرنس کی کامیابی، پاکستان کے وقار کے تحفظ اور معزز مہمانوں کے شایان شان خیرمقدم کے لیے ہم پر عائد ہوتی ہیں۔
ایسے مواقع پر بظاہر معمولی سی باتیں بھی بسا اوقات بڑی بڑی غلط فہمیوں کا باعث بن جاتی ہیں اور وقتی بے احتیاطی کے بدنتائج انتہائی خطرناک حالات کو جنم دے سکتے ہیں۔ اس لیے پوری احتیاط اور توجہ کے ساتھ کانفرنس کے انتظامات اور اس کے ماحول کا اس انداز سے جائزہ لینا چاہیے کہ کوئی پہلو ایسا نہ باقی رہ جائے جو کانفرنس کی کامیابی یا پاکستان کے قومی وقار پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ یہ گزارشات ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ کانفرنس کے انتظامات اور اس سے قبل ملک کی ذہنی فضا کو ہموار کرنے کے سلسلے میں کچھ ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جن کے بارے میں ہم پوری دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کانفرنس کے ماحول پر کچھ اچھا اثر نہیں پڑے گا اور یہ باتیں ہمارے لیے نیک نامی کی بجائے مسلم قائدین کو پاکستان سے بدظن کرنے کا موجب بن سکتی ہیں۔
- مثلاً یہ اڑتی سی خبر کہ مسلم قائدین کی ضیافت کے لیے لاہور کے مشہور ’’شیزان ہوٹل‘‘ کو ٹھیکہ دیا جا رہا ہے جو قادیانیوں کا ہے۔ ہمارے نزدیک اگر یہ بات درست ہے تو اسے کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی سازش کے سوا اور کوئی عنوان نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ قادیانیوں کے بارے میں عرب عوام اور قائدین کے جذبات مخفی نہیں۔ سعودی عرب، مصر، شام اور لبیا میں قادیانی جماعت صرف اس لیے خلاف قانون ہے کہ ان ممالک کے عوام اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ قادیانی ٹولہ استعمار کا خودکاشتہ پودا ہے اور عالم اسلام میں استعمار کے لیے جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ نیز حیفہ اسرائیل میں قادیانی سنٹر بھی عرب راہنماؤں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ ان حالات میں ایک قادیانی ہوٹل کے ذریعہ مسلم سربراہوں کی ضیافت کا اہتمام انتہائی معنیٰ خیز ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا شاہ فیصل، صدر انور سادات، صدر حافظ الاسد اور کرنل قذافی اس صورتحال پر خوش ہوں گے اور کیا شیزان ہوٹل اتنی عظیم کانفرنس میں رازداری کے تقاضوں کے لیے چیلنج ثابت نہ ہوگا؟
- اسی طرح حکومت کا یہ اعلان بھی محل نظر ہے کہ اس کانفرنس کے موقع پر مسلم سرباہوں کو ’’عوامی میلہ‘‘ دکھایا جائے گا۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ عالم اسلام کے اہم مسائل پر غوروخوض کی خاطر جمع ہونے والے مسلم سربراہوں کا قیمتی وقت ہم بھنگڑے اور ناچ گانے میں ضائع کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ ایسے وقت میں جبکہ دنیائے اسلام شدید کرب و ابتلاء کی کیفیت سے دوچار ہے، ہماری خرمستیوں اور رنگ رلیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
- اس کے علاوہ ہم اس تاثر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلم سربراہ کانفرنس سے قبل پاکستان کے کثیر الاشاعت ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں عالم اسلام کے بطل جلیل اور عربوں کے محبوب قائد جمال عبد الناصر مرحوم کے خلاف بے بنیاد الزامات پر مشتمل سلسلہ وار مضامین کا آغاز بھی کانفرنس کے خلاف کسی سازش کی کڑی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ماہنامہ اس سے قبل بھی عرب کاز اور مرحوم ناصر کے خلاف ہرزہ سرائی کی مہم میں علماء حق اور عرب دوست عوام کے ہاتھوں منہ کی کھا چکا ہے اور اب پھر اس کی طرف سے مسلم سربراہ کانفرنس کے موقع پر اس مذموم مہم کا آغاز خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔
ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کانفرنس کے انتظامات اور اس سے قبل رائے عامہ کی بیداری کے لیے قومی پریس کے کردار کا بھرپور جائزہ لیا جائے اور اس سلسلہ میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ پوری قوم اجتماعی طور پر اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکے۔