خلافت اور امامت

   
۲۰۱۷ء

سیاسی نظام پر اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا بنیادی اختلاف ہے۔ اہلِ تشیع امامت کی اصطلاح کے ساتھ بات کرتے ہیں اور اہلِ سنت خلافت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ امامت اور خلافت ، یا امام اور خلیفہ میں کیا فرق ہے؟

اہلِ تشیع امام کو خدا کا نمائندہ اور معصوم عن الخطا کہتے ہیں، اور پیغمبر کی طرح اتھارٹی اور اختلاف سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ امامت میں اللہ کی نیابت ہے، جبکہ خلافت میں اللہ کے رسول کی نیابت ہے۔ جب ایک آدمی کے بارے میں ہم یہ تصور کر لیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس کی کسی بات سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہو گی۔ جب اس کو اللہ کا نمائندہ کسی حیثیت سے مان لیا تو پھر وہ معصوم ہے، اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ امامت اور خلافت میں ایک فرق تو یہی بنیادی تصور ہے کہ امام اللہ کا نمائندہ ہے،جبکہ خلیفہ اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے رسول کا نمائندہ ہے۔

امام نامزد اور وصی ہے، جبکہ خلیفہ وصی نہیں ہے بلکہ امت کی اجتماعی صوابدید پر منتخب ہوتا ہے۔ اہلِ تشیع حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وصی رسول اللہ کہتے ہیں، جس کا معنیٰ ہے کہ حضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامزد جانشین ہیں۔ جبکہ اہل سنت کے ہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام تر فضائل و مناقب، بزرگی و برتری کے باوجود وصی اور نامزد نہیں ہیں بلکہ امت کی اجتماعی رائے سے خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضور نبی کریمؐ نے آپ کے متعلق کئی اشارات کیے، ان کو اپنی جگہ مصلیٰ پر کھڑا کیا، اشارات اور کنایات میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، حتیٰ کہ جناب نبی کریمؐ نے بیماری کے ایام میں حضرت عائشہؓ سے فرمایا اپنے ابا جان اور بھائی کو بلاؤ میں لکھ دیتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کئی امیدوار کھڑے ہو جائیں ’’یتمنی المتمنون‘‘ لیکن پھر انکار فرما دیا کہ ’’یابی اللہ والمومنون الا ابابکر‘‘ اللہ بھی ابوبکر کے علاوہ کسی اور کو نہیں بنائے گا اور مسلمان بھی کسی اور کو قبول نہیں کریں گے۔ یہ امت پر اعتماد تھا کہ امت صحیح فیصلہ کرے گی۔ چنانچہ جناب نبی کریمؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو نامزد نہیں کیا، بلکہ آپ کا انتخاب سقیفہ بنی ساعدہ میں بحث مباحثہ کے بعد اجتماعی رائے سے ہوا۔ پہلے اختلاف رائے ہوا پھر بالآخر اتفاق رائے پیدا ہوا اور حضرت صدیق اکبرؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔

امام اور خلیفہ میں تیسرا فرق یہ ہے کہ امام ’’معصوم عن الخطا‘‘ ہے، جبکہ خلیفہ مجتہد ہے ’’یخطئ و یصیب‘‘ خلیفہ کا شرعی مقام مجتہد کا ہے، وہ معصوم نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ہم جس امام کی تقلید کرتے ہیں اس کے بارے میں بھی یہ کہتے ہیں ’’مصیب یحتمل الخطا‘‘۔ اور جس امام کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں ’’مخطئ یحتمل الصواب‘‘۔ اجتہاد کا دائرہ یہی ہے۔ خلیفہ کی رائے سے اختلاف کی گنجائش ہے، جبکہ امام کی رائے سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ امام کے معصوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ فائنل اتھارٹی ہے، اس کی کسی بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کسی بات پر اعتراض نہیں ہو سکتا، اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ خلیفہ معصوم نہیں بلکہ مجتہد ہے۔ اس لیے خلیفہ کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس کے فیصلے تبدیل ہو سکتے ہیں۔

حضرت صدیق اکبرؓ نے جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں یہ اصول بیان فرمایا کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے مطابق چلوں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر آپ کو محسوس ہو کہ میں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق نہیں چل رہا تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ اس لیے اہلِ سنت کے ہاں خلیفہ کی اطاعت قرآن و سنت کے دائرے کی پابند ہے۔ قرآن و سنت سے ہٹ کر بات ہو گی تو حضرت صدیق اکبرؓ فرما رہے ہیں کہ تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔ جبکہ اہل ِتشیع کے ہاں امام چونکہ معصوم ہے، تو اس کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے۔ خلیفہ اور امام کا یہی فرق ہے کہ رعیت کو خلیفہ کی رائے سے اختلاف کا حق حاصل ہے، خلیفہ کا احتساب کرنے اور خلیفہ کے فیصلے پر احتجاج کا حق حاصل ہے۔ لیکن امام کی کسی بات سے نہ اختلاف کیا جا سکتا ہے، نہ اس کا احتساب کیا جا سکتا ہے، نہ امام کے خلاف کسی کو رائے دینے کا حق ہے۔ اس لیے کہ بنیادی فرق یہ ہے کہ خلیفہ نے اپنے لیے قرآن و سنت کی پابندی قبول کی ہے، جبکہ امام اللہ کا نمائندہ اور مامور من اللہ سمجھا جاتا ہے۔

امام اور خلیفہ میں چوتھا فرق یہ ہے کہ امام خاندانی ہوتا ہے۔ ایک ہی خاندان میں بارہ امام آئے، سب خاندانی اور نسبی ہیں۔ جبکہ خلفائے راشدین میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا نسبی وارث نہیں ہے۔ ہمارا آئیڈیل اور معیار خلافت راشدہ ہی ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابوبکر ،حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، چند مہینے کے لیے حضرت حسن، پھر حضرت معاویہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان ساتوں بزرگوں میں سے سوائے اس کے کہ حضرت حسنؓ حضرت علیؓ کے بیٹے ہیں جو امیر المومنین بنے اور چھ مہینہ خلیفہ رہے، ان کے علاوہ باقی چھ میں سے کوئی ایک کسی دوسرے کا نسبی جانشین نہیں ہے۔ اس لیے خلافت نسبی اور خاندانی نہیں، جبکہ امامت نسبی ہے۔

میں نے اس نکتے پر توجہ دلائی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کے حوالے سے اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے ہاں خلافت اور امامت دو متوازی نظریے ہیں۔ اہلِ تشیع میں جتنے بھی گروہ ہیں وہ امامت کے حوالے سے سیاسی نظام کی بات کرتے ہیں۔ پھر آگے تقسیم ہے کوئی امام حاضر کی بات کرتا ہے تو کوئی امام غائب کی بات کرتا ہے، لیکن ان کا تصور، جس کی بنیاد وصیت پر ہے، امامت کے عنوان سے ہے۔ اس لیے حضرت علیؓ کے بارے میں ان کا کہنا ہے ’’وصی رسول اللہ‘‘ کہ آپ حضور نبی کریمؐ کے نامزد کردہ جانشین تھے۔ پھر وہی جانشین آگے چلتے گئے۔ اثنا عشریہ شیعہ کے ہاں اماموں کا سلسلہ بارہ پر جا کر رک گیا۔ بارہویں امام غارِ سر من راٰی میں منظر عام سے غائب ہو گئے۔ اسماعیلیہ اور زیدیہ بھی شیعہ کے فرقے ہیں لیکن ان کے ہاں امام غائب نہیں ہیں بلکہ اب تک چلے آ رہے ہیں۔ موجودہ اسماعیلی امام پرنس کریم آغا خان اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ ان کا ایک فرقہ بوہرہ ہے جن کے امام ابھی فوت ہوئے ہیں جو چھیالیسویں یا سینتالیسویں امام تھے۔ اسی طرح زیدیہ بھی امام حاضر کے قائل ہیں۔ البتہ اثنا عشریہ امام غائب کے قائل ہیں، وہ امام غائب کا خلا کیسے پر کر رہے ہیں، اس پر بعد میں بات کروں گا۔

اہل سنت کے ہاں خلیفہ وصی نہیں ہے، چنانچہ حضور نبی کریمؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نامزد نہیں کیا بلکہ آپ بحث و مباحثہ کے بعد امت کی اجتماعی مشاورت سے خلیفہ منتخب ہوئے۔ اسے اصحاب الرائے کی مشاورت کہہ لیں یا عوام کی مشاورت، تاہم آپ مشاورت سے خلیفہ منتخب ہوئے۔

2016ء سے
Flag Counter