فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ خلیفہ کا انتخاب اور خلافت کا قیام امت کے اجتماعی فرائض میں سے ہے ۔ خلافت کے قیام کے فرض ہونے کے دلائل میں دو بڑی دلیلیں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہیں:
ایک دلیل یہ دی ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے احکامات حکومت کی موجودگی پر موقوف ہیں۔ مثلاً حدود کا نفاذ، جہاد، بیت المال کا قیام، عدالتوں کا قیام اور انصاف کی فراہمی وغیرہ، یہ سارے معاملات حکومت کا وجود چاہتے ہیں۔ چونکہ یہ قرآن مجید کے اوامر اور فرائض ہیں، اور فرض کا موقوف علیہ بھی فرض ہوتا ہے، جیسا کہ وضو ویسے فرض نہیں ہے لیکن چونکہ نماز کی شرط ہے اس لیے وضو کا درجہ بھی فرض کا ہے کہ نماز کی ادائیگی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات اور بیسیوں احکام کا موقوف علیہ حکومت ہے، اور فرض کا موقوف علیہ بھی فرض ہوتا ہے، اس لیے خلافت کا قیام امت کے ذمے ضروری ہے تاکہ قرآن مجید کے وہ احکام کہ حکومت کے ذریعے جن پر عمل ہو سکتا ہے ان پر عمل کیا جا سکے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ خلافت کے قیام کے حوالے سے دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت نے سب سے پہلا کام خلیفہ کے انتخاب اور خلافت کے قیام کا کیا۔ حتیٰ کہ حضور نبی کریمؐ کی تجہیز و تکفین سے بھی اس کام کو مقدم رکھا۔ ’’بل جعلوہ اہم الواجبات‘‘ کہ تمام فرائض سے زیادہ بڑا فرض خلافت ہے۔ کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین بعد میں کی لیکن خلیفہ کا انتخاب پہلے کیا۔ لہٰذا امت کے ذمہ فرض ہے کہ بحیثیت امت اس میں خلافت کا نظام موجود ہو۔
پھر فقہاء ایک اور تقسیم کرتے ہیں کہ خلافت کا قیام پوری امت کے ذمے فرض علی الکفایہ ہے۔ اگر دنیا میں کسی جگہ بھی خلیفہ موجود ہے اور خلافت کا نظام قائم ہے تو امت کی طرف سے ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے، لیکن اگر دنیا میں کہیں بھی خلافت کا نظام کسی بھی درجے میں موجود نہیں تو امت بحیثیت امت گنہگار ہے اور فرض کی تارک ہے۔ اس وقت ہم تقریباً اسی پوزیشن میں ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی خلافت قائم نہیں ہے ، امارتِ شرعیہ کا وجود اپنی تمام شرائط کے ساتھ نہیں ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تھا جسے سو سال ہو چکے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے ۱۹۲۴ء تک کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی انداز میں خلافت کا ٹائٹل اور خلافت کا نظام اور سسٹم موجود رہا، کئی اتار چڑھاؤ آئے، کئی سنوار بگاڑ پیدا ہوئے لیکن خلافت کا نام باقی رہا۔ جب ۱۹۲۴ء میں خلافت ختم کی گئی تو اس کے بعد سے اب تک دنیا میں کہیں بھی خلافت کا نظام عملاً موجود نہیں ہے ۔اس لیے فقہاء کرام کے ارشادات کے مطابق ہم بحیثیت امت ایک شرعی فرض کے تارک ہیں۔
لیکن میں جس نکتے کی وضاحت کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ خلافت کا قیام امت کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس کے مقابلے میں امامت کا قیام امت کی ذمہ داریوں میں سے نہیں بلکہ امام نامزد ہوتا ہے، امام کو منتخب کرنے میں امت کا کوئی اختیار نہیں ہے، وہ صرف اس کی پابند ہے کہ جو امام وقت ہو اس کی اطاعت کرے اور اس کے احکام کے مطابق چلے۔
ہمارے متکلمین، ائمہ عقائد اور فقہاء نے خلافت کے قیام اور اس کے انعقاد کی جو صورتیں بیان کی ہیں وہ پانچ ہیں:
پہلی صورت یہ کہ امت کی اجتماعی صوابدید پر خلیفہ کا انتخاب ہو۔ جیسے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ کا انتخاب امت کی صوابدید پر ہوا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ حضور نبی کریمؐ کی زندگی میں ہی آپ کے جانشین تھے کہ حضور نبی کریمؐ نے حکماً ان کو اپنے مصلے پر کھڑا کیا تھا۔ اور بعض حضرات کی طرف سے معذرت کے باوجود کہ وہ نرم دل ہیں آپ کے مصلے پر کھڑے ہوں گے تو رو پڑیں گے، لیکن حضورؐنے فرمایا ’’مروا ابابکر فلیصل بالناس‘‘ کہ ابوبکر ہی میری جگہ نماز پڑھائے گا۔ پھر جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ بنے اور آپ نے تقریباً اڑھائی سال حکومت کی ہے تو اس حکومت کی بنیاد کیا تھی؟
حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کیسے بنی تھی؟ ان کو نہ حضور اکرمؐ نامزد کر کے گئے کہ میرے بعد یہ خلیفہ ہوں گے، اشاروں میں کمی نہیں کی، لیکن نامزد نہیں کیا۔ نہ حضرت صدیق اکبرؓ نے طاقت کے زور پر قبضہ کیا کہ جتھہ لے کر مدینہ پر قبضہ کیا ہو کہ میری خلافت ہے۔ نہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں خلیفہ ہوں میرے ہاتھ پر بیعت کرو۔ اور نہ کوئی نسبی استحقاق تھا کہ بادشاہ کے بیٹے ہیں تو بادشاہ بنیں گے۔
پہلی مشاورت سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوئی، دوسری مشاورت مسجد نبوی میں ہوئی۔ بخاری شریف کی طویل روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد انصار مدینہ اکٹھے ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ اکثریت ہماری ہے اس لیے خلیفہ ہم میں سے ہو گا۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا اور بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کو خلیفہ منتخب بھی کر لیا تھا ۔ ابھی بیعت نہیں ہوئی تھی۔ آج کی زبان میں حلف اٹھانا باقی تھا۔ امیدوار کے ووٹ بھی زیادہ تھے۔ کافی طویل بحث مباحثہ ہوا۔ بالآخر سب متفق ہو گئے اور اجتماعی فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے۔ اس پر حضرت علیؓ کو اشکال تھا، اس حوالے سے نہیں کہ مجھے خلیفہ کیوں نہیں بنایا، بلکہ اس حوالے سے اشکال تھا کہ اس مجلس میں ہم نہیں تھے، مشاورت ہمارا بھی حق تھا۔ چنانچہ تین دن بعد مسجد نبوی میں پھر عمومی مجلس ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ کو کوئی تحفظ ہے تو فرمائیے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا، ہم نے بھی آپ کو ہی خلیفہ بنانا تھا لیکن ہمیں مشورے میں تو شریک کرتے۔ خاندانِ نبوت مشورے میں نہیں تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے اس کی وضاحت کی کہ آپ کو اس لیے نہیں بلایا کہ ابھی تک جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین نہیں ہوئی تھی، اگر گھر میں میت ہو تو گھر والوں کو کسی اور کام میں مصروف نہیں کیا جاتا، اس لیے آپ کو نہیں بلایا گیا۔ اس عمومی مجلس میں حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور پھر زندگی بھر حضرت صدیق اکبرؓ پر یہ اعتماد قائم رہا۔ حضرت علیؓ کا تاریخی جملہ ہے کہ جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کا امام بنایا تھا ، اسے اپنا مصلیٰ دیا تھا، ہم نے دنیا کے لیے بھی اسی کو امام بنایا۔
حضرت صدیق اکبرؓ امت کی اجتماعی صوابدید پر باہمی اجتماعی مشاورت کے ساتھ خلیفہ مقرر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ امت کی اجتماعی صوابدید کو ابن تیمیہؒ عامۃ المسلمین کی اجتماعی صوابدید قرار دیتے ہیں کہ عوام فیصلہ کرے گی جیسے حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب عوام نے اجتماعی مشاورت سے کیا تھا۔ جبکہ شاہ ولی اللہؒ کہتے ہیں اربابِ حل و عقد کی صوابدید پر خلیفہ کا انتخاب ہوگا، یعنی امت کے نمائندے فیصلہ کریں گے۔ ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہؒ دونوں سیاسیات کے بڑے امام ہیں۔ ہر ایک کی اپنی رائے ہے اور ہر ایک کے پاس اپنے موقف پر دلائل ہیں۔ اس کو فقہاء کرام نے تعبیر کیا ہے کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کے اعتماد سے ہوگا، وہ نامزد نہیں ہو گا، عام لوگوں کی مشاورت اور بیعتِ عامہ کا انعقاد خلافت کی پہلی صورت ہے۔
خلیفہ کے انتخاب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کسی کو نامزد کر دے جیسے حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کر دیا تھا۔
تیسرا طریقہ فقہاء یہ لکھتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے ایک کمیٹی بنا دی جائے، خلافت کو چند آدمیوں کے درمیان محدود کر دیا جائے کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنا لیا جائے، جیسے حضرت عثمانؓ کا انتخاب ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے چھ آدمی منتخب کیے تھے کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنا لو، اس پر کافی وسیع مشاورت ہوئی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں میں نے تین دن تین راتیں آنکھوں میں نیند کا سرمہ نہیں لگایا، کوئی دروازہ نہیں جو میں نے نہ کھٹکھٹایا ہو، تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا تب فیصلہ ہوا۔
خلیفہ کے انتخاب کی چوتھی صورت یہ ہے کہ جو اصحابِ شوریٰ موجود ہوں وہ فیصلہ کریں، جیسے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کا انتخاب ہوا تھا۔ مدینہ منورہ میں جو شورٰی کے حضرات موجود تھے انہوں نے طے کیا تھا کہ حضرت علیؓ خلیفہ ہوں گے۔
پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی شخصیت اقتدار پر قبضہ کر لے اور امت اسے قبول کر لے، جیسے حضرت معاویہؓ نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور امت نے حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد قبول کر لیا تھا۔ حضرت معاویہؓ کو نہ منتخب کیا گیا، نہ خلیفہ نامزد کیا گیا، بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی اور فوجی طاقت سے اقتدار پر قبضہ کیا۔ جب حضرت حسنؓ نے بیعت کر لی تو امت نے انہیں خلیفۃ المسلمین اور امیر المومنین کے طور پر قبول کر لیا۔ البتہ قبضے کے ساتھ جو خلافت قائم ہو فقہاء اس کے لیے تین شرطیں لگاتے ہیں (۱) وہ خلافت کا اہل ہو (۲) طاقت کے زور سے کیا گیا قبضہ قائم ہو جائے (۳) امت بحیثیت امت اس کے قبضہ کو تسلیم کر لے۔
فقہاء نے خلافت کے انعقاد کے یہ پانچ طریقے بیان کیے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب تغیر آتا ہے اور تطبیق کی صورتیں بدلتی ہیں تو پھر ہمیں بھی اپنے موقف میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ آج کے حالات میں خلافت کے انعقاد کی ان پانچ صورتوں کو دیکھیں تو تطبیق کی صورتیں صرف پہلی اور آخری نظر آئیں گی۔ پہلی یہ کہ امت بحیثیت امت، یا امت کے اربابِ حل و عقد کسی کو خلیفہ منتخب کریں۔ اور خلیفہ کے انتخاب کا اولیٰ طریقہ یہی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کا انتخاب اسی طریقے سے ہوا تھا۔ یا پھر آخری طریقہ ہے کہ خلیفہ طاقت کے زور سے قبضہ کر لے، اور امت کی رائے عامہ اسے قبول کر لے۔
درمیان کی تین صورتیں تطبیق کا محل بدل جانے کی وجہ سے ممکن نہیں ہیں۔ دوسری صورت جو حضرت عمرؓ کے انتخاب کی تھی کہ انہیں خلیفۂ وقت نے نامزد کیا تھا، ظاہر ہے کہ کسی کو اپنا جانشین نامزد کرنے سے پہلے خلیفہ کا وجود ضروری ہے، اور اس وقت دنیا میں کوئی شرعی خلیفہ نہیں ہے جس کی طرف سے نامزدگی ہو، اس لیے یہ صورت ممکن نہیں۔ کمیٹی والی صورت بھی اسی سے ملتی جلتی ہے کہ پہلے خلیفہ موجود ہو گا تو وہ کمیٹی بنائے گا جو خلیفہ کا انتخاب کرے گی۔ چوتھی صورت کہ شوریٰ کے فیصلے سے خلیفہ منتخب ہو، جیسے حضرت علیؓ کا انتخاب ہوا تھا، اور شوریٰ کا وجود بھی خلافت کے وجود کے بعد ہے، کوئی امیر ہو گا تو وہ شوریٰ بنائے گا۔ اس لیے درمیان کی تین صورتیں تطبیق کے میدان میں غائب ہو گئی ہیں۔ آج اگر کوئی خلیفہ بنے گا تو یا وہ امت کی صوابدید پر بنے گا، یا طاقت کے زور پر قبضہ کرے گا اور امت سے قبولیت کی سند حاصل کرے گا، کیونکہ قبضہ کی صورت میں شرط ہے کہ وہ خلافت کا اہل ہو اور امت اسے قبول کر لے۔ یہ میں نے خلافت کے قیام کا شرعی طریقہ کار عرض کیا ہے۔
ہر حکومت کی کوئی بنیاد ہوتی ہے، کہیں دستور اور کہیں بادشاہت۔ خلافت کی بنیاد کیا ہے اور خلافت میں فیصلے کس بنیاد پر ہوتے ہیں؟
خلافت کے نظام کو سمجھنے کے لیے کہ اس کی عملی صورت کیا تھی، اس کے لیے ہمیں تین خطبے سامنے رکھنا ہوں گے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا پہلا خطبہ، حضرت عمرؓ کا پہلا خطبہ، اور حضرت عمرؓ کا آخری خطبہ جو شہادت سے ایک ہفتہ پہلے جمعہ کو ارشاد فرمایا تھا اور بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ یہ تین خطبے ہمارے خلافت کے نظام کے عملی ڈھانچے کی بنیاد ہیں۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں یہ تینوں خطبے موجود ہیں۔
جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے، امت نے بحیثیت خلیفہ آپ کا انتخاب کیا تو آپ نے مسجد نبوی میں جو پہلا خطاب فرمایا جسے ’’پالیسی اسپیچ‘‘ کہہ لیں کہ میں خلیفہ بنا ہوں، میں نے کیا کرنا ہے اور کس بنیاد پر کرنا ہے۔ اس خطبے میں آپ نے دو اصولی باتیں ارشاد فرمائیں۔ ’’امرت علیکم ولست بخیرکم‘‘ یہ آپؓ نے کسرِ نفسی کے طور پر فرمایا کہ مجھے تم پر امیر بنایا گیا ہے میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں۔ حالانکہ ان سے بہتر کون تھا؟ پھر یہ اصول بیان فرمایا کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں ’’اقودکم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ‘‘ میں خود فیصلے نہیں کروں گا بلکہ قرآن مجید اور سنتِ نبویؐ کے مطابق فیصلے کروں گا۔ یعنی ایک اسلامی ریاست اور اس کے حکمران فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہیں کہ جو چاہیں فیصلہ کر لیں ، بلکہ ان کو قرآن مجید اور سنتِ نبوی کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر آپ کو محسوس ہو کہ میں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق نہیں چل رہا، تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ گویا حضرت صدیق اکبرؓ نے خود کو قرآن و سنت پابند کر لیا، اور بنیادی معاملات میں ان کا صوابدیدی اختیار نہیں رہا۔ اس کا سیاسی زبان میں ترجمہ یہ ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان کمٹمنٹ کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ ریاست اور حکومت کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، ریاست اور عوام کے تعلق کی بنیاد قرآن و سنت پر اور متعلقہ مسائل میں اجتماعی مشاورت پر ہے۔
چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کے اڑھائی سالہ دورِ حکومت میں فیصلے تین بنیادوں پر ہوتے رہے۔ قرآن مجید اور سنتِ رسول میں تلاش کرتے تھے بلکہ اعلان کرتے تھے کہ یہ مسئلہ پیش آیا ہے کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث یاد ہو، آپ کا کوئی حکم یا ارشاد ہو تو بتائیں، اس پر فیصلہ ہوتا تھا اگر کسی معاملے میں حدیث بھی نہیں ملتی تھی تو پھر مشورہ کرتے تھے۔ اسلامی ریاست کی تین بنیادیں ہیں: (۱) قرآن مجید (۲) سنت رسول (۳) جن باتوں میں قرآن مجید اور سنتِ رسول سے کوئی حکم نہ ملے، اس میں اجتماعی مشاورت۔ پھر مشاورت کے دو درجے ہیں (۱) علمی مسائل میں اہلِ علم کے ساتھ مشاورت (۲) اور عوامی مسائل میں عوام کے ساتھ مشاورت۔ جہاں قرآن و حدیث کی تشریح کا مسئلہ ہوتا وہاں اہلِ علم کے ساتھ، اور جہاں لوگوں کے حقوق کا مسئلہ ہوتا وہاں عوام کے ساتھ عمومی مشاورت کرتے تھے۔
دوسری بات حضرت صدیق اکبرؓ نے اس خطبے میں یہ ارشاد فرمائی تھی ’’ان استقمت فاعینونی و ان انا زغت فقومونی‘‘ کہ اگر میں اس راستے پر سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو، اور اگر میں ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ گویا حضرت صدیق اکبرؓ اپنی رعیت کو اختلاف کا حق بھی دے رہے ہیں، احتساب اور احتجاج کا حق بھی دے رہے ہیں کہ رعیت میں سے کوئی بھی اعتراض کر سکتا ہے کہ آپ کا یہ فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ یہ نہیں فرما رہے کہ اگر میں ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے بتا دو، بلکہ فرمایا میں ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہ رعیت کا حق احتساب اور حق احتجاج ہے جو حضرت صدیق اکبرؓ پہلے خطبے میں ارشاد فرما رہے ہیں۔ اگر حکمران قرآن و سنت کے قانون سے ہٹے تو عوام کو احتساب کا حق حاصل ہے۔
خلافت کی بنیاد حضرت صدیق اکبرؓ نے اور بعد میں حضرت عمرؓ نے یہی بیان کی قرآن مجید، سنتِ رسول اور ماضی کے صالحین کے فیصلے۔ یہ کمٹمنٹ اور معاہدہ ہے جس پر ہم نظام چلائیں گے اور اس کی خلاف ورزی پر ہم احتساب کا حق دے رہے ہیں۔ یہ تو اصول تھے، اس کی عملی صورتیں موجود ہیں کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں لوگوں کو حکومت کی پالیسی اور طرز عمل سے اختلاف ہوتا تھا اور وہ احتساب کرتے تھے، اس پر بیسیوں واقعات ہیں، چند ایک عرض کرتا ہوں۔
حضرت صدیق اکبرؓ کو خلیفہ بننے کے بعد جو سب سے بڑا مرحلہ پیش آیا وہ خلافت کی رٹ قائم کرنے کا تھا۔ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاستِ مدینہ کا آغاز کیا تھا تو وہ بحیرہ کہلاتا تھا، مدینہ اور سمندر کے درمیان کی پٹی۔ پھر آٹھ دس سال میں پھیلتے پھیلتے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو یمن، بحرین، یمامہ اور نجد بھی ریاستِ مدینہ میں شامل تھے۔ ریاستِ مدینہ کی حدود جزیرۃ العرب تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے جزیرۃ العرب کی اس حدود کے اندر جہاں بھی بغاوت اٹھی اس کا مقابلہ کیا۔ جہاں بھی کسی نے سر اٹھایا، نبوت کے نام پر ہو یا انکار ِزکوٰۃ کے نام پر، مختلف محاذوں پر بغاوت ہو گئی تھی، جس پر حضرت صدیق اکبرؓ کو ایک سال لگا لیکن انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست کہ یہ رٹ بحال کر لی۔ اصل کردار تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ جزیرۃ العرب اس سے قبل ریاست کے تصور سے ناآشنا تھا۔ جزیرۃ العرب میں اجتماعی حکومت اور ریاست کا تصور حضور نبی کریمؐ نے دیا ہے۔ اس سے پہلے وہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے، پورے جزیرۃ العرب میں کوئی باقاعدہ حکومت نہیں تھی۔ جبکہ ریاست کو قائم حضرت صدیق اکبرؓ نے کیا کہ باغیوں اور مرتدین کا مقابلہ کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ ریاست اسے کہتے ہیں۔
مؤرخین حضرت صدیق اکبرؓ کے دو بڑے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کو خلافت سنبھالتے ہی یہ صورتحال پیش آئی کہ کچھ نے ختم نبوت کے منکر ہو گئے، کچھ ویسے مرتد ہو گئے، اور کچھ نے زکوٰۃ کا انکار کر دیا۔ تو حضرت صدیق اکبرؓ نے ان سب کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔ منکرین ختم نبوت اور منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف بھی لڑائی جاری ہے اور مرتدین کے خلاف بھی۔ جزیرۃ العرب کی حدود میں جس نے بھی جس عنوان سے بغاوت کی حضرت صدیق اکبرؓ نے صحابہ کرامؓ کو تقسیم کر کے محاذوں پر بھیج دیا کہ جا کر لڑو۔ اس پر حضرت فاروق اعظمؓ کو حضرت صدیق اکبرؓ سے اختلاف ہوا کہ باقی تو ٹھیک لڑ رہے ہیں لیکن جو زکوٰۃ نہیں دیتے آپ ان سے کیوں لڑتے ہیں؟ باقی کسی کے بارے میں حضرت عمرؓ نے اعتراض نہیں کیا۔ منکرینِ زکوٰۃ کے متعلق حضرت عمرؓ کو تحفظات تھے کہ یہ کلمہ پڑھتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، باقی سارے کام مسلمانوں والے کرتے ہیں، صرف زکوٰۃ ہی نہیں دیتے تو اس میں لچک پیدا کریں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے بحث و مباحثہ کیا۔ دلیل یہ دی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’امرت ان اقاتل الناس حتٰی یقولوا لا الہ الا اللہ‘‘ مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لیں ’’فمن قال لا الہ الا اللہ فقد عصم منی مالہ و نفسہ و حسابہ علی اللہ‘‘ جس نے کلمہ پڑھ لیا اس نے اپنی جان بھی بچا لی اور مال بھی بچا لیا۔ وہ میری لڑائی کے زد میں نہیں آئے گا، جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ میرا محارب نہیں ہے، میں اس سے نہیں لڑوں گا۔ اور یہ منکرینِ زکوٰۃ تو کلمہ پڑھتے ہیں پھر ہم ان کے ساتھ قتال کیوں کریں؟
میں کہا کرتا ہوں کہ حضرت عمرؓ کو حضرت صدیق اکبرؓ کے فیصلے سے اختلاف ہوا تو انہوں نے حدیث سے دلیل دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب میں اسی حدیث کا ایک جملہ نقل کیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا عمر، دیکھو! حضور نبی کریمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے ’’الا بحق الاسلام‘‘ جہاں اسلام کا تقاضا ہو گا وہاں لڑوں گا ۔ جو حدیث حضرت عمرؓ کی دلیل ہے وہی حدیث حضرت ابوبکرؓ کی دلیل ہے۔ عمومی طور پر لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو گیا ہے لیکن جہاں اسلام کا تقاضا ہوگا وہاں قتال کیا جائے گا۔ مثلا ًاگر کسی نے دوسرے کو قتل کیا ہے تو قصاص میں قتل ہو گا، اگر کسی پر رجم کی سزا ہے تو نافذ ہو گی۔ فرمایا کہ ’’فان الزکوٰۃ حق الاسلام‘‘ زکوٰۃ بھی اسلام کا حق ہے۔ جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا، اللہ کی قسم میں اس سے ضرور لڑوں گا۔ بالآخر حضرت عمرؓ نے یہ موقف تسلیم کر لیا اور فرمایا ’’شرح اللہ صدری کما شرح صدر ابی بکر‘‘ اللہ تعالی نے میرا سینہ بھی کھول دیا جیسے ابوبکر کا سینہ کھولا تھا۔ ’’فعرفت انہ الحق‘‘ مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ حضرت ابوبکر کا فیصلہ برحق ہے۔
یہ واقعہ میں نے اس حوالے سے ذکر کیا ہے کہ خلافتِ راشدہ میں اگر کسی حوالے سے اختلاف ہوتا تو دلیل قرآن و حدیث سے دی جاتی۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے اس فیصلے کی بنیاد حدیثِ نبوی پر ہے۔
اسی پر دوسرا حوالہ دینا چاہوں گا کہ خلیفہ راشد کے فیصلے سے اختلاف قرآن مجید کی آیت کی بنیاد پر کیا گیا۔ حافظ ابن کثیرؒ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے ایک قانون نافذ کیا کہ لوگ مہر میں بڑی بڑی رقمیں طے کر لیتے ہیں، پھر ادائیگی میں جھگڑے ہوتے ہیں، اس لیے میں نے مہر کی رقم متعین کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اعلان کر دیا کہ کسی شادی میں چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے ، اگر کسی شادی میں چار سو درہم سے زیادہ مہر دیا گیا تو زائد رقم ضبط کر کے بیت المال میں جمع کر لی جائے گی۔
خلیفہ راشد، امیر المومنین نے یہ آرڈر جاری کر دیا۔ جب آپؓ جمعہ پڑھا کر باہر نکلے تو راستے میں ایک قریشی خاتون نے روک لیا۔ اور کہنے لگی حضرت! آپ نے مہر کی رقم پر پابندی لگا دی ہے اور کہا ہے کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے، اگر زیادہ دیا گیا تو زائد رقم ضبط کر لی جائے گی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، ہاں میں نے یہ اعلان کیا ہے۔ اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس کا اختیار کس نے دیا ہے، کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ حضرت عمرؓ کو گویا پریشر بریک لگ گئی کہ یہ میرے فیصلے پر اعتراض کر رہی ہے اور حوالہ قرآن سے دے رہی ہے۔ خاتون نے کہا کہ خاوندوں سے بیویوں کو جو ملتا ہے قرآن مجید نے اس کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے ’’فان اٰتیتم احداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا‘‘ اگر تم نے بیویوں کو قنطار برابر دولت بھی دے دی ہے تو واپس نہ لو۔ اس عورت نے حضرت عمرؓ کے سامنے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا کہ قرآن مجید ہمیں خاوندوں سے ڈھیروں دلواتا ہے، اور آپ کہتے ہیں کہ چار سو درہم سے زیادہ نہ دیں۔ حضرت عمرؓ کو بات سمجھ آ گئی، چنانچہ وہیں سے واپس مسجد میں گئے، وہاں جو لوگ موجود تھے ان سے کہا کہ میں نے ابھی خطبے میں ایک اعلان کیا تھا، ایک خاتون نے مجھے توجہ دلائی ہے اور قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیا ہے، بخدا میرا دھیان ادھر نہیں تھا ’’امرۃ اصابت واخطأ رجل‘‘ وہ بی بی ٹھیک کہتی ہے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، میں اپنا فیصلہ واپس لیتا ہوں۔ یہاں حضرت عمرؓ نے ایک جملہ دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر فرمایا کہ اب تو مدینے کی عورتیں عمر سے بھی زیادہ قرآن جاننے لگی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اگلے جمعہ کا انتظار نہیں کیا بلکہ انہی قدموں پر واپس پلٹے اور اپنا فیصلہ واپس لیا۔
الغرض خلفائے راشدین کے زمانے میں فیصلوں کی بنیاد قرآن مجید اور سنتِ رسول ہوتی تھی۔ اور حضرت عمرؓ کی زبان میں پہلے بزرگوں کے فیصلے بھی اس بنیاد میں شامل ہیں، جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
جو بات حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمائی تھی وہی بات حضرت عمرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمائی۔
آپؓ نے اپنے اوپر دو پابندیاں لگائیں کہ میں قرآن مجید اور سنتِ رسول کی پابندی کروں گا، اور اپنے پیشرو حضرت صدیق اکبرؓ کے فیصلوں کا احترام کروں گا کہ ان کے فیصلوں کو بلاوجہ ’’ری اوپن‘‘ نہیں کروں گا۔ پھر سوالیہ انداز میں فرمایا اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو، اور اگر میں ٹیڑھا چلنے لگوں تو کیا کرو گے؟ اس پر ایک اعرابی کھڑا ہو گیا، اس نے تلوار نیام سے نکال کر لہرائی اور حضرت عمرؓ فاروق سے کہا، اے خطاب کے بیٹے! اگر آپ قرآن و سنت کے مطابق چلے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے، اور اگر ٹیڑھے چلے تو ہم آپ کو اس تلوار کے ساتھ سیدھا کر دیں گے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کوئی سزا نافذ نہیں کی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ یہ بات کرنے والا بندہ بعد میں اس کے گھر والوں کو تلاش نہیں کرنا پڑا ۔ بلکہ حضرت عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ میری رعیت میں ایسے افراد موجود ہیں جو عمر کو بھی تلوار کے ساتھ سیدھا کرنے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ گویا حضرت عمرؓ بھی عوام کے حقِ احتساب اور حقِ احتجاج کی تصدیق کر رہے ہیں کہ خلیفہ کی بات پر احتساب کا حق بھی ہے اور احتجاج کا حق بھی ہے۔
اسی احتساب پر ایک مشہور واقعہ عموماً ذکر کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’یا ایھا الناس!‘‘ تو اس پر ایک اعرابی کھڑا ہو گیا اس نے کہا ’’لا سمع ولا طاعۃ‘‘ کہ ہم نہ آپ کی بات سنتے ہیں اور نہ مانتے ہیں۔ پہلے یہ بتائیں کہ آپ نے جو کرتا پہنا ہوا ہے یہ کدھر سے آیا ہے؟ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا، اس سے میرا کرتا تو نہیں بنا اور آپ کا کرتا بن گیا ہے، حالانکہ آپ کا قد بھی مجھ سے لمبا ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو اشارہ کیا۔ انہوں نے اٹھ کر جواب دیا کہ میرا اور ابا جان دونوں کا کپڑا مل کر یہ کرتا بنا ہے۔ اس پر اس اعرابی نے کہا ٹھیک ہے، آپ فرمائیں، ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور آپ کی بات مانیں گے بھی۔ یہ حقِ احتساب کی ایک صورت یہ ہے۔
احتساب کی دوسری صورت بخاری شریف میں یہ ذکر ہوئی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو حضرت عمرؓ نے کوفے کا گورنر بنایا تھا۔ حضرت سعدؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اکابر صحابہ میں سے تھے۔ ان کے خلاف شکایت آ گئی۔ حضرت عمرؓ نے محمد بن مسلمہ کو انکوائری آفیسر مقرر کیا کہ جا کر انکوائری کرو کہ کیا یہ شکایت درست ہے؟ اس وقت کوفہ میں چالیس کے لگ بھگ مسجدیں تھی۔ محمد بن مسلمہ نے جا کر یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ ایک مسجد میں جاتے، گورنر صاحب آپ کے ساتھ ہوتے ،نماز کے بعد کہتے کہ میں انکوائری کے لیے آیا ہوں، یہ آپ کے گورنر ہیں، اگر آپ میں سے کسی کو ان سے شکایت ہو تو بیان کرے۔ لوگ کہتے کہ یہ ہمارے بڑے ہیں، ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ کوفہ کی ساری مسجدوں میں تین چار دن انکوائری کی۔ آخری دن ایک مسجد میں یہی سوال کیا تو ایک بوڑھا کھڑا ہو گیا، اس نے کہا مجھے شکایت ہے۔ اس نے گورنر کوفہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں تین شکایتیں بیان کیں۔ اس نے کہا پہلی بات یہ ہے کہ یہ بیت المال سے ہمیں ہمارا پورا حصہ نہیں دیتے۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ یہ لوگوں کو جہاد کے لیے بھیج دیتے ہیں، خود نہیں جاتے۔ اور تیسری شکایت یہ ہے کہ نماز صحیح نہیں پڑھاتے اور قرآن صحیح نہیں پڑھتے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بڑی شخصیت تھے لیکن جلالی بزرگ تھے۔ انکوائری آفیسر محمد بن مسلمہ نے گورنر صاحب سے پوچھا کہ آپ کا کیا جواب ہے؟ حضرت سعدؓ غصے میں آ گئے اور کہا میں کوئی صفائی نہیں دیتا۔ اور شکایت کرنے والے کو مخاطب کر کے کہا کہ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اگر تو مجھ پر جھوٹے الزام لگا رہا ہے تو ’’اطل عمرہ و اطل فقرہ وعرضہ بالفتن‘‘۔ اسے لمبی عمر دے، لمبا فاقہ دے اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ یہ بڑی خوفناک بددعا ہے جو حضرت سعدؓ نے اسے دی۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے فرمایا کہ آپ واپس آ جائیں، میں کسی اور کو کوفہ بھیج دیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو مدینہ واپس بلا لیا۔ اس کو تاریخ کہتی ہے کہ انہیں معزول کر دیا ، یہ درست نہیں ہے، اس کی صفائی حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے دی تھی۔ جب حضرت عمرؓ کی شہادت کا وقت قریب آیا، زخمی حالت میں تھے، طبیبوں نے کہہ دیا کہ کوئی وصیت وغیرہ کرنی ہے تو کر دیں، ہماری طرف سے تو خطرہ ہے۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے چھ آدمیوں کی کمیٹی بنائی کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنا لینا۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد، حضرت سعید اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم۔ ان چھ میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی تھے۔ فوراً خیال آیا کہ حضرت سعدؓ کو تو میں نے گورنری سے واپس بلا لیا تھا، اس پر کوئی اعتراض نہ کر دے کہ گورنر تو نہیں بن سکتے تھے، امیر المومنین کیسے بن سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے وضاحت کی کہ میں نے سعد کو کوفے سے اس لیے واپس نہیں بلایا تھا کہ وہ شکایت درست تھی، بلکہ ان کے احترام کی خاطر واپس بلایا تھا کہ بزرگ آدمی ہیں، خواہ مخواہ کوئی توہین کرے گا۔
احتساب کی ایک صورت حضرت عثمانؓ نے اختیار کی تھی۔ حضرت عثمانؓ کا دورِ خلافت ساڑھے بارہ سال ہے۔ جب حکومت لمبی ہو جاتی ہے تو شکایتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ اسی طرح جوں جوں حکومت پھیلتی رہتی ہے تب بھی شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ حضرت عثمانؓ کے پاس بھی گورنروں کے خلاف شکایتیں آتی تھیں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی شہادت سے ایک سال پہلے پوری سلطنت میں اعلان کروایا کہ میں حج کے موقع پر منیٰ میں ساری شکایتیں سنوں گا اور فیصلے کروں گا، لہٰذا جس کسی کو کسی گورنر کے خلاف یا میرے خلاف کوئی شکایت ہے وہ حج پر آ جائے، منیٰ میں کھلی کچہری لگے گی۔ چنانچہ حج کے موقع پر منیٰ میں پورا دن کھلی کچہری لگی۔ حضرت عثمانؓ اور ان کے گورنر بھی موجود تھے، شکایات ہوتی رہیں، آپ سنتے رہے۔ ایک گورنر کے خلاف شکایت درست نکلی تو اس کو سزا بھی دی۔ تفصیلات میں نہیں جاتا لیکن حضرت عثمانؓ کی طرف سے یہ اہتمام ہوا کہ پوری سلطنت میں اعلان کر کے حج کے موقع پر کھلی کچہری لگا کر سب شکایات سنیں، اور جو شکایت درست تھی اس پر کاروائی بھی کی۔ یہ حق احتساب تھا۔ قرآن و سنت کے ساتھ کمٹمنٹ اور عوام کا حقِ احتساب، اسی پر خلافت کی بنیاد ہے۔
اسی حقِ احتساب پر حضرت معاویہؓ کے زمانے کے دو اعتراضات ذکر کروں گا۔ حضرت معاویہؓ صحابہ کرام میں سب سے لمبی حکومت کرنے والے ہیں۔ مجموعی طور پر آپؓ نے پینتالیس سال حکومت کی ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بیس سال شام کے گورنر رہے، اس کے بعد ساڑھے چار پانچ سال حضرت علیؓ کے ساتھ کشمکش رہی، اور جب حضرت حسنؓ نے ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی تو اس کے بعد ساڑھے انیس سال آپؓ ساری امت کے متفقہ خلیفہ رہے۔ اس دور کے دو واقعات روایات میں ملتے ہیں۔
ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ کا رومیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ تھا۔ اس وقت رومی سلطنت قائم تھی جو کہ ترکوں کی خلافت تک قائم رہی ہے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تب رومی سلطنت ختم ہوئی۔ حضرت معاویہؓ اور رومیوں کا آپس میں کچھ عرصے کے لیے جنگ نہ کرنے معاہدہ تھا۔ جنگ بندی کی مدت متعین تھی۔ مقررہ مدت ختم ہونے سے کچھ عرصہ پہلے حضرت معاویہؓ نے ایک تدبیر سوچی کہ جنگ نہ کرنے کے معاہدے میں جنگ نہ کرنا شامل ہے، ہم اس معاہدے کی پابندی کریں گے، لیکن اس دوران اپنے ملک میں فوجیں گھمانا پھرانا تو منع نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے تکنیکی پہلو اختیار کیا کہ ہم سرحد پر پہنچ جاتے ہیں، جونہی مدت ختم ہو گی ہم حملہ کر دیں گے تاکہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہو۔ یہ جنگی چال تھی، چنانچہ اس کے مطابق دمشق سے لشکر لے کر چل پڑے، ایک یا دو دن کا سفر ہو چکا تھا۔ اچانک دمشق کی جانب سے ایک آدمی بہت تیز رفتار گھوڑا دوڑاتے ہوئے شور مچاتے ہوئے آ رہا تھا۔ یہ اس زمانے میں بریکنگ نیوز ہوتی تھی اور اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے، کوئی واقعہ ہو گیا ہے۔ حضرت معاویہؓ نے حکم دیا کہ ٹھہرو پتا کرتے ہیں کون ہے۔ آنے والے کا انتظار کیا، جب وہ قریب آئے تو معروف صحابی عمرو بن عبسہؓ تھے جو للکارتے ہوئے آ رہے تھے معاویہ! ’’وفاء لا غدر‘‘ معاہدہ پورا کرنا چاہیے، توڑنا نہیں چاہیے۔ فوج کا روم کی سرحد کی طرف رخ تھا۔
جب وہ حضرت معاویہؓ کے پاس پہنچے، سلام دعا ہوئی تو حضرت معاویہؓ نے پوچھا خیر تو ہے؟ عمرو بن عبسہؓ نے پوچھا حضرت! یہ لشکر لے کر کہاں جا رہے ہیں، آپ کا رومیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہے؟ حضرت معاویہؓ نے کہا، معاہدہ ہے۔ عمرو بن عبسہؓ نے پوچھا کتنے عرصے کا معاہدہ ہے؟ حضرت معاویہؓ نے مدت بتائی تو انہوں نے پوچھا کیا یہ مدت ختم ہو گئی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ تو عمرو بن عبسہؓ نے کہا کہ پھر آپ کیوں روم کی سرحد کی طرف جا رہے ہیں؟ حضرت معاویہؓ نے کہا کہ میں معاہدہ ختم ہونے سے پہلے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کروں گا صرف فوجیں بارڈر پر لے جا رہا ہوں تاکہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی ہم حملہ کر دیں۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تمہارا کسی قوم کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو تو جب تک معاہدے کی مدت ختم نہ ہو جائے فوجوں کو اپنے مرکز سے حرکت مت دو۔ اس لیے آپ ٹھیک نہیں کر رہے ہیں۔ حضرت معاویہؓ نے صرف یہ سوال کیا ’’أانت سمعت؟‘‘ کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ سے خود سنی ہے؟ یہ سوال اس لیے کیا کہ ہو سکتا ہے کسی اور سے سنا ہو اور سننے میں غلطی ہو گئی ہو۔ انہوں نے کہا ’’سمعت اذنای و وعاہ‘‘ قلبی میرے ان کانوں نے سنی ہے اور سینے نے یاد رکھی ہے۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ نے لشکر کو آرڈر دے دیا کہ واپس چلو، یہاں تک ہماری چال تھی، اب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سامنے آ گیا ہے لہٰذا اب کوئی چال کوئی ڈپلومیسی نہیں چلے گی۔ چنانچہ وہیں سے فوجیں واپس ہوئیں اور دمشق جا کر سانس لیا۔
یہ نظامِ خلافت میں عوام کا حقِ احتساب ہے کہ عام شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کو جا کر روک لے کہ جناب! آپ یہ غلط کر رہے ہیں۔ اور خلیفہ اگر محسوس کرے کہ مجھ سے یہ غلطی ہوئی ہے تو وہ اپنی بات پر اڑے نہیں بلکہ یوٹرن لے اور حق کی طرف واپس آئے۔
طبرانی کی روایت میں حضرت معاویہؓ کا دوسرا واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒکہتے ہیں کہ سند صحیح کے ساتھ ہے۔ ایک دفعہ حضرت معاویہؓ نے دمشق کی جامع مسجد میں جمعہ کے خطبے کے دوران یہ بات کہہ دی ’’المال مالنا والفیئ فیئنا من شئنا اتیناہ ومن شئنا منعناہ‘‘۔ بیت المال ہمارے کنٹرول میں ہے، ہم جس کو چاہیں گے دیں گے، جس کو نہیں چاہیں گے نہیں دیں گے، بیت المال کا مال اور غنیمت کا مال ہماری مرضی سے تقسیم ہو گا۔ لوگوں نے یہ بات سن لی۔ اگلے جمعہ کو خطبے میں آپ نے پھر یہ بات دہرا دی کہ مال تقسیم کرنے میں ہماری مرضی چلے گی، کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ لوگوں نے بات سن لی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ آپؓ نے تیسرے جمعہ میں پھر وہی بات دہرا دی۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ آپ تیسرے جمعہ سے یہ کیا بات کہہ رہے ہیں؟ بیت المال نہ آپ کا ہے نہ آپ کے باپ کا ہے، آپ نے عوام کے حقوق میں دخل اندازی کی تو آپ کو سیدھا کر دیں گے۔ یہ لوگوں کا حق ہے، آپ کو لوگوں کا حق دینا پڑے گا، اس میں آپ اپنی مرضی نہیں کر سکتے۔ جمعہ کے بعد حضرت معاویہؓ نے اس آدمی کو اپنے دربار میں طلب کر لیا۔ کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ جو طلبی ہوئی ہے اللہ خیر کرے، بات چھوٹی نہیں ہے کہ اس نے جمعہ کے خطبے کے دوران ٹوک دیا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں، ہم آپ کی یہ بات نہیں مانیں گے، اس لیے ہمیں چلنا چاہیے، اگر کوئی بات سختی کی ہوئی تو ہم سفارش کریں گے کہ اس کی بات ٹھیک ہے اور اگر بالفرض معاملہ بگڑا تو ہم مداخلت کریں گے، اس خیال سے کچھ لوگ پیچھے پیچھے چل پڑے۔
جب یہ لوگ اندر پہنچے، سلام دعا ہوئی تو دیکھا کہ حضرت معاویہؓ نے اس آدمی کو اپنی مسند پر بٹھایا ہوا ہے اور خود سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں ’’ان ھذا احیانی احیاہ اللہ‘‘ اس شخص نے مجھے زندگی دی ہے اللہ اسے زندہ رکھے۔ حضرت معاویہؓ اس کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور اسے دعا دے رہے ہیں۔ جب لوگ اکٹھے ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ حضرت! قصہ کیا ہے؟ اس پر حضرت معاویہؓ نے کہا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا تھا کہ میرے بعد کسی دور میں کچھ حکمران ایسے ہوں گے کہ جو اُن کے جی میں آئے گا کہہ دیں گے، ان کو کوئی روکنے کی ہمت نہیں کرے گا، ایسے حکمران جہنم میں بندروں کی طرح چھلانگیں لگائیں گے۔ حضرت معاویہؓ نے کہا کہ میں نے سوچا کہ کہیں میں تو ان میں سے نہیں ہوں، اس لیے میں نے تین جمعے یہ اعلان کیا کہ یہ غلط بات کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کوئی مجھے ٹوکتا ہے یا نہیں۔ میں نے پہلے جمعہ میں یہ بات کی، مگر کسی نے روک ٹوک نہیں کی تو میں گھبرا گیا کہ مسئلہ گڑبڑ ہے۔ پچھلے جمعہ پھر میں نے بات دہرا دی مگر کوئی نہیں بولا تو مجھے پریشانی ہوئی کہ کہیں میں اس کھاتے میں تو نہیں ہوں۔ آج میں نے پھر وہی بات کہی تو اس نے کھڑے ہو کر مجھے ٹوکا۔ اللہ اسے زندگی دے، اس نے مجھے اس کھاتے سے نکال دیا اور مجھے نئی زندگی دی ہے ورنہ میں تو بہت پریشان ہو گیا تھا کہ میں اتنی غلط بات کہہ رہا ہوں اور کوئی بول ہی نہیں رہا۔ اللہ تعالی اس کو لمبی زندگی عطا کرے، اس نے مجھے اس دائرے سے نکال دیا ہے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسے حکمران ہوں گے جو جہنم میں بندروں کی طرح چھلانگیں لگائیں گے۔
میں نے یہ واقعات اس پر ذکر کیے ہیں کہ خلفاء کا احتساب ہوتا تھا، لوگ ان کو روکتے ٹوکتے تھے، خلفاء ان کی بات سنتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے بھی امیر کی بہترین خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ سب سے اچھا امیر وہ ہے جسے لوگ اچھا سمجھیں۔ اور سب سے برا امیر وہ ہے جس کو لوگ برا سمجھیں اور اسے برا کہہ نہ سکیں، جس کی بات لوگوں کے لیے قابل قبول نہ ہو لیکن ٹوکنے کا حوصلہ بھی نہ ہو، اس کے سامنے اس کی غلطی کا اظہار نہ کر سکیں۔
خلافت کے نظام میں عوام کا حقِ احتساب مستقل اصول ہے کہ اگر خلیفہ غلط بات کر رہا ہو یا غلط کام کر رہا ہو تو عوام میں سے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اس کو ٹوکے اور اسے بتائے کہ آپ غلط کر رہے ہیں، آپ کی یہ بات شریعت کے فلاں حکم یا فلاں قانون کے خلاف ہے۔