ایک فاضل دوست نے شکوہ کیا ہے کہ جب ہم سماجی مطالعہ اور معاشرتی ارتقاء کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ قرآن کریم کی آیات پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ محترم دانشور کے ایک حالیہ کالم میں یہ بات پڑھ کر بے حد تعجب ہوا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا قرآن کریم اور سماجی مطالعہ ایک دوسرے سے ایسے لاتعلق ہیں کہ سماج کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) لپیٹ کر ایک طرف رکھ دینا چاہیے؟ اور کیا ہماری دانش خدانخواستہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ سوسائٹی اور سماج کے معاملات کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کا حوالہ بھی اسے اجنبیت کی فضا میں لے جاتا ہے؟ جبکہ قرآن کریم تو نازل ہی سماج کے لیے ہوا ہے اور سماج کے ہر مرحلہ اور معاملہ میں نسل انسانی کی واضح راہ نمائی کرتا ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ انسان کے سماجی معاملات میں قرآن کریم ہماری کس طرح راہنمائی کرتا ہے۔
انسانی سوسائٹی کا آغاز دو افراد یعنی حضرت آدم و حواء علیہما السلام سے جنت میں ہوا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے کہا ’’اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں سکونت اختیار کرو۔ اور ساتھ ہی پابندی لگا دی کہ جنت کے سارے پھل کھا سکتے ہو مگر ایک پھل کھانے کی ممانعت ہے، اس کے قریب بھی مت جانا۔ اس طرح انسانی سوسائٹی کا آغاز جنت میں سکونت اور جائز و ناجائز کی پابندیوں کے ساتھ ہوا۔ اور جب اس پابندی کی خلاف ورزی پر اس جوڑے کو زمین پر اتر جانے کا حکم ہوا تو اسے بتایا گیا کہ
- تمہارے لیے زمین میں ایک مقررہ وقت تک کے لیے مستقر (رہنے کی جگہ) اور متاع (زندگی کے اسباب) میسر ہوں گے، اور
- میری طرف سے ہدایات آتی رہیں گی کہ زمین پر رہ کر آپ لوگوں اور آپ کی اولاد نے کیا کرنا ہے۔
گویا زمین پر انسانی سوسائٹی اور آبادی کا آغاز ایک جوڑے سے ہوا جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر رکھی گئی اور آسمانی تعلیمات کی پابندی کو انسانی سوسائٹی کی کامیابی کا معیار قرار دیا گیا۔ اس مقام پر مجھے بعض حضرات کے اس سوال پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا سوسائٹی اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق ہوتا ہے؟ اس لیے کہ اگر مذہب سے مراد آسمانی تعلیمات ہیں تو قرآن کریم نے انسانی سوسائٹی کی بنیاد ’’اما یأتینکم منی ھدیً‘‘ فرما کر انہی آسمانی تعلیمات کو قرار دیا ہے۔ خدا جانے ان دوستوں کو سوسائٹی اور مذہب کے اس واضح باہمی تعلق کے علاوہ اور کون سے تعلق کی تلاش ہے؟
فرد، خاندان، سوسائٹی، اور ریاست انسانی سماج کے چار مراحل ہیں۔ قرآن کریم میں انسانی زندگی کے ان چاروں مراحل کے لیے ہدایات اور تعلیمات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم انسانی سوسائٹی کا آغاز فرد سے نہیں بلکہ خاندان سے کرتا ہے۔ ’’بث منھما رجالاً کثیرًا ونسآءًا‘‘ کہہ کر قرآن کریم نے فرد کی بجائے فیملی کو انسانی سماج کا بنیادی یونٹ قرار دیا ہے جس سے مغرب کے ’’فردیت‘‘ (Individualism) کے فلسفہ کا کھوکھلاپن آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔ اور جب انسانی سماج فیملی اور سوسائٹی کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر ریاست کے دور میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے توراۃ کی صورت میں ایک باضابطہ حکومتی نظام نازل کر کے اس کی پابندی کا حکم دیا اور فرمایا ’’ومن لم یحکم بمآ انزل اللّٰہ فاولئک ھم الکافرون‘‘ کہ جو آسمانی تعلیمات کے مطابق حکومت نہیں کریں گے وہ کافر شمار ہوں گے۔ اسی سسٹم کے تحت حضرت داؤد علیہ السلام نے خلافت سنبھالی تو انہیں حکم ہوا کہ حکومت و خلافت کے فیصلے آسمانی تعلیمات کے مطابق کرنے ہیں اور اس سلسلہ میں انسانی خواہشات کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر اس سسٹم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نسلی اور قومی ریاست سے عالمی نظام کی طرف پیش رفت کی تو انہیں بھی یہی حکم ہوا کہ ’’وان احکم بینھم بمآ انزل اللّٰہ‘‘ کہ لوگوں کے درمیان آسمانی تعلیمات کے مطابق حکم کریں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے زندگی بھر سیاسی، عدالتی، فوجی، معاشی، معاشرتی، خاندانی، اور دیگر تمام معاملات میں وحی الٰہی کو ہی اپنے فیصلوں اور احکام کی بنیاد بنایا۔ اور جب جناب رسول اللہؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کے جانشین اور خلیفہ بنے تو انہوں نے قرآن و سنت کو ریاست و حکومت کے تمام معاملات کی اساس قرار دینے کا ہمیشہ کے لیے اعلان کر دیا۔ اس لیے اسلام کے نزدیک قیامت تک خاندان، سوسائٹی، اور ریاست کی یہی اساس رہے گی۔
مغرب نے اگر اپنے مذہب میں وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی استعداد نہ دیکھ کر سوسائٹی اور سماج کو آسمانی تعلیمات سے لا تعلق کر لیا ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے۔ ہمیں ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں ہے کیونکہ قرآن و سنت دونوں اصلی حالت میں موجود و محفوظ ہیں اور ان کی تعلیمات میں ’’اجتہاد و تجدید‘‘ کے عنوان سے وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے اور ہر دور کے مسائل و مشکلات کو بخوبی حل کرنے کی گنجائش بھی پوری طرح موجود ہے جس سے ہر زمانے میں بھرپور استفادہ کیا گیا ہے، آج بھی کیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس آسمانی تعلیمات محفوظ و مستند حالت میں موجود نہیں ہیں۔ اور جو کسی حد تک موجود بتائی جاتی ہیں ان کی تعبیر و تشریح کی بنیاد دلیل اور استدلال پر نہیں بلکہ ’’پاپائی صوابدید‘‘ (کیتھولک) یا پھر سوسائٹی کی اجتماعی خواہش (پروٹسٹنٹ) پر ہے۔ یعنی ایک طرف مکمل جمود ہے اور دوسری طرف بے لگام خواہشات ہیں۔ اسلام ان دونوں انتہاؤں سے پاک اور بری ہے اور انسانی سماج کے ہر مرحلہ اور دور کے معاملات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے دائرے میں سنبھالنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے مہربان دانشوروں سے گزارش ہے کہ ہمیں قرآن اور سماج کے آپس میں لاتعلق ہونے کی تھیوری نہ پڑھائی جائے۔ قرآن کریم اور سماج آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ انسانی سوسائٹی کی وفاداری کے اسی تعلق پر نسل انسانی کی فلاح و نجات کا مدار ہے۔ البتہ ہماری جدید دانش کی موجودہ نفسیاتی کیفیت دیکھ کر پنجابی کا یہ محاورہ یاد آنے لگتا ہے کہ ’’پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار کر سرخ نہیں کر لینا چاہیے‘‘۔