اس کے بعد ایک تیسرا مرحلہ درپیش آگیا۔ دیکھیں آج کے دور میں اسلام نافذ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بڑے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اور بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد تیسرا مسئلہ قادیانیوں کے حوالے سے پیش آگیا جو بڑا زبردست مسئلہ تھا۔ قادیانی ختمِ نبوت کے واضح منکر تھے اور اب بھی منکر ہیں اور مرزا غلام احمد کی نبوت کے قائل ہیں۔ ایک خالص اسلامی ریاست میں ہمارے ماضی کے حوالے سے ختمِ نبوت کے منکر اور مرتد کے لیے زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس پر ایک دلچسپ بحث کا حوالہ دوں گا ۔
مرزا غلام احمد نے ایک دفعہ ایسا کیا کہ افغانستان میں امیر حبیب اللہ خان کے پاس دو نمائندے بھیجے۔ جس طرح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دی تھی، تو مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی دنیا کے مختلف حکمرانوں کے پاس خطوط بھیجے۔ اپنے دو نمائندے امیر حبیب اللہ خان کے پاس کابل بھیجے اور اپنے ’’اسلام‘‘ کی دعوت دی۔ امیر حبیب اللہ خان نے دو لفظوں میں بڑا سادہ سا جواب دیا : ’’ایں جا بیا‘‘ کہ یہ بات کابل میں آ کر کرو۔ یعنی ہندوستان میں بیٹھ کر انگریزوں کی حکومت میں یہ بات کر رہے ہو، یہاں آ کر یہ بات کرو۔ اس کے بعد اس کے کچھ مبلغین افغانستان گئے تو امیر حبیب اللہ خان نے اس کے ایک یا دو مبلغوں کو ارتداد کے جرم میں قتل کروا دیا۔
اس پر ہمارے ہاں یہ بحث چھڑ گئی کہ مرتد کی سزا قتل ہے یا نہیں ہے؟ یہ بڑی لمبی بحث ہے۔ ہمارے متجددین میں سے بہت سے لوگ اس کو حد نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ لوگوں کو قتل کروایا تھا وہ سیاستاً حکمتِ عملی کے تحت تھا، قانوناً نہیں تھا۔ اس وقت مرزا غلام احمد کے بعد قادیانی دو حصوں میں تقسیم تھے، لاہوری اور قادیانی۔ لاہوریوں کا امیر مولوی محمد علی تھا جوکہ بہت فاضل آدمی تھا لیکن اللہ کی قدرت ہے، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے، وہ علمی اور فکری دنیا میں بہت بڑا آدمی تھا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس نے اس بحث کو شروع کیا کہ امیر حبیب اللہ خان نے یہ غلط کیا ہے، اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے، یہ حد نہیں ہے بلکہ تعزیر ہے جس میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا جواب شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اس زمانے میں ’’الشہاب‘‘ کے نام سے دیا۔ رسالہ الشہاب مختصر سا تھا لیکن بہت جامع تھا۔ اس میں انہوں نے قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے یہ ثابت کیا کہ اسلام میں ارتداد کی متعین سزا قتل ہی ہے اور یہ حد ہے، سیاست یا تعزیر نہیں ہے۔ من ارتد فاقتلوہ۔ ایک علمی بحث ہے۔ بہرحال یہ رسالہ انگریز نے ضبط کر لیا۔ یہ دو بڑے متکلم تھے جن کا آپس میں مکالمہ ہوا۔
اب یہ بات بھی ہماری پھنس گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کر کے آج کی دنیا میں ایک ریاست کیسے اپنا آغاز کرے گی۔ قادیانی لاکھوں کی تعداد میں تھے، اب بھی ہیں۔ کیا لاکھوں آدمیوں کا قتلِ عام ہوگا؟ یہ بڑا مشکل کام تھا۔ اس کا ایک حل علامہ اقبالؒ تجویز کر چکے تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے قادیانیوں کو غیر مسلم، غدار اور یہودیت کا چربہ قرار دیا تھا۔ قادیانیت پر علامہ اقبال نے بہت کام کیا ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ آج کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو ان کی نفسیات کے مطابق اگر قادیانیت سمجھانی ہے تو اقبالؒ سے بہتر کوئی نہیں۔ یہ لوگ علماء کی اصطلاحات کو نہیں سمجھتے۔ آج کی سوشل اصطلاحات اور آج کے سماجی مسائل میں آج کے پڑھے لکھے لوگوں کو اگر قادیانیت سمجھانی ہے تو اس کے لیے اقبالؒ سے بہتر کوئی ہمارا نمائندہ نہیں ہے۔
علامہ اقبالؒ قادیانی ہوتے ہوتے بچے تھے اور واقف حضرات کا کہنا یہ ہے کہ انہیں بچانے والا مولوی انور شاہؒ ہے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر قادیانیوں نے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کی پلاننگ کی۔ کشمیر کے راجہ اور عوام کے درمیان تنازع کے ماحول میں کشمیر کمیٹی بنوائی۔ اس کمیٹی کے سربراہ علامہ اقبالؒ تھے۔ اس پر مسلمان علماء متوجہ ہوئے۔ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ اور دوسرے علماء نے اقبالؒ سے کہا ارے خدا کے بندے! کیا کرنے لگے ہو؟ انہوں نے کہا مجھے کچھ اشکالات ہیں۔ وہ اشکالات علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کی ملاقات سے دور ہوئے تو اقبال نے قادیانیوں کی کشمیر کمیٹی سے استعفیٰ دیا اور قادیانیوں کے خلاف خود مورچہ لگا کر بیٹھ گئے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ اسلام سے قادیانیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر علامہ اقبالؒ کا پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مکالمہ ہوا جوکہ بڑا زبردست مکالمہ ہے۔ نہرو اقبال خط و کتابت چھپی ہوئی ہے۔ اصل انگریزی میں ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی چھپا ہوا ہے۔ نہرو قادیانیوں کے حق میں بات کر رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ جب قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، حضرت محمد کو اللہ کا رسول مانتے ہیں، کعبہ بھی یہی مانتے ہیں، تو پھر یہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ اس نے اقبالؒ سے کہا کہ تم بڑے تنگ نظر ہو گئے ہو۔ وہی جو آج کی دنیا کا سوال ہوتا ہے۔ ہم لوگ اقبالؒ کو صرف شعروں کے حوالے سے جانتے ہیں، ہمیں اقبالؒ کو ایک مفکر کے طور پر پڑھنا چاہیے۔
علامہ اقبالؒ نے اس وقت انگریز حکومت کے سامنے تجویز رکھی کہ قادیانی غیر مسلم ہیں، ان کو مسلمان سوسائٹی کا حصہ سمجھنے کی بجائے غیر مسلم قوموں کے ساتھ شمار کیا جائے۔ اقبالؒ نے حل دیا کہ قادیانیوں کو ایک مسلمان ریاست (جو بعد میں بنی) میں قتل کرنا شاید حالات کے تقاضے کے مطابق ٹھیک نہ ہو، لیکن غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ انہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اسلامی ریاست میں جیسے دوسری اقلیتیں ہیں عیسائی، سکھ، یہودی وغیرہ، جو اُن کی حیثیت ہے وہی قادیانیوں کی حیثیت ہوگی۔
پاکستان بننے کے بعد یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ ایک اسلامی ریاست میں منکرینِ ختمِ نبوت کا معاشرتی سٹیٹس کیا ہوگا؟ کیا یہ قتل کیے جائیں گے یا ملک میں رہیں گے؟ غلام بنیں گے یا قیدی رہیں گے؟ ان کی معاشرتی حیثیت کیا ہوگی؟ اس پر علماء کرام نے متفقہ اجتہاد کر کے علامہ اقبالؒ کی تجویز کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء جنہوں نے بائیس نکات طے کیے تھے، انہوں نے کہا ہم اقبالؒ کی اس تجویز کو قبول کرتے ہیں۔ پاکستان میں قادیانیوں کو زندہ رہنے اور بسنے کا حق ہے، لیکن مسلمان کے طور پر نہیں، بلکہ غیر مسلم اقلیت کے طور پر انہیں پاکستان کا شہری تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں قادیانیت کا مسئلہ کھڑا ہو گیا تو ۱۹۵۲ء میں علماء کرام اکٹھے ہوئے۔
۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کا پس منظر ایک تو یہ تھا کہ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان قادیانی بلکہ خوفناک قسم کا قادیانی تھا، اس نے دنیا بھر میں پاکستان کے جتنے سفارت خانے تھے سب قادیانی تبلیغ کے اڈے بنا دیے تھے۔ اس پر اس کی برطرفی کے مطالبے کے لیے علماء اکٹھے ہوئے، اور ساتھ ہی یہ مسئلہ پیش آ گیا کہ اسلامی ریاست میں ہم قادیانیوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔ اس پر ”کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت“ تشکیل پائی جو کہ انہی اکابر پر مشتمل تھی جنہوں نے بائیس نکات طے کیے تھے۔ اس کے سربراہ مولانا سید ابوالحسنات قادریؒ چنے گئے جو بریلوی علماء میں بہت بڑے عالم تھے، لاہورکی وزیر خان مسجد کے خطیب تھے۔ لاہور میں داتا دربار کے ساتھ حزب الاحناف کا ادارہ بریلویوں کا پرانا ادارہ ہے۔ ان کے بعد مولانا ابو البرکاتؒ اور علامہ محمود رضویؒ اور دیگر علماء کرام تھے۔ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے دو مطالبات کیے۔
- ایک یہ کہ پاکستان میں دستوری طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،
- اور دوسرا مطالبہ یہ کیا کہ ظفر اللہ خان کو وزارتِ خارجہ سے الگ کیا جائے۔
یہ دو بنیادی مطالبے تھے جس کے لیے تحریک چلی۔ تحریک کے نتیجے میں اس وقت قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت تو قرار نہ دیا جا سکا لیکن خواجہ ناظم الدین وزیراعظم تھے ان کی وزارت ختم ہو گئی تو ظفر اللہ خان ان کے ساتھ ہی چلا گیا اور اس سے جان چھوٹی۔
میں ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں پانچ سال کا تھا لیکن نعرے لگانے والوں میں شامل تھا۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اس میں گرفتار ہوئے تھے۔ ان کی گرفتاری کا منظر مجھے یاد ہے اور ان کی رہائی کا منظر بھی یاد ہے، وہ تقریباً ساڑھے نو دس مہینے ملتان جیل میں رہے۔ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ بھی گرفتار ہوئے جو تقریباً چھ مہینے گوجرانوالہ اور دیگر مختلف جیلوں میں رہے۔ حضرت والد گرامیؒ کی ایک بڑی معرکۃ الآراء کتاب ہے” صرف ایک اسلام“ وہ انہوں نے جیل میں لکھی تھی، جہاں کوئی لائبریری نہیں تھی، لیکن آپ نے جتنے حوالے دیے ہیں اپنی یادداشت سے دیے۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے ایک کتاب لکھی تھی دو اسلام (ایک حقیقی اسلام اور ایک مولوی کا اسلام) اس کے جواب میں انہوں نے کتاب لکھی ”صرف ایک اسلام“۔ یعنی اسلام ایک ہی ہے وہی جو مولوی کا ہے۔ یہ معرکہ بھی ہمارے اکابر نے بڑی حکمتِ عملی، بڑے تدبر اور بڑی اجتہادی بصیرت کے ساتھ طے کیا۔
پاکستان بننے کے بعد ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے ابتدائی طور پر تین مرحلے درپیش آئے۔ ایک مرحلہ قرارداد مقاصد کا، دوسرا مرحلہ بائیس نکات کا، اور تیسرا مرحلہ تحریک ختم نبوت کا۔ ان تین مراحل سے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنا رخ متعین کر لیا اور پاکستان کی بنیادیں طے کر دیں۔ یہ تین واقعات ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا اور پاکستان کے آئندہ دستوری اور قانونی نظام کا رخ متعین کر دیا اور اس کی اساس طے کر دی۔ لیکن آگے عملاً کیا ہوا وہ الگ داستان ہے۔