حقوق اللہ، حقوق العباد اور حقوق النفس میں توازن

   
جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور
۱۷ دسمبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں علمی دنیا کی ایک بڑی شخصیت ہیں، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما، حدیثِ رسول کے بڑے راویوں میں سے ہیں۔ پانچ چھ جو بڑے راوی ہیں نا، ان میں سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما؛ حدیث، علم، دین، ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، علمی دنیا کے آدمی تھے۔ ان کے والد محترم حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حکمرانی، جرنیل، ڈپلومیسی، سیاست، اُس دنیا کے آدمی تھے۔ دونوں بڑے آدمی ہیں۔ مزاج میں؛ مزاج اپنا؛ باپ کا الگ ہوتا ہے، بیٹے کا الگ ہوتا ہے۔

عبد اللہ بن عمروؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں، میں جب بڑا ہوا جوان ہوا تو ابا جی نے میری شادی کر دی۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، وہ بڑے جہاندیدہ آدمی تھے، اپنے دور کے بڑے سیاستدانوں میں شمار ہوتا تھا ان کا، اور حاکم بھی رہے ہیں، بہت بڑے حاکم رہے ہیں۔ ابا جی نے میری شادی کر دی۔ شادی کے بعد ہمیں، میاں بیوی کو؛ ایک اچھے خاندان میں، معزز خاندان تھا، وہاں میری شادی کی؛ ہم میاں بیوی کو ایک الگ مکان دے دیا، چلو یہاں رہو، مکان کا بندوبست بھی کر دیا۔ اب کبھی کبھی تشریف لاتے، حال احوال پوچھتے کہ بیٹا کیا حال ہے؟

کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد ابا جی آئے، عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عبد اللہ گھر میں نہیں تھے، بہو گھر میں تھی۔ بیٹا کیا حال ہے؟ ٹھیک ہیں۔ عبد اللہ کیسا ہے؟ بہت اچھا آدمی ہے۔ آپ لوگوں کا کیسا وقت گزر رہا ہے؟ ابا جی، بہت اچھا وقت گزر رہا ہے۔ بچی بڑی سمجھدار تھی۔ عبد اللہ کیسا ہے، کچھ دل لگا؟ ہاں جی بالکل، دل لگا، عبد اللہ بہت نیک آدمی ہے، سارا دن روزے سے ہوتا ہے، ساری رات مصلے پہ ہوتا ہے۔ بہت نیک آدمی ہے، سارا دن روزے سے ہوتا ہے، ساری رات مصلے پہ ہوتا ہے اور بڑا عبادت گزار بڑا نیک آدمی ہے۔

عمرو بن العاصؓ بڑے جہاندیدہ شخص، سمجھ گئے کہ بیٹی تعریف نہیں کر رہی، شکایت کر رہی ہے، بیٹی شکایت کر رہی ہے۔ خیر، سمجھ گئے۔ خود بات کرنے کی بجائے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! وہ میں نے عبد اللہؓ کی شادی کی ہے، گھر الگ لے کے دیا ہے، آج کافی دنوں کے بعد گیا ہوں، بیٹی سے پوچھا ہے، وہ کہتی ہے جی بہت نیک آدمی ہے، سارا دن روزے سے ہوتا ہے، ساری رات مصلے پہ ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ! آپ ہی کچھ فرمائیں، آپ ہی سمجھائیں اس کو کچھ، آپ کا شاگرد ہے، آپ ہی سمجھائیں۔

عبد اللہؓ خود روایت کرتے ہیں، بخاری شریف کی روایت ہے۔ بخاری شریف نے یہ واقعہ تین چار جگہ الگ الگ ذکر کیا ہے۔ حضورؐ تشریف لائے۔ میں نے اکرام میں کوئی تکیہ وکیہ؛ بیٹھے۔ عبد اللہ! تم کیا کرتے ہو، تمہارے معمولات کیا ہیں؟ قرآن پاک کتنا پڑھتے ہو؟ یا رسول اللہ! کتنا کیا ہوتا ہے، روزانہ پورا پڑھتا ہوں۔

یہ انٹرویو ہو رہا ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے۔

پورا پڑھتا ہوں، جتنا ہے وہ سارا پڑھتا ہوں۔ او خدا کے بندے! مہینے میں پڑھ لیا کرو ایک۔ مہینے میں؟ بہت تھوڑا ہے۔ اچھا، پندرہ دن میں پڑھ لیا کرو۔ یا رسول اللہ! بہت کم ہے۔ دس دن میں پڑھ لیا کرو۔ یا رسول اللہ! تھوڑا ہے۔ ایک روایت میں سات دن پہ، ایک روایت میں تین دن پہ آ کے بات ٹک گئی۔ فرمایا، بس۔ سات والی زیادہ کہ وہ سات منزلیں وہیں سے بنی ہیں۔ سات دن میں پڑھ لیا کرو بس، اس سے زیادہ نہیں۔ یا رسول اللہ! فرمایا، نہیں، بس۔ وہاں بریک لگا دی۔

روزے کتنے رکھتے ہو؟ یا رسول اللہ! بلا ناغہ رکھتا ہوں۔ او خدا کے بندے کیا کرتے ہو! تین روزے مہینے میں کافی ہیں۔ ایامِ بیض کے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تین روزے رکھو گے تیس کا ثواب ملے گا۔ یا رسول اللہ! نہیں نہیں نہیں۔ یہاں بھی بارگیننگ ہوئی۔ آخر جا کے بات رکی صومِ داؤد پر۔ داؤد علیہ السلام کا معمول یہ تھا، ایک دن روزہ، ایک دن نہیں، ایک دن روزہ، ایک دن نہیں۔ پندرہ روزے مہینے کے۔ ایک دن کے وقفے کے ساتھ۔ یا رسول اللہ! فرمایا، بس۔ پھر یہاں بریک لگا دی۔

سوتے کتنا ہو رات کو؟ کہا، ساری رات جاگتا ہوں، سوتا ہی نہیں ہوں۔ او نہیں، خدا کے بندے! کیا کرتے ہو؟ یہاں بھی آدھی رات، تیسری پہر۔ یہ بھی داؤد علیہ السلام کا معمول تھا، میرا بھی معمول یہی ہے، حضورؐ نے فرمایا، تیسرا حصہ جاگو، دو حصے آرام کرو۔ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ام المومنین حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں کہ نصف شب تک سوتے تھے، پھر ایک ثلث؛ یعنی اگر چھ گھنٹے کی رات ہے تو تین گھنٹے سوتے تھے، دو گھنٹے جاگے، پھر ایک گھنٹہ سوتے۔ یہ تقسیم بتائی ہے۔ تو تیسرے حصے میں جا کے، بس بس بس، اس سے زیادہ نہیں۔

یہ ساری بات طے ہوئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، دیکھو، عبد اللہ! صرف اللہ کی عبادت نہیں، لوگوں کے حقوق بھی ہیں۔ ’’ان لنفسک علیک حقاً، ولزوجک علیک حقاً‌، ولعینیک علیک حقاً‌، ولزورک علیک حقاً‌، ولربک علیک حقا، فاعط کل ذی حق حقہ‘‘۔ دین صرف عبادت کا نام نہیں ہے، حقوق پورے کرنے کا نام بھی ہے۔ تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، نیند تمہاری آنکھوں کا حق ہے۔ خوراک تمہارے جسم کا حق ہے۔ بیوی کے بھی حقوق ہیں، وہ بھی ادا کرو۔ مہمان آجائے تو اس کا بھی حق ہے، اس کو ادا کرو۔ ’’ان لربک علیک حقاً‌، ولنفسک علیک حقاً‌، ولعینیک علیک حقاً‌، ولزوجک علیک حقاً‌، ولزورک علیک حقاً‌، فاعط کل ذی حق حقہ‘‘۔ دین کس کا نام ہے؟ ہر حق والے کو اس کے وقت پر اس کا حق ادا کرو۔ اللہ کی عبادت کا وقت ہے تو اللہ کا حق ادا کرو۔ نیند کا وقت ہے تو آنکھوں کا حق ادا کرو۔ کھانے پینے کا حق ہے تو اپنی جان کا حق ادا کرو۔ بیوی کا حق ہے تو بیوی کا حق ادا کرو، اس کو وقت دو۔ مہمان آ گئے ہیں تو ان کے ساتھ وقت گزارو۔ دین کس کا نام ہے؟ ہر حق والے کو اس کا حق اس کے وقت پہ ادا کرو۔

یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بٹھا کے بڑے محبت سے بڑے پیار سے سمجھایا اور فرمایا نہیں، دین توازن کا نام ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد اور حقوق النفس۔ تین حقوق ہیں۔ اللہ کا حق کیا ہے؟ جن کے ساتھ رہ رہے ہو ان کے حقوق کیا ہیں؟ تمہاری اپنی جان کا حق کیا ہے؟ خیر، عبد اللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ٹھیک ہے، حضورؐ کا ارشاد ہے۔

اگلی بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں کرتا رہا میں، ایسے ہی کرتا رہا، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روٹین طے ہوئی تھی نا کہ اتنے روزے رکھنے ہیں، اتنا سونا ہے، اتنا جاگنا ہے، اتنی عبادت کرنی ہے، اتنا کھانا پینا، سارا کچھ کرنا ہے۔ مجھے بڑھاپے میں احساس ہوا، اور جملہ کہتے ہیں ’’یا لیتنی قبلت رخصۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ بخاری کے الفاظ ہیں۔ اے کاش! میں نے حضورؐ کی رخصتیں قبول کر لی ہوتیں اور یہ طے نہ کی ہوتیں کہ یہ کروں گا۔ ’’یا لیتنی قبلت رخصۃ النبی‘‘۔ اے کاش، میں نے حضورؐ کی دی ہوئی رعایتیں قبول کر لی ہوتیں اور میں کمٹمنٹ نہ کرتا کہ یہ سوؤں گا، یہ جاگوں گا۔ اب کہتے ہیں، بڑھاپا آ گیا ہے، اب مجھ سے وہ پوری نہیں ہو رہیں۔ میں کبھی روزہ کا ناغہ کرتا ہوں تو پھر اس کی جگہ رکھتا ہوں۔ کبھی نیند زیادہ آ جاتی ہے تو اس کی جگہ زیادہ جاگتا ہوں۔ مجھے وہ بیلنس رکھنے میں، توازن رکھنے میں، معمولات کی ترتیب، کمٹمنٹ قائم رکھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ حضورؐ مجھے سہولتیں دے رہے تھے، مجھے ضد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ تیسرا حصہ، چوتھا حصہ، یہ ضد نہیں کرنی چاہیے تھی۔ جملہ یہ ہے ’’یا لیتنی قبلت‘‘ بڑھاپے میں مجھے احساس ہوا، اے کاش! میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصتیں قبول کر لی ہوتیں تو آج میں مشکل میں نہ پڑتا۔ ایک ٹائم ٹیبل میں نے حضورؐ سے طے کیا، اس کی خلاف ورزی کیسے کروں؟ کسی اور آدمی سے بات ہوئی ہوتی تو میں کوئی آگے پیچھے کر لیتا۔ یہ سارا ٹائم ٹیبل حضورؐ سے طے کیا ہے میں نے۔ ایک دن روزہ رکھوں گا، ایک دن نہیں رکھوں گا۔ ثلثِ لیل جاگوں گا، دو حصے سوؤں گا۔ اور روزے اتنے رکھوں گا اتنے رکھوں گا۔ اب مجھ سے نہیں رکھے جا رہے۔ یہاں میں ایک بات؛ یہ بات تو اُن کی ہے، حسرت کا اظہار کر رہے ہیں، کہتے ہیں میں کرتا ہوںٖ پورا لیکن مجھے دقت پیش آتی ہے، اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ حضورؐ کی دی ہوئی رخصتیں قبول کرنی چاہئیں تھیں، میں نے ضد کر کے ٹھیک نہیں کیا۔

اس پر میں ایک چھوٹا سا تبصرہ کیا کرتا ہوں۔ انسان اپنے بارے میں جب بھی فیصلہ کرتا ہے وقتی حالات کے تحت کرتا ہے۔ فیصلہ کرتا ہے، اُس وقت جو حالات ہیں، میں یہ کر سکتا ہوں۔ شریعت جب بھی فیصلہ کرتی ہے پوری زندگی کو سامنے رکھ کے کرتی ہے۔ انسان؛ ایک انسان کرے، ایک فیملی کرے، ایک قوم کرے، جس لیول پر بھی کرے۔ انسان جب اپنے فیصلے کرتا ہے نا، اپنے بارے میں فیصلہ؛ وقتی؛ یہ میں کر سکتا ہوں یار۔ اور شریعت چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے، اللہ کو پتہ ہے، اس نے بوڑھا بھی ہونا ہے، اس نے جوان بھی؛ اس نے بیمار بھی ہونا ہے۔ اللہ رب العزت ساری صورتحال سامنے رکھ کر حکم دیتے ہیں۔ اور اسی لیے شریعت کا حکم ہر حکم پہ فائق ہے کہ اللہ پاک نے انسان کی زندگی کے سارے ادوار سامنے رکھ کر؛

میں اس کی مثال دیتا ہوں، قرآن پاک میں اس کی مثال ہے۔ سورہ مزمل میں اللہ رب العزت نے ذکر کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔ ’’ان ربک یعلم‘‘ اللہ کہتا ہے مجھے معلوم ہے ’’انک تقوم ادنیٰ من ثلثی اللیل‘‘ آپ رات کو قیام کرتے ہیں، دو ثلث، ایک ثلث، نصف شب، کھڑے ہوتے ہیں ’’وطائفۃ من الذین معک‘‘ کچھ لوگ آپ کے ساتھ وہ بھی قیام کرتے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے ’’علم ان لن تحصوہ‘‘ آپ سے پابندی ہو گی نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کرتے ہیں ’’علم ان لن تحصوہ‘‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ سے یہ پابندی ہو گی نہیں، نہ آپ سے، نہ آپ کے ساتھیوں سے۔ ’’فتاب علیکم‘‘ میں نے رجوع کر لیا، پہلے رات کی پابندی تھی آپ پر، اب نہیں۔ اب کیا ہے؟ قیام کریں ’’فاقرءوا ما تیسر من القراٰن‘‘ جتنا آسانی سے کر سکیں، کر لیں۔ اللہ پاک کے سامنے انسان … تم میں کوئی بیمار ہو گا، کوئی مسافر ہو گا، کوئی جہاد پہ ہو گا، کوئی کاروبار پہ ہو گا، تمہاری مستقبل کی مصروفیات میرے علم میں ہیں، اس لیے میں ریلیکس دے رہا ہوں ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘ پڑھا ضرور کرو، جتنا آسانی سے پڑھ سکو۔

تو میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی اور نیکی اور عبادت صرف ایک طرف جھک جانے کا نام نہیں، سارے معاملات میں توازن قائم رکھنے کا نام ہے۔ اللہ کے حقوق بھی ادا ہوں۔ اپنا حق بھی ادا ہو۔ بیوی کا حق بھی ادا ہو۔ معاشرے کے حقوق بھی ادا ہوں۔ حقوق کی ادائیگی میں توازن کا نام دین ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس کا ذوق نصیب فرمائیں۔

https://www.facebook.com/share/v/1BVVazUq9G

2016ء سے
Flag Counter