۹ اگست ۲۰۰۴ء کو محکمہ اوقاف پنجاب نے الحمراء ہال لاہور میں خلیفۂ اول حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی یاد میں سیمینار کا اہتمام کیا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل و مناقب اور دینی خدمات پر گفتگو کی۔ سیدنا صدیق اکبرؓ سیمینار کی صدارت مذہبی امور اور اوقاف کے صوبائی سیکرٹری جناب محمد جاوید اقبال اعوان نے کی اور پیر کوٹ سدھانہ جھنگ کی خانقاہ قادریہ کے سجادہ نشین الحاج سید سراج احمد شاہ گیلانی مہمان خصوصی تھے، جبکہ مقررین میں صاحبزادہ مولانا حافظ فضل رحیم، صاحبزادہ مولانا محب اللہ نوری، مولانا عبدالرحمٰن لدھیانوی، مولانا عبد الستار آزاد، مولانا مقصود احمد قادری، علامہ علی غضنفر کراروی، مولانا کاظم رضا نقوی اور مولانا سیف الدین سیف بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ راقم الحروف کو بھی اس سیمینار میں ’’سیدنا صدیق اکبرؓ، کردار اور عمل کے آئینے میں‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی دعوت دی گئی اور اس موقع پر جو گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
آج ہم سیدنا ابوبکر صدیق اکبرؓ کی یاد میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے ساتھ نسبت کے اظہار کے لیے جمع ہیں۔ نسبت کا یہ اظہار ہمارے لیے اجر و ثواب کا باعث ہے، خیر و برکت کا ذریعہ ہے، ان کے ساتھ وفاداری کا اظہار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رہنمائی کا حصول بھی ہے کہ ہم ان کی زندگی اور ارشادات سے فکر و نظر کو جلا بخشیں اور روشنی اور رہنمائی حاصل کریں۔
مجھ سے پہلے حضرت صدیق اکبرؓ کی حیات مبارکہ اور عمل و کردار کے مختلف پہلوؤں پر فاضل مقررین بات کر چکے ہیں، جن میں سیدنا ابوبکرؓ کی جناب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری، رفاقت، ایثار، قربانی، عشق و محبت، دینی حمیت اور ملی خدمات شامل ہیں اور مجھے بھی ان کے عمل و کردار کے ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا ہے اور وہ ہے ایک مسلم حکمران کے طور پر ان کا کردار و عمل اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ و جانشین کی حیثیت سے ان کی خدمات۔ جس پر مولانا کاظم رضا نقوی نے بھی اچھی گفتگو کی ہے، لیکن ان کی گفتگو آج کے دور کے مسلم حکمرانوں کے عمل و کردار کے تناظر میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اندازِ حکمرانی کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے حوالے سے تھی، مگر میں ایک اور زاویہ سے اس پر بات کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ اسلام کا تصورِ حکومت اور مسلم حکمران کا کردار آج کی دنیا میں بطورِ خاص موضوعِ بحث ہے اور دنیا کی دانش گاہوں میں اس پر اظہارِ خیال کا سلسلہ جاری ہے۔
آج عام طور پر یہ تصور کیا جا رہا ہے اور اس خیال کو دنیا میں مسلسل پھیلایا جا رہا ہے کہ اسلام شخصی حکمرانی کا علمبردار ہے، مطلق العنان آمریت کا تصور پیش کرتا ہے، مسلمانوں کا حکمران کسی کے سامنے خود کو جواب دہ تصور نہیں کرتا، اسلام میں رائے عامہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اسلام تھیاکریسی اور پاپائیت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ اسلام کے سیاسی اور حکومتی نظام کے بارے میں آج کی دنیا کے تصورات ہیں اور عالمی سطح پر اسلام کے بارے میں کم و بیش یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ اس کے نظامِ سلطنت میں عوام کی رائے کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں میری گزارش یہ ہے اور میں علمی و دینی حلقوں سے مسلسل یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدینؓ کی حیات و سیرت میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے اور ان تصورات کے حوالے سے دنیا کے سامنے اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس پس منظر میں آج کی محفل میں صرف تین سوالات کا جائزہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے عمل و کردار کے حوالے سے پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اسلام میں رائے عامہ کو کوئی مقام حاصل ہے اور حکومتی اقدامات کے بارے میں عوام کو کچھ کہنے اور رائے دینے کا حق دیا گیا ہے؟ اس کے جواب میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کے اس تاریخی خطبہ کا حوالہ دوں گا جو انہوں نے خلیفہ منتخب ہونے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد مسجد نبویؐ میں منبرِ رسولؐ پر ارشاد فرمایا تھا اور جو نہ صرف خلیفۂ اول کا پالیسی خطاب تھا، بلکہ خلافت راشدہ اور خلافت اسلامیہ کا پالیسی خطاب بھی ہے۔ اس میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ نے عام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
’’اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو، اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسلام کے نظامِ حکومت کے بارے میں اس بنیادی پالیسی کا اعلان تھا کہ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امیر المؤمنین کے عمل و کردار پر نظر رکھیں، اس کی نگرانی کریں، یہ دیکھیں کہ وہ کوئی غلط کام تو نہیں کر رہا اور اگر اس کے کسی کام اور عمل کو وہ غلط کہیں تو نہ صرف یہ کہ اس کا اظہار کریں اور اسے اس پر ٹوک دیں، بلکہ عوام کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اسے سیدھا کر دیں۔
میں حضرت ابوبکرؓ کے اس خطاب میں ’’مجھے سیدھا کر دو‘‘ کے جملے پر زیادہ زور دوں گا کہ اس کی روشنی میں عوام کا صرف یہ حق نہیں بنتا کہ وہ حاکمِ وقت کی غلطی پر اسے ٹوکیں، بلکہ ان کا یہ بھی حق ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کر دیں جو حاکمِ وقت کو سیدھا چلنے پر مجبور کر دیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اسلام کے نظامِ حکومت میں رائے عامہ کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے، درست نہیں ہے اور حضرت ابوبکرؓ خلیفۂ اول کی حیثیت سے اس کی نفی کرتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی اور پاپائیت موجود ہے؟ پاپائیت کا تصور مسیحی دنیا میں موجود رہا ہے اور اب بھی ہے کہ پوپ خدا کا نمائندہ ہے اور وہ جو کہتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس طرح ایک مقتدر شخصیت کو یہ حیثیت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ خدا کی نمائندگی کے عنوان سے جو چاہے کہہ دے۔ اس کے فیصلے کو فائنل سمجھا جاتا ہے، اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے اور پورا سسٹم اور ادارے اس کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یورپ نے صدیوں تک یہ نظام بھگتا ہے اور اس کے ردِ عمل میں وہ انقلاب آیا تھا جس نے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کو بے دخل کر دیا ہے۔ لیکن اسلام میں خلیفہ یا کسی اور شخصیت کے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ’’خدا کی نمائندگی‘‘ کے دعوے کے ساتھ فیصلے کرے اور اسے یہ مقام مل جائے کہ اس کے کسی فیصلے کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کی سوانح میں ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے کہ ایک شخص ان کی خدمت میں آیا اور انہیں ’’یا خلیفۃ اللہ!‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، مگر حضرت ابوبکرؓ نے یہ کہہ کر اسے ٹوک دیا ’’لست بخلیفۃ اللہ، انا خلیفۃ رسول اللہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔
میرے نزدیک یہ محض سادہ سی بات اور سرسری سا جواب نہیں تھا، بلکہ ایک پورے فلسفہ اور فکر کی نفی تھی اور حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ فرما کر اسلام میں تھیاکریسی اور پاپائیت کو رد کر دیا تھا کہ میں حکمران کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی نمائندگی نہیں کر رہا کہ اس کے نام پر جو چاہوں فیصلہ کر دوں، بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی کرتا ہوں جن کی تعلیمات واضح شکل میں موجود محفوظ ہیں اور جن میں اب کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔
تیسرا سوال جس کا میں حضرت صدیق اکبرؓ کی سیرت کے حوالہ سے جائزہ لینا چاہتا ہوں یہ کہ اسلام میں دستور و قانون کی بجائے حاکم کی شخصیت کو برتری حاصل ہے اور بجائے اس کے کہ حاکم قانون و دستور کے دائرے میں رہے، دستور و قانون کو حاکمِ وقت کی خواہشات کے حصار میں رہنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں صدیوں تک نسلی خلافتوں اور بادشاہتوں کا معمول رہا اور آج بھی مسلم ممالک میں اکثر و بیشتر جگہ صورت حال اسی طرح کی ہے، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ مسلمانوں میں حکومت و نظام کے معاملات میں بالادستی اور برتری دستور و قانون کو نہیں، بلکہ حکمران شخصیات کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے تاریخی خطبہ اور ”پالیسی خطاب“ میں یہ فرما کر اس کی بھی صراحت کے ساتھ نفی کر دی ہے
’’میری بات سنو اور میری اطاعت کرو، جب تک میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں۔ اور اگر میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری بات سننا اور ماننا ضروری نہیں ہے۔‘‘
خلیفۂ اول کے اس ارشاد کا مطالبہ بالکل واضح ہے کہ اسلام کے نظامِ حکومت میں وفاداری اور اطاعت کا مرکز شخصیت نہیں، بلکہ دستور و قانون ہے اور کوئی شخصیت خواہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو، دستور و قانون کی پابند ہے۔ حتیٰ کہ سیدنا صدیق اکبرؓ جیسی عظیم شخصیت بھی اپنی رعیت اور عوام کو یہ حق دے رہی ہے کہ اگر وہ ان کے کسی حکم کو دستور و قانون (قرآن و سنت) کے منافی سمجھیں تو اس کی اطاعت سے انکار کر دیں۔ یہ دستور و قانون کی بالادستی کا اعلان ہے جو نہ صرف حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کی بنیاد تھا، بلکہ اسلام کے نظامِ خلافت کی اصل روح یہی ہے۔
اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کہنے کی ضرورت ہے، لیکن وقت کے اختصار کی وجہ سے صرف ان گزارشات پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ علماء کرام اور اہل دانش کو آج کے عالمی حالات، فکری چیلنج اور سوالات کی روشنی میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور حضرات خلفاء راشدینؓ کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے جو آج اسلام کے نظامِ حیات اور فلسفہ زندگی کے بارے میں پوری دنیا میں پھیلائے جا رہے ہیں اور جنہوں نے خود مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو پریشان کر رکھا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ آج کی دنیا کا کوئی سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے ارشادات اور سوانح و سیر میں موجود نہ ہو، مگر انہیں تلاش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی طرف توجہ دے سکیں۔