رائے ونڈ کا سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع ۱۸ نومبر جمعرات کی شام شروع ہوا، جو اتوار کو دوپہر تک جاری رہے گا اور اختتامی دعا کے بعد مختلف علاقوں کے لیے تشکیل دی جانے والی دعوت و تبلیغ کی جماعتیں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں گی۔ یہ اجتماع ہر سال ہوتا ہے اور اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے علمائے کرام، دینی کارکن اور مبلغین شریک ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حرمین شریفین کے بعد یہ اجتماع عالم اسلام کا سب سے بڑا اور نمائندہ سالانہ اجتماع ہوتا ہے اور کم و بیش ہر خطہ زمین کے مسلمان اس میں شریک ہو کر اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کی جھلک پیش کرتے ہیں۔
اس اجتماع کا بنیادی مقصد اسلام کی دعوت و تبلیغ کو عام کرنا اور مسلمانوں کو ان کے دین کی طرف واپس لانا ہے۔ اس میں ہونے والے بیانات کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے کہ عام مسلمان اپنے دین کی بنیادی باتوں سے واقف ہوں اور ان پر عمل کریں، تاکہ مسلم معاشرے میں وہ دینی ماحول پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا باعث ہوتا ہے اور جس کو دیکھ کر ہزاروں غیر مسلم خودبخود مسلمان ہو جایا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے، تاکہ وہ چند روز کے لیے گھر، ملازمت اور کاروبار کے ماحول سے باہر نکل کر خود کو دینی معمولات کا پابند بنائیں۔ فراغت کے ان ایام میں نماز، روزے کے احکام سیکھیں، ذکر و اذکار، تلاوت قرآن کریم اور درود شریف پڑھنے کی عادت ڈالیں اور عام مسلمانوں سے ملاقاتیں کر کے ان کی دینی حالت کا خود مشاہدہ کریں، تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ عام سطح پر دین کی محنت کو عام کرنے کی کس قدر ضرورت ہے اور وہ اس کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
دین کی دعوت کے دو درجے ہیں۔ ایک یہ کہ غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ اسلام عالمی مذہب ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک آنے والی تمام نسل انسانی کے لیے ہے اور ہمارے عقیدے کے مطابق پوری دنیائے انسانیت کی فلاح و نجات قرآن کریم کی تعلیمات سے وابستہ ہے۔ اس لیے فطری طور پر ہماری یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ جس پیغام کو ہم نسل انسانی کی نجات و فلاح کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، اسے اس نسل کے تمام لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں اور نسل انسانی کے ہر فرد تک قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پہنچانے کے لیے محنت کریں۔ یہ اسلام کے عالمی مذہب ہونے کے عقیدے کا فطری اور منطقی تقاضہ ہے اور اس کے لیے مزید کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں نیک دل مسلمان تجارت کے لیے مختلف علاقوں میں نکل جاتے تھے اور جہادی گروپوں میں شامل ہو کر مختلف علاقوں میں بس جایا کرتے تھے اور بہت سے غیر مسلم ان کے عمل و کردار کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے تھے۔ صوفیائے کرام میں سے کوئی بزرگ کسی جگہ ڈیرہ لگا لیتے تھے اور ان کے وجود سے روحانیت کا ایسا ماحول بن جاتا تھا جو ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے مسلمان ہونے کا باعث بن جایا کرتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے اب ایسی صورت حال نہیں ہے اور کسی بھی حوالے سے اسلام کی دعوت دنیا کے غیر مسلم انسانوں تک پہنچانے کا کوئی نظم اور پروگرام موجود نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کے عمّال کو ہدایت کی تھی کہ وہ جس علاقے میں جائیں، غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔ اس پہلو سے مسلم حکومتوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہو جاتی ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا اہتمام کریں، لیکن آج کی دنیا میں کوئی ایک مسلم حکومت بھی اسے اپنی ذمہ داریوں میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایک غلام اسبقؒ کہتے ہیں کہ وہ حضرت عمرؓ کی زندگی میں عیسائی تھے اور حضرت عمرؓ انہیں مسلسل اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے رہتے تھے، لیکن کبھی سختی نہیں کی، کبھی جبر سے کام نہیں لیا۔ صرف اتنا کہتے تھے کہ اگر تم اسلام قبول کر لو تو تمہیں بہت سے ایسے کاموں میں شریک کر سکوں گا، جن میں اب شریک نہیں کر سکتا۔ مگر اسبقؒ نے حضرت عمرؓ کی بار بار ترغیب اور دعوت کے باوجود ان کا ذاتی غلام ہوتے ہوئے بھی ان کی زندگی میں اسلام قبول نہ کیا، البتہ بعد میں مسلمان ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کے اس عمل سے دو سبق ملتے ہیں:
- ایک یہ کہ اپنے اردگرد کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
- اور دوسرا یہ کہ اس میں جبر کی کوئی صورت روا نہیں۔ اسلام کی دعوت دینا ہمارا کام ہے اور قبول کرنا یا نہ کرنا مکمل طور پر دوسرے کے اختیار میں ہے۔
مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکاری سطح پر یا پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی ایسا نظم اور اہتمام موجود نہیں، جس کا مقصد دنیا کے غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہو۔ آج کے دور میں ہماری اجتماعی کوتاہیوں میں یہ ایک بڑی کوتاہی ہے۔
دعوت و تبلیغ کا دوسرا درجہ خود مسلم معاشرے میں مسلمانوں کو دین کے احکام و فرائض کی بجاآوری کی دعوت دینا، حلال و حرام کا فرق کرنے کی تلقین کرنا اور باہمی حقوق و آداب کی طرف توجہ دلانا ہے۔ یہ کام مساجد و مدارس اور دینی مراکز اور جماعتوں میں کسی نہ کسی حد تک ہو رہا ہے اور اس کی سب سے منظم اور مربوط شکل تبلیغی جماعت ہے، جو مسلم معاشرے میں دینی اقدار و روایات کے اَحیا کے لیے سرگرم عمل ہے اور اس کی محنت کے نتیجے میں دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان ایک دوسرے کو دین پر عمل کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں، بلکہ مل جل کر اس کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل کیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے قرآن کریم نے بھی اسے اچھے مسلمانوں کے اوصاف میں شمار کیا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی حقوق میں جن باتوں کا زیادہ اہمیت کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے، ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کریں اور ایک دوسرے کو برائی سے روکیں۔ ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مسلم سوسائٹی میں خیر اسی وقت تک غالب رہے گی جب تک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذوق باقی رہے گا۔ جب یہ ماحول ختم ہو جائے گا تو مسلم سوسائٹی پر شر کا غلبہ ہو جائے گا۔“
ایک لحاظ سے سوسائٹی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کی وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں قوت مدافعت کی ہوتی ہے۔ جسم میں اگر اچھی چیزوں کو قبول کرنے اور نقصان دہ چیزوں کو قبول نہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو وہ بہت سی بیماریوں کا دفاع خودبخود کر لیتا ہے اور اس کے لیے اسے کسی اور علاج کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن اگر جسم کی یہ صلاحیت ہی ختم ہو جائے اور وہ اچھی اور بری چیزوں میں فرق کرنے کی فطری صلاحیت سے محروم ہو جائے تو پھر چھوٹی سے چھوٹی بیماری بھی اس پر غلبہ پا لیتی ہے اور اس سے چھٹکارا پانا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
یہی صورت حال انسانی سوسائٹی کی ہے، اگر اس میں شر اور منکر سے نفرت کا جذبہ موجود ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھتی رہتی ہے، اسی طرح خیر کو قبول کرنے کا ذوق پایا جاتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کی قوت مدافعت کام کر رہی ہے اور شر کے لیے اس کے اندر تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور خیر کی حوصلہ شکنی اور شر کی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے تو اس سے اس سوسائٹی پر شر کے غالب آنے کا راستہ صاف ہو جاتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔
اس پس منظر میں تبلیغی جماعت کا یہ عمل آج کے دور میں غنیمت ہے کہ خیر اور شر میں فرق کا ذوق اور نیکی و بدی میں امتیاز کی صلاحیت نہ صرف موجود ہے، بلکہ اسے زندہ رکھنے کی مسلسل کوشش بھی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رائے ونڈ کے اس اجتماع کو اپنے نیک مقاصد میں کامیابی عطا کرے اور اس کار خیر کو پوری دنیا میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور مسلم سوسائٹی میں اصلاح احوال کا ذریعہ بنا دے، آمین یا رب العالمین۔