مغرب کا علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے

   
۱۹ اکتوبر ۲۰۰۷ء

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکریٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ، جو رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ کے آغاز میں پاکستان آئے تھے، گزشتہ روز واپس لندن چلے گئے ہیں۔ مفتی برکت اللہ صاحب کا تعلق بھارت میں ممبئی کے علاقہ بھیونڈی سے ہے، دارالعلوم دیوبند کے فضلاء میں سے ہیں، ایک عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں اور مختلف حوالوں سے دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کی تشکیل میں وہ ہمارے شریکِ کار تھے، کئی برسوں تک ڈپٹی چیئرمین رہے، گزشتہ سال انہیں میری جگہ سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا اور مجھے سرپرست کا درجہ دے دیا گیا، مولانا محمد عیسیٰ منصوری بدستور چیئرمین ہیں۔ مولانا منصوری اور مفتی برکت اللہ دونوں کا بیعت کا تعلق ہمارے مخدوم و محترم حضرت مولانا سید نفیس شاہ صاحب دامت برکاتہم سے ہے، دونوں کا پروگرام اس سال رمضان المبارک حضرت شاہ صاحب کی خانقاہ سید احمد شہید رحمہ اللہ میں گزارنے کا تھا، مگر اہلیہ کی علالت کی وجہ سے مولانا منصوری نہ آ سکے اور مفتی برکت اللہ صاحب نے دو عشرے خانقاہ میں گزارے۔ ان سے ملاقات کے بہانے مجھے بھی ایک عرصہ کے بعد خانقاہ شریف میں حاضری کا موقع ملا اور خانقاہ کی رونقیں دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔

یہ خانقاہ جو حضرت شاہ صاحب کے سلسلہ کی روحانی تربیت گاہ ہے، لاہور میں راوی پل پر سکیاں پل سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ آپ لاہور سے باہر نکلیں تو سکیاں پل سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا بورڈ بائیں جانب ”خانقاہ سید احمد شہیدؒ“ کے نام سے نظر آئے گا، وہاں سے تیر کے نشان پر مڑ جائیں تو آگے تھوڑی دور خانقاہ ہے، جہاں حضرت شاہ صاحب مدظلہ کے مریدین اور معتقدین ان سے استفادہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھے پہلے بھی ایک دو بار خانقاہ میں حاضری کا موقع ملا اور حضرت شاہ صاحب کی مجلس اور ملفوظات سے مستفید ہوا ہوں۔ اپنا اپنا ذوق ہے، ان کے مریدین ان سے روحانی کسبِ فیض کے لیے آتے ہیں اور مجھے جب موقع ملتا ہے حضرت شاہ صاحب مدظلہ کی محفل میں علمی کسبِ فیض کے لیے بیٹھتا ہوں کہ قدرت نے ان کے دماغ میں ایک اچھی خاصی لائبریری بنا رکھی ہے۔ وہ جس موضوع پر گفتگو کرتے ہیں معلومات کے انبار لگاتے چلے جاتے ہیں، بالخصوص علماءِ حق کی جدوجہد اور مشائخ طریقت کی تاریخ کے حوالہ سے تو وہ انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حضرت شاہ صاحب کا روحانی تعلق برصغیر کی عظیم خانقاہ رائے پور سے ہے اور وہ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری قدس اللہ سرہ العزیز کے خلفاء میں سے ہیں، ان کا شمار عالمی سطح کے نامور خطاطوں اور خوشنویسوں میں ہوتا ہے اور ایک عرصہ تک اس فن کی دنیا میں ان کا سکہ چلتا رہا ہے۔ اب بیمار ہیں، معذور ہیں، مسلسل صاحبِ فراش ہیں اور اس حالت میں ہیں کہ اب صرف ان کی زیارت ہی سے شاد کام ہوا جا سکتا ہے اور آج کے دور میں یہ بھی بہت غنیمت کی بات ہے کہ ان جیسے چند اللہ والوں کی زیارت میسر آ جاتی ہے۔

غالباً چوبیسواں روزہ تھا جب میں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکریٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے ہمراہ مفتی برکت اللہ صاحب سے ملاقات کے لیے خانقاہ میں حاضر ہوا، حضرت شاہ صاحب دامت برکاتہم کی زیارت تو نہ ہو سکی، البتہ مفتی صاحب کے ساتھ تھوڑی سی نشست رہی اور ان سے عید الفطر سے اگلے روز کا گوجرانوالہ آنے کا وعدہ لے کر ہم واپس آ گئے۔

مفتی صاحب کی لندن واپسی کی سیٹ سولہ اکتوبر کی تھی، اس لیے اتوار کو عید ہونے کی صورت میں ان کے پاس صرف ایک دن بچتا تھا، جس کے لیے اسلام آباد کے ادارہ علوم اسلامی کے سربراہ مولانا فیض الرحمٰن عثمانی نے بھی ان کو دعوت دے رکھی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ مفتی صاحب ان کے ادارے میں ضرور آئیں، چنانچہ وہ انہیں عید کے روز ہی اسلام آباد لے گئے اور ایک رات ادارہ علوم اسلامی، بارہ کہو، اسلام آباد میں مفتی صاحب کا قیام رہا۔ مولانا فیض الرحمٰن عثمانی بھی تعلیمی اور تربیتی کام کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کام دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور اطمینان ہوتا ہے کہ جس کام کا خواب ہم آج سے ربع صدی قبل دیکھا کرتے تھے اور سوچا کرتے تھے کہ کیا ہمارے دور میں اس خواب کی تعبیر کی کوئی صورت بن سکے گی؟ بحمد اللہ تعالیٰ آج وہ کام ہم سے زیادہ بہتر لوگوں کے ہاتھوں مؤثر طور پر پیش رفت کر رہا ہے۔ جامعۃ الرشید کراچی، ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد، جامعہ خالد بن ولیدؓ وہاڑی اور جامعہ حنفیہ بورے والا جیسے اداروں کی تعلیمی جدوجہد کو دیکھ کر مجھے بے حد روحانی سکون ملتا ہے اور کبھی کبھی تو ”فزت ورب الكعبۃ“ کا نعرۂ مستانہ بلند کرنے کو بھی جی چاہنے لگتا ہے۔

مفتی برکت اللہ صاحب کا پیر کو اسلام آباد سے گوجرانوالہ آنے کا پروگرام تھا، راستہ میں انہوں نے وزیر آباد میں پروفیسر حافظ منیر احمد کے ہاں ناشتہ کیا۔ حافظ منیر احمد بھی اسی ذوق کے ساتھی ہیں، وزیر آباد میں الٰہ آباد کے مقام پر مدنی مسجد ان کی سرگرمیوں کی جولانگاہ ہے، وہ اپنے دائرہ میں اسی نوعیت کی تعلیمی سرگرمیوں میں مگن رہتے ہیں اور ہمارے ساتھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی مشاورت میں بھی شریک ہیں۔

وزیر آباد سے حافظ منیر احمد کے ہمراہ مفتی برکت اللہ گکھڑ آئے اور ہمارے والد گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے ملاقات کی۔ حضرت والد صاحب مدظلہ مسلسل صاحبِ فراش ہیں اور ان کی معذوری اور کمزوری میں پیہم اضافہ ہو رہا ہے، مگر بحمد اللہ تعالیٰ یادداشت پوری طرح قائم ہے اور اگر ملاقات کے لیے آنے والے شخص سے پہلے سے واقف ہوں تو متعلقہ امور پوری تفصیل کے ساتھ دریافت کرتے ہیں۔ مفتی صاحب پہلی بار آئے تھے، اس لیے ان سے ان کے علاقے کے بارے میں پوچھتے رہے اور یہ دریافت کیا کہ انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کس سن میں کیا تھا؟ مفتی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ۱۹۷۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کر کے سند فراغت حاصل کی تھی، حضرت والد صاحب مدظلہ نے انہیں اپنی سند کے ساتھ روایتِ حدیث کی اجازت دی اور مطبوعہ سند بھی مرحمت فرمائی۔

گوجرانوالہ میں ہم نے مفتی برکت اللہ صاحب کی آمد پر اسی روز شام کو الشریعہ اکادمی میں ”عید ملن پارٹی“ کے نام سے ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا، مگر اس سے قبل میں انہیں نئی جگہ میں الشریعہ اکادمی کا تعمیری کام دکھانے کے لیے لے گیا۔ واپڈا ٹاؤن کے ساتھ اسی طرز کی ایک نئی کالونی ”کینال ویو“ کے نام سے تعمیر ہو رہی ہے، اس کے عقب میں واقع ایک سڑک پر ہمیں ایک دوست نے الشریعہ اکادمی کے لیے آٹھ کنال زمین دی ہے، جہاں چار کلاس رومز، ایک ہال اور ایک بڑے برآمدہ پر مشتمل ایک بلاک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور حفظ قرآن کریم کی کلاس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جبکہ باقی منصوبوں کے لیے دھیرے دھیرے پیش رفت جاری ہے، جن میں شریعہ کالج، مسجد خورشید، ڈسپنسری اور ایک علمی تحقیقی مرکز کا قیام بھی شامل ہے۔ مفتی صاحب نے اس پروگرام پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے اس وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

اس سے پہلے ہم نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں حاضری دی اور عمِ مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید دامت برکاتہم کی زیارت سے شاد کام ہوئے، وہ بھی کافی عرصہ سے علیل اور صاحبِ فراش ہیں۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے ایک ہی سال پڑھانا چھوڑا۔ دونوں بھائیوں کی عمر میں تین سال کا فرق ہے، والد صاحب کا سن پیدائش ۱۹۱۴ء ہے اور صوفی صاحب کا سن پیدائش ۱۹۱۷ء ہے، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ دونوں بھائیوں نے اکٹھے تعلیم حاصل کی، ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں اکٹھے دورۂ حدیث کیا، ۱۹۵۲ء سے ۲۰۰۰ء تک مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اکٹھے پڑھایا اور پھر دونوں نے ایک ہی سال معذور اور صاحبِ فراش ہو کر پڑھانا ترک کیا۔ اس کے بعد بھی دونوں کم و بیش یکساں حالت میں ہیں، اتنے فرق کے ساتھ کہ حضرت والد صاحب مدظلہ کی یادداشت بحمد اللہ تعالیٰ تمام تر ضعف و علالت کے باوجود قائم ہے، مگر حضرت صوفی صاحب مدظلہ کی یادداشت متاثر ہو گئی ہے۔

عصر کی نماز کے بعد الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ میں ”عید ملن پارٹی“ کے نام سے احباب کا اجتماع تھا، چھٹی اور عید کی مصروفیات کے باوجود علماء کرام، اربابِ دانش اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ میں نے مختصر تعارف کے بعد مولانا مفتی برکت اللہ کو حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں خطاب کی دعوت دی اور انہوں نے اختصار کے ساتھ بہت جامع گفتگو کی۔

ان کا کہنا ہے کہ مغرب جس طرح عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے، ان کے مسائل سے واقفیت حاصل کرتا ہے، ان کے حالات کا علمی اور تکنیکی انداز میں تجزیہ کرتا ہے اور مسلمانوں میں اپنے رسوخ اور تسلط کو بڑھانے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی اور ترتیب کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھتا ہے ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے، جبکہ اس کی سخت ضرورت ہے۔ مغرب میں مسلمانوں پر مختلف پہلوؤں سے نظر رکھنے کے بہت سے ادارے ہیں اور وہ ہمارے مزاج، نفسیات، کمزوریوں اور خوبیوں کا بڑی گہرائی میں جا کر جائزہ لیتے ہیں، ان کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں طے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو مغرب اور اہلِ مغرب کا جذبات سے ہٹ کر علمی اور تکنیکی انداز میں جائزہ لیں، ان کے عزائم، مقاصد، ایجنڈے اور حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کی روشنی میں مسلمانوں کی راہ نمائی کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ مغرب میں ہمارے بارے میں جو رپورٹیں شائع ہوتی ہیں، ان تک ہماری رسائی ہو اور ان کا ترجمہ ہماری زبان میں ہمارے اہلِ علم تک پہنچے، تاکہ اپنی پالیسیوں اور طریق کار کے تعین کے وقت انہیں سامنے رکھ سکیں۔ کیونکہ جب تک ہم کسی بھی مسئلہ میں اصل حقائق اور معروضی صورت حال سے واقف نہ ہوں، اس کے بارے میں کوئی صحیح موقف اور حکمت عملی طے نہیں کر سکتے۔

مفتی برکت اللہ صاحب نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ان ضروریات اور تقاضوں کو اجاگر کرنے اور ان کا احساس بیدار کرنے کی جدوجہد میں اس وقت فرنٹ لائن میں ہے اور ہم سب کو اس سلسلہ میں اس کے ساتھ معاونت کرنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter