دنیا پر ’’جبری آزادی‘‘ مسلط کرنے کا امریکی اعلان

   
۲۸ جنوری ۲۰۰۵ء

صدر جارج ڈبلیو بش نے دوسری مدت صدارت کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اس موقع پر روایتی تقریب کا اہتمام کیا گیا اور ہزاروں محافظوں کے جلو میں امریکہ کے صدر نے اپنی دوسری مدت صدارت کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس موقع پر جن خیالات اور جذبات کا اظہار کیا، اس کی صدائے باز گشت پوری دنیا میں سنی گئی اور ان کے عزائم پر مختلف اطراف سے رد عمل کا اظہار کیا گیا۔

صدر بش نے حلف برداری کی تقریب میں جو خطاب کیا اس میں دو باتیں بطور خاص قابلِ توجہ ہیں:

  1. ایک یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ دنیا میں آزادی پھیلانے سے ہی امریکہ میں امن برقرار رہے گا اور ہماری آزادی کی بقا کا دارومدار دوسرے ملکوں میں آزادی کی کامیابی پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک نصب العین کے ساتھ ہمیشہ وفاداری نبھائے گا، اس لیے امریکیوں کو اپنی نگاہیں ان عظیم مقاصد پر مرکوز کرنا ہوں گی جو آنے والے برسوں میں ہم حاصل کریں گے، میں اس کے لیے تیار ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آزادی کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا کو ہم اس کے معنی اور ثمرات دکھا دیں گے۔
  2. دوسری اہم بات ان کے خطاب میں یہ ہے کہ انہوں نے اس پروگرام اور عزم کے بارے میں کہا ہے کہ ”ہمیں آزادی کے لیے ڈٹ جانے کا پیغام ستاروں سے بھی آگے سے ملا ہے۔“

جہاں تک دنیا میں آزادی پھیلانے اور دنیا بھر میں امریکی طرز کی آزادی کے فروغ کو امریکہ میں آزادی کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دینے کا تعلق ہے، اس کا مطلب بجا طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ امریکہ اس بہانے پوری دنیا پر تسلط قائم کرنے کا خواہشمند ہے اور صدر بش کا یہ کہنا دراصل ان کے اسی فلسفے کی توسیع پسندانہ شکل ہے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکہ اپنے دفاع کے لیے دنیا کے کسی بھی حصے میں پیشگی حملے کا حق رکھتا ہے، جہاں سے اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس ہو۔ اسے ”دفاع کے لیے پیشگی حملے کا فلسفہ“ کہا گیا تھا اور امریکی حلقوں میں اس فلسفہ کی بانی مسز کونڈا لیزا رائس کو قرار دیا جاتا ہے، جو گزشتہ مدت میں صدر جارج ڈبلیو بش کی مشیر تھیں اور اب انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔

صدر بش نے اپنے مذکورہ خطاب میں اسی فلسفہ کو آگے بڑھایا ہے اور جو حق دفاع کے نام پر امریکہ کے لیے مخصوص کیا گیا تھا، اسے امریکی طرز کی آزادیوں یعنی مغربی فلسفہ کے فروغ کے لیے پیش قدمی کے حق کا عنوان دیا جا رہا ہے۔ گویا بات دفاع سے بڑھ کر جارحیت پر آ گئی ہے اور صدر بش نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ آزادی کے جس تصور اور فلسفہ کو امریکہ کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، اسے پوری دنیا پر مسلط کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں اور ان کا اگلا دور صدارت اسی سمت پیش قدمی کا دور ہو گا۔

اس پر مشرقی یورپ کی ایک ریاست ”بیلا روس“ کے صدر الیگزنیڈلو کاشتکا نے یہ حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے کہ امریکہ جس آزادی کی بات کرتا ہے، اس سے خون اور تیل کی بو آتی ہے اور کچھ قوموں کو اس آزادی کی ضرورت نہیں ہے جس کی پیشکش واشنگٹن نے کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کے لیے لفظ آزادی کا جو مطلب ہے اس سے تیل کی بو آتی ہے اور اس پر خون کے چھینٹے ہیں۔ اس طرح ”بیلا روس“ کے صدر نے یہ بات دنیا پر واضح کر دی ہے کہ صدر بش نے دنیا میں جس آزادی کو فروغ دینے اور اسے ہر صورت میں دنیا پر مسلط کرنے کی بات کی ہے، اس سے مراد وہ آزادی نہیں ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں میں ہے، بلکہ یہ مخصوص قسم کی آزادی ہے جس کے نام پر امریکہ تیل کے چشموں کا قبضہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور خونریزی کے ذریعہ دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔

ظاہر بات ہے کہ یہ آزادی امریکہ کے سوا اور کسی ملک یا قوم کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی، حتیٰ کہ یورپی یونین جو آزادی کے مغربی فلسفہ اور ثقافت کے فروغ میں امریکہ کی پوری طرح ہمنوا اور معاون ہے، وہ بھی صدر بش کے اس نئے اعلان کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔ اور جہاں تک عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کا تعلق ہے، حکمران طبقوں اور چند مخصوص دانشوروں کے سوا کوئی بھی امریکہ کے اس خود ساختہ استحقاق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا کہ وہ آزادی اور جمہوریت کے نام پر تیل اور عالم اسلام کے دیگر وسائل پر مسلسل قبضہ جمائے رکھے اور جو فکری و معاشرتی آزادیاں امریکی سوسائٹی کا لازمہ سمجھی جاتی ہیں، ان سب کا دائرہ عالمِ اسلام تک وسیع کرنے کی بات کرے۔ کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک ان میں سے بہت سی آزادیاں ان کے عقیدہ اور ثقافت سے متصادم ہیں اور اسلام کے صریح احکام کی نفی کے مترادف ہیں۔ اس لیے امریکہ کی طرف سے لائی جانے والی اس ”جبری آزادی“ کو قبول کرنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہو گا۔

صدر بش کے اس خطاب کی روشنی میں مستقبل کا نقشہ یوں دکھائی دے رہا ہے کہ آزادی کے دو مفہوم آپس میں ٹکرائیں گے:

  1. ایک وہ مفہوم جو دنیا کی مختلف اقوام کے ذہنوں میں ہے اور جو ان کے نظریات و عقائد اور ثقافتوں سے مطابقت رکھتا ہے اور جسے وہ آزادی اور اختیار کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔
  2. اور دوسرا مفہوم آزادی کا وہ ہو گا جو امریکہ بیان کرے گا، جس کی تشریح صدر بش اور ان کی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کریں گی اور امریکی حکومت اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے ساتھ اسے دنیا کی اقوام و ممالک سے جبراً منوانے کی مہم چلائے گی۔

اس بارے میں سب سے زیادہ کشمکش عالم اسلام میں ہو گی۔ کیونکہ امریکہ اور اس کے حواری مسلم حکمرانوں اور دانشوروں کا عام مسلمانوں سے تقاضہ ہو گا کہ وہ نہ صرف امریکہ کی سیاسی، معاشی اور عسکری بالادستی کو اس کا احسان اور مہربانی سمجھ کر قبول کریں، بلکہ وہ آزادی اور سولائزیشن کے نام پر ان سے خاندانی اور معاشرتی نظام میں جس تبدیلی کا تقاضہ کرے، وہ اس کے سامنے بھی سرِتسلیم خم کر دیں۔ مگر جیسا کہ ہم پہلے بھی یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کے گھروں میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے عربی زبان زندہ اور متحرک زبان کے طور پر موجود ہے اور جب تک اسلام کے مختلف احکام و قوانین کی تشریح میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوہ و سیرت تک مسلمانوں کو رسائی حاصل ہے، مسلمانوں سے اس بات کی توقع کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو گا کہ وہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے خلاف کوئی بات قبول کر لیں۔

طاقت کے بل پر کوئی بات مسلط کرنا اور بات ہے اور ذہنی طور پر تسلیم کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے، جس کا تجربہ گزشتہ پون صدی کے دوران وسطی ایشیا میں روس اور ترکی میں یورپ بخوبی کر چکا ہے۔ اور ان دو واضح تجربوں کے بعد بھی اگر امریکہ اس قسم کے کسی نئے تجربے میں اپنا وقت، صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع کرنا چاہتا ہے تو اس کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن اسے یہ بات ابھی سے نوٹ کر لینی چاہیے کہ اس سے صرف مسلمانوں کی دینی قیادت اور اسلامی روایات و اقدار کی پاسداری کرنے والے طبقات کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور انہیں امتحان کی ایک اور بھٹی سے گزرنا ہو گا، اس کے سوا نتائج میں اور کسی بات کے اضافے کی توقع امریکی قیادت کو نہیں کرنی چاہیے۔ جبکہ اس سونے کی آب و تاب یورپی اور روسی بھٹیوں سے نکل کر بدستور قائم ہے اور امریکی بھٹی سے گزرنے کے بعد بھی یقیناً اس کی چمک دمک میں اضافہ بھی ہو گا۔

دوسری بات جو صدر بش نے اہمیت کے ساتھ کی ہے، یہ ہے کہ انہیں ”اس پروگرام کے لیے ڈٹ جانے کا پیغام ستاروں سے بھی آگے سے ملا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ مسیحی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دنیا پر امریکہ کے تسلط کا یہ پروگرام ان کا اپنا نہیں، بلکہ ”خدائی پروگرام“ ہے، جس کے لیے انہیں منتخب کیا گیا ہے۔ یہ بات وہ اس سے قبل بھی افغانستان اور عراق پر فوج کشی کے موقع پر اس جنگ کو کروسیڈ (صلیبی جنگ) قرار دے کر کہہ چکے ہیں اور وہی بات اب انہوں نے ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ کہہ دی ہے۔ یہ بات سرسری یا جذباتی نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک طویل پس منظر ہے اور اس پس منظر کو سمجھنے کے لیے ہم اپنے قارئین کو ماضی کے اس دور کی طرف تھوڑی دیر کے لیے واپس لے جانا چاہیں گے، جب امریکہ میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ جاری تھی اور ہزاروں امریکی حریت پسند اسی طرح برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد میں مصروف تھے، جس طرح اب دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی تسلط سے آزادی کے لیے ہزاروں حریت پسند مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اور دہشت گرد اور فسادی کی جو اصطلاح امریکہ آج ان مسلح حریت پسندوں کے بارے میں استعمال کر رہا ہے، وہی اصطلاح برطانوی حکمران ان امریکی حریت پسندوں کے بارے میں استعمال کیا کرتے تھے۔

لاہور کے ایک اشاعتی ادارے ”مشعل بکس“ نے ایک مغربی مصنف ”کیرن آرم سٹرانگ“ کی کتاب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی مذہبی شدت پسندی کا تاریخی جائزہ اپنے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے امریکہ کی جنگ آزادی میں کارفرما مذہبی رجحانات کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ کی آزادی اور پھر اس کے مستقبل کے بارے میں جنگ آزادی لڑنے والوں کے جذبات و احساسات کیا تھے۔ اس کتاب سے دو اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا، جن سے امریکہ کی حکمران پارٹی ”ری پبلکن پارٹی“ کے فکری پس منظر کی ایک جھلک بھی سامنے آ جائے گی اور ری پبلکن پارٹی کے لیڈر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے عزائم کو سمجھنا بھی آسان ہو جائے گا۔

کیرن آرم سٹرانگ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ

”امریکی تحریک آزادی کے دور میں یہ اوینجلائی اصلاحی تحریکیں مثبت اور جدیدیت پسند تھیں، ہر فرد کی اہمیت اور احترام پر زور دیا جاتا اور وہ ایسی مساوات زور و شور سے پھیلاتیں جو شمال میں تو غلامی کا خاتمہ کرنے میں مدد دیتیں، مگر جنوب میں اسے ویسا ہی رہنے دیتیں۔ جنوب کو دوسری بیداری نے بھی نہیں چھیڑا تھا، اس لیے اس نے اپنا جدیدیت سے پہلے کا سماجی ڈھانچہ خانہ جنگی کے بہت بعد تک قائم رکھا۔ اصلاحی تحریکوں کے ذریعہ لوگوں کے انسانی حقوق کے جدید تصور کو عیسائی پیکج میں شامل کر دیا۔ کم از کم شمال میں تو یہی ہوا۔ نسوانی، تعزیری اور تعلیمی اصلاحات کی تحریکیں بھی ترقی پسند تھیں اور ان کی رہنمائی اوینجلائی مسیحی کر رہے تھے۔ اصلاحی گروپ لوگوں کو جدید تصورات اپنانے کی ترغیب دیتے، ان کے اراکین رضا کارانہ طور پر کسی ایسوسی ایشن میں شامل ہو جاتے، تنظیم اور منصوبہ بندی کی تربیت حاصل کرتے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ریشنل طریقے بروئے کار لاتے ہوئے آخر کار ”اوینجلائی مسیحی“ ہی WHIG PARTY کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے، جس کی جانشین ری پبلکن پارٹی تھی۔ جبکہ ان کے مخالف اولڈ لائٹ اور کیتھولک بھی ری پبلکن پارٹی کے حامی بن گئے۔ وہ امریکہ میں نیک اور راحت باز حکومت قائم کرنا چاہتے تھے، جس کی بنیاد روشن خیالی کی بجائے خدائی اصولوں پر ہو۔“

جبکہ اسی کتاب میں ایک اور جگہ پر مسٹر کیرن آرم سٹرانگ لکھتے ہیں کہ

”جب انقلابی رہنما آزادی کی بات کرتے تو وہ ایسی تراکیب استعمال کرتے جو پہلے ہی مذہب کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ خدا کے کلام اور اس کے بچوں کی آزادی، خدا کی حکومت جس میں جبر اور ظلم کا خاتمہ ہو گا اور وہ برگزیدہ لوگ جو دنیا کو بدلنے میں خدا کے نمائندوں کا کردار ادا کریں گے۔ ٹموتھی ڈوائٹ YALE (1617-1652) یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ نے انقلاب کا ذکر بڑے جوش و خروش سے کیا کہ انقلاب ایسی سرزمین میں واقع ہوا ہے جو خدا کی ملکیت ہے اور یہ کہ خدا کی نئی حکومت میں امریکہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی اور اس کا نظام خدا رسیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ 1775ء میں پادری رپنز بالڈون نے کہا کہ جنگ کی آفات خدا کی طرف سے ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کے منصوبے کا حصہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام اپنی سنہری حکومت امریکہ میں قائم کریں گے۔ “

اس لیے اگر صدر جارج ڈبلیو بش اپنے پروگرام اور عزائم کو ”ستاروں سے بھی آگے سے ملنے والے پیغام“ سے نتھی کرتے ہیں اور اپنی جنگ کو ”کروسیڈ“ قرار دیتے ہیں تو یہ محض اتفاقی بات نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے اوینجلائی مسیحی گروپ اور ری پبلکن پارٹی کا تاریخی پس منظر کارفرما ہے اور ”خدا کی حکومت میں امریکہ کے مرکزی مقام“ کا تصور جھلک رہا ہے۔ مگر یہ بات مسلم دنیا کے ان حکمرانوں اور دانشوروں کے کانوں میں کون اتارے گا جو صدر بش کو انسانیت کا نجات دہندہ اور امریکہ کو آزادی کا علمبردار قرار دیتے ہوئے اپنا سب کچھ اس کے قدموں پر نچھاور کر دینے کے لیے گردنیں جھکائے قربان گاہ کی قطار میں اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter