وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ۱۵ مئی ۲۰۰۵ کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ملک گیر ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ منعقد کیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس کے مہتممین، اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی شرکت کی۔ کنونشن کا عنوان گذشتہ دو سالوں کے دوران میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات میں اول، دوم اور سوم پوزیشن پر آنے والے طلبہ اور طالبات میں انعامات کی تقسیم تھا جو صدر وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے ہاتھوں تقسیم ہوئے، مگر اپنے شرکا اور خطابات کے حوالے سے یہ کنونشن ملک کے دینی مدارس کے موقف، پالیسی اور کردار کے حوالے سے ایک بھرپور اجتماع تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار حضرات کی شرکت نے اسے قومی کنونشن کی حیثیت دے دی۔
حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب محمد اعجاز الحق نے کنونشن سے خطاب کیا اور دینی مدارس کی تعلیمی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے بعض اہم اعلانات بھی کیے جن میں جناب محمد اعجاز الحق کا یہ اعلان بطور خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت نے سرکاری خرچ سے ماڈل دینی مدارس قائم کرنے کی جو اسکیم شروع کی تھی، وہ ناکام ہو گئی ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صرف تین مدارس کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دینی مدارس کے نصاب ونظام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور صرف عصری تقاضوں کے ساتھ ان کے نصاب ونظام کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ان سے تعاون کرنا چاہتی ہے، اس لیے مدارس کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ان کے معاملات میں کوئی سرکاری مداخلت نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ کے قائد چودھری شجاعت حسین صاحب نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ جناب قاضی حسین احمد نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت کی دینی مدارس اور ان کے نظام کے حوالے سے پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اعلان کیا کہ دینی مدارس کی آزادی کو برقرار رکھا جائے گا اور کسی بھی بہانے ان کے نظام میں سرکاری مداخلت یا اثر ورسوخ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان راہ نماؤں نے معاشرے میں دینی مدارس کی دینی وتعلیمی خدمات کو سراہا اور کہا کہ اس وقت مسلم معاشرے میں عام مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس ہیں جس کی وجہ سے عالمی استعمار ان کے آزادانہ نظام کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے، لیکن پاکستان کی دینی قوتیں ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
ممتاز دانش ور جنرل (ر) حمید گل نے اپنے خطاب میں دینی مدارس کی اہمیت کا ذکر کیا اور عالمی استعمار کی ان سازشوں پر روشنی ڈالی جو دینی مدارس کو ان کے اس کردار سے محروم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ سے کہا کہ وہ حوصلہ اور استقامت کے ساتھ اس دباؤ کا مقابلہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ بالآخر کامیابی انھی کے مقدر میں ہوگی۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے وفاق المدارس کی خدمات اور تاریخ کے مختلف پہلووں سے حاضرین کو آگاہ کیا اور دینی مدارس کے آزادانہ کردار اور دینی وتعلیمی جدوجہد کے تحفظ کے لیے وفاق کی جدوجہد اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات بیان کیں۔ انھوں نے بتایا کہ وفاق نے دوسرے مکاتب فکر کے دینی مدارس کی تنظیموں کو ساتھ ملا کر ملک گیر ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ قائم کیا اور سب وفاقوں کے اتحاد کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب ونظام میں سرکاری مداخلت اور کنٹرول کے پروگرام کو ناکام بنایا۔
انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت ایک طرف دینی مدارس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا بار بار اعلان کرتی ہے اور دوسری طرف حال ہی میں سرکاری سطح پر دینی مدارس کے لیے ایک بورڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جو حکومت کے اعلانات اور یقین دہانیوں کے منافی ہے۔ انھوں نے وفاق کی قیادت کی طرف سے اس امر کا دوٹوک اعلان کیا کہ دینی مدارس کے نظام ونصاب کے حوالے سے کسی بھی سرکاری بورڈ کو قبول نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی سطح پر سرکاری مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا خطاب ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے دینی مدارس کے مقصد قیام کی وضاحت کی اور بتایا کہ ان دینی مدارس کا قیام معاشرے میں دینی راہ نمائی فراہم کرنے اور مسجد ومدرسہ کا نظام باقی رکھنے کے لیے رجال کار کی فراہمی کی غرض سے عمل میں آیا تھا اور دینی مدارس اپنا یہ کام خیر وخوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس سے کوئی اور تقاضا کرنا، نا انصافی کی بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ دینی مدارس سے ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان اور وکیل کیوں پیدا نہیں ہو رہے، بالکل اسی طرح کا سوال ہے کہ میڈیکل کالج سے انجینئر کیوں نہیں نکل رہے، لا کالج سے ڈاکٹر کیوں پیدا نہیں ہو رہے، انجینئرنگ کالج سے وکیل کیوں نہیں نکل رہے اور سائنس کالج میں دینی علوم کے ماہرین کیوں تیار نہیں ہو رہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کوتاہیوں سے پاک نہیں ہیں، اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اپنے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے ہر مفید تجویز کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن دینی مدارس کو ان کے مقصد قیام سے ہٹانے اور ان کے کردار کا رخ تبدیل کرنے کی کوئی بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔
راقم الحروف سے بھی کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا اور میں نے بطور خاص یہ گزارش کی کہ دینی مدارس کی مخالفت میں مغرب سب سے پیش پیش ہے، مگر مغرب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ مدرسہ خود اس کی بھی ضرورت ہے۔ دینی مدرسہ ہم مسلمانوں کی بنیادی ضرورت تو ہے ہی، مغرب کی بھی ضرورت ہے اور اگر مغرب تعصب اور عناد کی عینک اتار کر مدرسہ کے کردار کا جائزہ لے تو اسے مدرسہ کا شکر گزار ہونا چاہیے، اس لیے کہ مغرب نے دو صدیاں قبل آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے دست برداری کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کے منفی نتائج انسانی سوسائٹی میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور عقل ودانش کے اعلیٰ حلقوں میں یہ بات محسوس کی جانے لگی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہ نمائی کی طرف پھر سے واپس جانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ چھ ارب افراد پر مشتمل انسانی سوسائٹی امن وخوش حالی کے لیے کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے اور نئے نظام کے آپشنوں میں آسمانی تعلیمات کا آپشن بھی پھر سے دھیرے دھیرے ایجنڈے میں شامل ہو رہا ہے۔ گلوبل انسانی سوسائٹی کے مستقبل کے نظام کے لیے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی ہم مسلمانوں کے لیے تو واحد آپشن کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر باقی دنیا کے لیے بھی اسے ایک آپشن کی حیثیت ضرورت حاصل ہے۔ اب اگر انسانی سوسائٹی کسی وقت آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو آسمانی تعلیمات کا محفوظ اور مستند ذخیرہ صرف مسلمانوں کے پاس ملے گا۔ دنیا کی کسی اور قوم کے پاس وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا کوئی محفوظ ذخیرہ موجود نہیں ہے اور اگر دنیا نے آسمانی تعلیمات کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کیا اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا یقین ہے کہ دنیا کو بالآخر اسی فیصلے پر آنا ہوگا، اس وقت صرف یہ دینی مدارس ہوں گے جہاں سے دنیا کو آسمانی تعلیمات کا ذخیرہ محفوظ اور مکمل حالت میں موجود ملے گا، کیونکہ یہ دینی مدارس اس وقت آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے اسی ذخیرے کی حفاظت وترویج کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، اس لیے اس کنونشن کے حوالے سے میں مغرب کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ دینی مدرسہ کے کردار کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور جس چیز کی خود مغرب کو مستقبل میں ضرورت پیش آ سکتی ہے، اس کی حفاظت کرنے والے دینی مدرسہ کو ختم کرنے کی کوششوں کے بجائے اسے آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے دے۔
بہرحال ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے بہت کامیاب رہا جس پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وفاق کی قیادت اپنے کردار اور موقف کے بار ے میں اسی طرح قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر مزید حوصلہ اور عزم کے ساتھ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلاف کی دینی جدوجہد کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے سرگرم عمل رہے گی۔