اخبارات میں اعلان ہو چکا تھا کہ حضرت مولانا ہزاروی مدظلہ ۱۹ جنوری ۱۹۷۰ء کو بذریعہ کوئٹہ ایکسپریس گوجرانوالہ کے چار روزہ دورہ پر تشریف لا رہے ہیں۔ گاڑی کے وقت پر کافی تعداد میں جماعتی کارکن، کالج سٹوڈنٹس اور اخباری رپورٹرز اسٹیشن پر پہنچے۔ مگر مولانا مدظلہ کسی وجہ سے اس گاڑی پر نہ پہنچ سکے اور بعد میں تیزگام پر تشریف لائے۔ گاڑی سے اترتے ہی راقم الحروف اور سالارِ شہر خواجہ سیف الرحمٰن کی معیت میں قلعہ دیدار سنگھ روانہ ہو گئے۔
وہاں غلہ منڈی میں نماز ظہر کے بعد جلسہ تھا اور مقامی احباب نے بڑے ذوق و شوق سے جلسہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مرشدی و مولائی حضرت مولانا عبید اللہ انور مدظلہ العالی بھی ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ اور گوجرانوالہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب، حضرت مولانا احمد سعید صاحب، علامہ محمد احمد صاحب لدھیانوی بھی پہنچے ہوئے تھے۔ حضرت جانشین شیخ التفسیر مدظلہ نے جلسہ کی صدارت فرمائی اور الحمد للہ جلسہ بہت زیادہ کامیاب رہا۔
نماز عصر کے بعد حضرت مولانا ہزاروی مدظلہ، مفتی عبد الواحد صاحب، مولانا احمد سعید صاحب، علامہ محمد احمد صاحب لدھیانوی، سالار ضلع حافظ حبیب الرحمٰن صاحب، سالار شہر خواجہ سیف الرحمٰن اور راقم الحروف پر مشتمل قافلہ حافظ آباد روانہ ہوا۔ جمعیۃ کے ڈویژنل ناظم عمومی حضرت مولانا محمد الطاف صاحب حافظ آباد کی جامع مسجد قدیم کے خطیب اور باطل فرقوں خصوصاً مودودیت کے مقابلہ میں ننگی تلوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے رات کو کمیٹی باغ میں جلسۂ عام کا اعلان کیا ہوا تھا۔ پہلے تو خیال گزرا کہ سردی کی شدت اور اس پر بارش کی ہلکی ہلکی پھوار میں حافظ آباد کے شہری لحافوں سے باہر شاید نہ نکل سکیں، لیکن وہ انتہائی زندہ دل نکلے۔ غالباً مولانا محمد الطاف صاحب کی صحبت کا اثر تھا کہ ہلکی ہلکی بارش میں بھی حضرت مولانا ہزاروی نے کم و بیش دو گھنٹے تقریر کی۔ اس جلسہ کی صدارت جمعیۃ کے ضلعی نائب امیر اور مدرسہ انوار الاسلام علی پور چٹھہ کے مہتمم مولانا محمد اسحاق کھٹانہ نے کی۔
۲۰ کی صبح کو ۱۰ بجے حافظ آباد بار روم میں وکلاء سے خطاب کیا۔ وکلاء صاحبان نے خود دعوت دی تھی۔ انہوں نے ایک ہار بھی پیش کیا اور بڑی دلجمعی سے مولانا کی تقریر سنی اور اس کے بعد علی پور چٹھہ روانہ ہو گئے۔
مرکزی جامع مسجد میں نماز ظہر کے بعد ضلعی ناظم اعلیٰ مولانا احمد سعید صاحب کی زیر صدارت جلسہ ہوا۔ جلسہ سے فارغ ہو کر نماز عشاء سے قبل گکھڑ پہنچے۔
جامع مسجد بوہڑ والی میں امیر ضلع شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز مدظلہ کی صدارت میں جلسہ عام ہوا۔ حضرت مولانا ہزاروی اور امیر ضلع کے علاوہ راقم الحروف نے بھی حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا۔ صبح نماز فجر کے بعد مولانا ہزاروی نے درس بھی دیا۔
وہاں سے فارغ ہو کر ہم ۱۱ بجے سوہدرہ پہنچے۔ جامع مسجد بالمقابل چوکی پولیس مدرسہ میں مولوی محمد فاضل صاحب الٰہ آبادی کی زیرصدارت جلسہ ہوا۔ جلسہ میں مودودیوں کے بھی دو تین آدمی آئے ہوئے تھے، مولانا ہزاروی نے جب تقریر میں مودودی عقائد پر تنقید کا آغاز کیا تو ۔۔۔ بیک بینی و دو گوش محفل سے رخصت ہونا پڑا۔
وہاں سے فارغ ہو کر براستہ وزیر آباد گوجرانوالہ پہنچے اور کچھ دیر قیام کر کے واہنڈو روانہ ہو گئے۔ جمعیۃ کے ضلعی نائب امیر حضرت مولانا حکیم نذیر احمد صاحب واہنڈو کی زیرصدارت جلسہ ہوا جس میں مولانا ہزاروی، مولانا مفتی عبد الواحد اور ہمارے نوجوان مبلغ مولوی غلام کبریا فاروقی نے خطاب کیا۔ جلسہ سے فراغت کے فوراً بعد ہم گوجرانوالہ پہنچے۔
۲۲ جنوری کی صبح کو ۱۱ بجے محلہ رسول پورہ میں مقامی جمعیۃ کے دفتر کا افتتاح کیا اور کچھ افتتاحی تقریر بھی کی۔ بجنور سے آئے ہوئے مہاجرین نے رسول پورہ میں کافی رونق بنا رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ارادوں میں برکت دے۔
نماز ظہر کے بعد گوجرانوالہ شہر ہی کے ایک نواحی حصہ گرجاکھ میں احباب نے جلسہ کا اعلان کر رکھا تھا جو حضرت مولانا عبد الواحد صاحب کی زیرصدارت منعقد ہوا اور حضرت مولانا ہزاروی کے علاوہ مولانا احمد سعید صاحب نے بھی خطاب فرمایا۔ اس جلسہ کے ساتھ ہی حضرت مولانا ہزاروی مدظلہ کے چار روزہ طوفانی دورہ کا پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
گوجرانوالہ میں مولانا ہزاروی کا مختلف مقامات پر خطاب
حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نے ضلع گوجرانوالہ کے دورہ کے دوران مختلف مقامات پر پبلک جلسوں، وکلاء اور اخباری نمائندوں سے خطاب کیا۔ آپ کی مفصل تقاریر سے چیدہ چیدہ اقتباسات درج ذیل ہیں:
آپ نے فرمایا، جمعیۃ الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی تاکہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے، اور غیر اسلامی نظریات کی مؤثر روک تھام ممکن ہو۔ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں دستور بنانے کے اہل افراد کو زیادہ سے زیادہ اسمبلی میں بھیجنے کے لیے انتہائی کوشش کریں گے۔
آپ نے کہا، مروجہ طریق میں یہ خطرہ ہے کہ سرمایہ، دھونس، غنڈہ گردی اور اس قسم کے دیگر ذرائع سے امیدوار الیکشن پر اثرانداز ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں بھی اس بات کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ اس طریقہ انتخاب میں بے شمار ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً چار امیدواروں میں سے جیتنے والے نے دس ہزار، دوسرے نے سات ہزار، تیسرے نے پانچ ہزار، اور چوتھے نے چار ہزار ووٹ لیے ہیں، تو جیتنے والا اپنے حلقہ کے ووٹروں کی اکثریت کا نہیں بلکہ اقلیت کا نمائندہ ہو گا، کیونکہ چھبیس ہزار ووٹوں میں سے سولہ ہزار اس کے خلاف پڑے ہیں۔
اس لیے جمعیۃ نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن پارٹی سسٹم کی بنیاد پر کرائے جائیں اور افراد کی بجائے جماعتوں کو ووٹ دینے کا طریقہ رائج کیا جائے۔ اس میں سرمایہ، دھونس وغیرہ کے استعمال کا خطرہ بھی کم ہے اور ووٹ بھی ایک نہیں ضائع ہو گا۔ اور جس پارٹی کو ملک بھر میں صرف ایک فیصدی ووٹ ملا ہے، اسے بھی اسمبلی میں ایک فیصدی نشست مل جائے گی۔ ہم اس مطالبہ کو پیش کرنے کے لیے عنقریب ایک وفد کی صورت میں صدر یحیٰی خان سے ملاقات کریں گے، لیکن اگر مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو بھی ہم الیکشن میں ضرور حصہ لیں گے۔ مگر ایسا قانون ضرور نافذ ہونا چاہیے جس کے ذریعہ الیکشن میں سرمایہ کے استعمال کی روک تھام ہو۔
آپ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مودودی پارٹی کے جلسہ میں ہنگامہ پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ یہ واقعہ مودودیوں کی اشتعال انگیز حرکات کا نتیجہ اور صادق آباد اور ڈسکہ کے واقعات کی صدائے بازگشت ہے۔ یہ ’’زبان گدی سے کھینچ لو‘‘، ’’نکلو‘‘، ’’مریں گے یا ماریں گے‘‘، ’’انڈونیشیا بنا دیں گے‘‘ قسم کے نعرے ملک میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کے مترادف ہیں، اور اگر مودودی پارٹی نے اس قسم کی نعرہ بازی جاری رکھی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنے راستہ میں خود کانٹے بو رہی ہے۔ بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ ڈھاکہ کے ہنگامہ میں خود مودودی صاحب کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔
آپ نے کہا کہ ہم اسلامی آئین کے سوا کوئی دستور قبول نہیں کریں گے، اور دستور ساز اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا بڑا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلامی آئین بنانے کے اہل آگے آ سکیں۔ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں کہ چار ماہ میں آئین کی تیاری ناممکن ہے۔ یہ لوگ دراصل دستور بنانے اور عوام کو اقتدار جلد منتقل کرنے ہی کے حق میں نہیں ہیں۔
حافظ آباد بار روم میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا، آپ لوگوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ آپ دانشور ہیں اور اسلامی نظام کی راہ ہموار کرنا اور اسلامی علوم کو اجتماعی زندگی کی بنیاد بنانے کی جدوجہد کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ دینی علوم کو ختم کرنے کی فرنگی سازش کو علماء نے ناکام بنا دیا ہے اور علومِ دینی کو پوری طرح حفاظت کے ساتھ آپ تک پہنچا دیا ہے۔ اب آپ حضرات کا فرض ہے کہ ان علوم کو حیطۂ عمل میں لائیں۔
آپ نے کہا، تحریکِ پاکستان میں اور ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد میں طلبہ نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ انہیں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔ جبکہ شرعی طور پر ۱۵ سال کا لڑکا بالغ سمجھا جاتا ہے اور ۱۸ سال کے نوجوان کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔
آپ نے کہا، ہم ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور ہمارا منشور وضاحت کے ساتھ قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ جو پارٹی بھی ہمارے منشور سے اتفاق کرے گی ہم اس سے اتحاد کے لیے تیار ہیں۔
آپ نے مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ایک زمانہ میں سفید چینی ایک روپیہ کی چار سیر ہم نے خریدی ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں شوگر ملیں نہ تھیں۔ آج جبکہ ملیں لگ چکی ہیں چینی ۲ روپے سیر ہے۔ اسی طرح جب کارخانے کم تھے ۱۶۰۰۰ کا لٹھا ہم نے چار آنے گز خریدا ہے، جو آج کل تین چار روپے گز ملتا ہے۔ اور ظلم کی بات یہ ہے کہ یہی پاکستانی کپڑا جو پاکستان میں اڑھائی روپے گز ملتا ہے ہم نے جدہ میں بارہ آنے گز بکتے دیکھا ہے۔
آپ نے کہا، مودودیوں نے ہمیں سوشلسٹ قرار دینے کی مہم چلا رکھی ہے اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب ’’ہمارے سیاسی و اقتصادی مقاصد‘‘ میں زمین کاشتکار کی اور کارخانہ کاریگر کا قرار دیا ہے۔ اب بتاؤ چوہدری محمد علی کے بارے میں تمہارا کیا فتویٰ ہے؟