بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوہ فیکلٹی کے طلبہ کی دعوت پر نیو کیمپس کے امام ابوحنیفہؒ ہال میں ۲۵ نومبر کو ایک سیمینار میں شرکت موقع ملا جس کا موضوع ’’اسلام اور سائنس‘‘ تھا۔ فیکلٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر احمد جان نے اس کی صدارت کی اور دیگر فاضل مقررین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اسلام اور سائنس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر آپ حضرات نے فاضل مقررین کے ارشادات سماعت فرمائے ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو کے بیسیوں دائرے ہیں، ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا اسلام اور سائنس آپس میں متصادم ہیں؟ اس لیے کہ عام طور پر یہ بات دنیا میں کہی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کے درمیان بُعد اور منافاۃ ہے۔ میں آج کی گفتگو میں اس سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے اس بات پر غور فرمائیں کہ مذہب اور سائنس کے باہم مخالف اور متصادم ہونے کا جو تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے اس کے بڑے اسباب دو ہیں۔ ایک نظری اور اصولی ہے جبکہ دوسرا سبب تاریخی اور واقعاتی ہے۔
اصولی پہلو یہ ہے کہ سائنس کائنات کی اشیا پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے، ان سے فائدہ اٹھانے اور تجربات کے ذریعہ انہیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کا نام ہے، اور سائنس اسی دائرہ میں ہر دور میں متحرک رہی ہے۔ جب تک کائنات کی بیشتر اشیا تجربات و مشاہدات کے دائرے میں نہیں آئی تھیں، ان پر غور و فکر کا سب سے بڑا ذریعہ عقلیات کا ہوتا تھا، اس لیے سائنس بھی معقولات کا ایک شعبہ اور فلسفے کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ خود ہمارے ہاں درس نظامی میں فلکیات کو معقولات کے مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا لیکن جب کائنات کی متعدد اشیا انسان کے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کے دائرہ میں شامل ہونے لگیں تو سائنس کو معقولات اور فلسفہ سے الگ ایک مستقل مضمون کا درجہ حاصل ہوگیا اور فلسفہ اور سائنس کا رخ الگ الگ سمتوں کی طرف ہوگیا۔ اسی طرح سائنس اس دور میں تجربات و مشاہدات کے بغیر محض معقولات کا حصہ سمجھی جاتی تھی اور آسمانی تعلیمات اور فلسفہ و معقولات کے درمیان مسلسل کشمکش رہتی تھی۔ خاص طور پر اس تناظر میں یہ بحث زیادہ شدت اختیار کر جاتی تھی کہ وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے اور ان میں سے کس کو فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے؟ یہ دور عقل اور وحی کے درمیان کشمکش کا دور تھا جو آج بھی جاری ہے۔ چونکہ سائنس معقولات کے دائرہ کی چیز تھی اس لیے سائنس کو بھی مذہب سے الگ بلکہ اس سے متصادم تصور کیا جاتا تھا، لیکن جب سے عملی تجربات، مشاہدات اور تحقیقات کے ذریعہ سائنس کا دائرہ فلسفہ سے الگ ہوا ہے صورت حال بالکل مختلف ہوگئی ہے۔
ایک اور بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے اور سائنس بھی انہی حقائق و اشیا پر تجربات کرتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں دونوں میں باہمی تقسیم کار کا ماحول سا بن گیا ہے۔ مثلاً انسانی جسم جو کہ میڈیکل سائنس کا موضوع ہے اور وہی وحی الٰہی کا موضوع بھی ہے۔ میڈیکل سائنس اس سوال کا جائزہ لیتی ہے کہ انسانی باڈی کی ماہیت کیا ہے، اس کے اعضا کا آپس میں جوڑ کیا ہے، ان کا نیٹ ورک کیا ہے، میکنزم کیا ہے اور یہ کس طرح صحیح کام کرتے ہیں؟ جبکہ وحی الٰہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی وجود کس نے بنایا ہے اور اس کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ میں سائنس دانوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ ہمارا دائرہ کار ہی الگ الگ ہے۔ انسانی باڈی کے بارے میں دو سوالوں پر آپ بحث کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی ماہیت اور نیٹ ورک کیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے صحیح کام کرتی ہے ، اور خرابی پیدا ہوجائے تو اسے صحیح کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ہمارا یعنی وحی الٰہی کی بات کرنے والوں کا موضوع اس سے الگ دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو بنایا کس نے ہے اور دوسرا یہ کہ کس مقصد کے لیے بنایا ہے؟
کسی بھی چیز کے مکمل تعارف کے لیے چار سوال ضروری ہوتے ہیں۔ (۱) یہ کیا ہے؟ (۲) یہ کیسے کام کرتی ہے؟ (۳) یہ کس نے بنائی ہے؟ اور (۴) کس مقصد کے لیے بنائی ہے؟ پہلے دو سوال سائنس کا موضوع ہیں جبکہ دوسرے دو سوال مذہب کا موضوع ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان کوئی اختلاف اور تنازعہ نہیں ہے۔
مذہب اور سائنس کے درمیان اختلاف اور تنازعہ کے عوامی تاثر کی دوسری وجہ تاریخی اور واقعاتی ہے۔ وہ یہ کہ جس دور میں یورپ میں سائنسی تجربات کا کام شروع ہوا اور سائنس دانوں نے کائنات کی متعدد اشیا پر عقلی بحثوں سے آگے بڑھ کر عملی تجربات اور مشاہدات کا آغاز کیا اس وقت یورپ میں مسیحی مذہب کی فرمانروائی تھی اور ریاست و حکومت میں مذہبی قیادت کو فیصلہ کن درجہ حاصل تھا۔ مسیحیت کی اس دور کی مذہبی قیادت نے ان سائنسی تجربات و مشاہدات کو مذہب سے متصادم قرار دے کر ان کی مخالفت کی اور سائنسی تجربات پر الحاد اور ارتداد کا فتویٰ لگا کر ایسا کرنے والوں کو سزائیں دینا شروع کر دیں۔ اس کا سلسلہ بہت طویل اور افسوسناک رہا ہے جس سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ مذہب سائنس کا مخالف ہے اور مذہبی تعلیمات میں سائنسی تجربات و مشاہدات کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیا گیا کہ مسیحیت کی پاپائی تعبیر کی طرح اسلام بھی سائنس کا مخالف ہے۔ حالانکہ اسلام نے سائنس اور سائنسی تجربات کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر کائنات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے ان میں سے ایک کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ سورۃ آل عمران کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور شب و روز کے اختلاف میں ارباب دانش (اولوالالباب) کے لیے آیات اور نشانیاں ہیں اور ارباب فکر و دانش ’’یتفکرون فی خلق السماوات والارض‘‘ آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں، البتہ اس غور و فکر کا ہدف ’’مقصدیت‘‘ کو قرار دیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’ربنا ما خلقت ھذا باطلاً‘‘ اے ہمارے رب! تو نے اسے بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
اسلام نے کائنات کے نظام پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس غور و فکر یعنی سائنسی مشاہدات و تجربات کی اصل بنیادیں مسلمانوں نے ہی فراہم کی ہیں جن پر آج پوری سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ اس لیے اسلام کو مسیحیت کے اس دور پر قیاس کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہنا قطعی طور پر خلاف حقیقت ہے کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سائنس ہماری مخالف نہیں بلکہ معاون اور مؤید ہے کہ قرآن و حدیث کے بیان کردہ بہت سے حقائق کو سائنس نے عمل و تجربہ کے ساتھ ثابت کیا ہے جس سے قرآن و حدیث کی صداقت مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس کے بیسیوں پہلو ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی مختصر گفتگو میں ان میں سے دو تین کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
قرآن کریم نے قیامت کے دن اعمال کے وزن کی بات کی ہے کہ انسان کے اعمال و اقوال کا وزن کیا جائے گا۔ اس پر اعتراض کیا گیا بلکہ اس کی تعبیر و تشریح میں اہل سنت اور معتزلہ وغیرہ کے مابین ایک عرصہ تک اختلاف رہا کہ قول اور عمل تولنے کی چیز نہیں ہے، اس لیے کہ قول اور عمل صادر ہونے کے بعد معدوم ہو جاتے ہیں، چنانچہ بات اور عمل کا وزن نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کیا جائے گا۔ مگر سائنس نے قول اور عمل دونوں کو محفوظ کر کے بلکہ ان کی مقدار کا تعین کر کے اس اعتراض کو ختم کر دیا اور قرآن کریم نے اعمال کے وزن کی جو بات کی ہے اسے صحیح ثابت کر دیا۔
دوسری مثال یہ عرض کروں گا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں حمل قرار پاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے جو ہر چالیس روز کے بعد رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اب یہ کس کیفیت میں ہے۔ اور جب تین چلے پورے ہو کر اس میں روح ڈالنے کا وقت آتا ہے تو فرشتہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ ’’ما أجلہ‘‘ اس کی عمر کتنی ہوگی؟ ’’ما کسبہ‘‘ اس کا کسب و عمل کیا ہوگا؟ ’’ما رزقہ‘‘ اس کے رزق کا کوٹہ کتنا ہوگا؟ اور ’’اشقی ام سعید‘‘ یہ نیک بختی یا بدبختی میں سے کس کھاتے میں شمار ہوگا، وغیر ذلک۔یہ سوال و جواب مکمل کرنے کے بعد اسے روح کا کنکشن دے دیا جاتا ہے۔ میں جب اس حدیث مبارکہ کو پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں سائنس کے بیان کردہ جین (Gene) کا تصور آجاتا ہے کہ جس جین کی بات سائنس دان کرتے ہیں کہیں یہ وہی فائل تو نہیں جو فرشتہ انسان کے جسم میں روح ڈالے جانے سے پہلے مکمل کر کے سیل کر دیتا ہے؟
ایک اور مثال بھی دیکھ لیں کہ بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان مرنے کے بعد جب قبر میں جاتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے جسم کا ہر عضو بوسیدہ ہو کر خاک ہو جاتا ہے۔ ’’اِلاعجب ذنبہ فیہا یرکب‘‘ مگر اس کی دُمچی کا مہرہ فنا نہیں ہوتا وہ باقی رہتا ہے اور اسی سے اس کی دوبارہ تشکیل و ترتیب ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آج کی سائنس جس کلون (Clone) کی بات کرتی ہے اور جس پر کلوننگ کے ایک مستقل کام کی بنیاد رکھی گئی ہے غالباً وہی عجب ذنبہ یعنی دُمچی کا مہرہ ہے جو انسان کی دوبارہ تخلیق کی بنیاد بنے گا۔ اور وہ پہلے سے الگ وجود نہیں ہوگا بلکہ اسی کی نشاۃ ثانیہ ہوگی۔
ایک اور مثال بھی سامنے رکھ لیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ایک مجرم کو سزا دیے جانے کا ذکر کیا اور اس کا جرم یہ بتایا کہ وہ جھوٹ گھڑتا تھا اور ’’یبلغ بہ الأفاق‘‘ اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دیتا تھا۔ یہ جھوٹ گھڑنے والی بات سمجھ میں آتی تھی لیکن اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات آج سے ڈیڑھ صدی قبل سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔ مگر سائنس نے اسے بھی حقیقت ثابت کر دیا ہے کہ سچ ہو یا جھوٹ کسی بات کو آناً فاناً دنیا کے مختلف کناروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
حضرات محترم! میں نے چند ارشادات آپ کے سامنے اس حوالہ سے کیے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ اسلام سائنسی تحقیقات کی دعوت دیتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جبکہ سائنس وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کی تائید کرتی ہے اور مسلسل کرتی جا رہی ہے۔ اس لیے سائنس کے علم سے جہاں انسانی سوسائٹی کو نت نئی سہولتیں اور فوائد حاصل ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ، اسی طرح یہ آسمانی تعلیمات کی مؤید اور معاون بھی ہے۔ البتہ اسے محض معروضیت کے دائرہ میں رکھنے کی بجائے ’’مقصدیت‘‘ کا پہلو بھی اس کے حوالہ سے اجاگر کرنا ہوگا اور یہی اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام علوم و فنون سے صحیح استفادے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔