(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کی تلخیص۔ قسط ۸)
(۵) وہ معاملہ جس میں دھوکا اور فریب مضمر ہو۔ مثلاً ایک شے کی خرید یا فروخت منظور ہے مگر خاص غرض کے ماتحت معاملہ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا اور ایک دوسری شے کے ضمن میں اس کو لے لیا گیا ہے۔ اس طرح اگر ضمنی شے جو بہت ناقص ہے یا سب سے بہتر ہے اس معاملہ کے اندر شامل ہو گئی تو معاملہ کر لیا، ورنہ معاملہ کی تمام شرائط مکمل ہو جانے کے بعد معاملہ سے انکار کر دیا۔
اسلام کے اقتصادی نظام میں ایسے تمام تجارتی کاروبار کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جن میں یا قمار کی صورت بن جاتی ہو یا سود۔ اور اگر یہ دونوں امور نہ ہوں تو پھر وہ نزاع اور مناقشہ کی شکلیں پیدا کرنے کا باعث اور سبب بنتے ہوں۔ جن سے تعاونِ باہمی اور ہر دو جانب میں جائز نفع کا فقدان لازم آتا ہو، اور بے جا نفع خوری کے لیے راہیں پیدا ہوتی ہوں۔
تجارت و صنعت کے عملی وسائل
مادی ترقی کے اس دور میں تجارت و صنعت کی ترقی و کامیابی میں دو چیزوں کا بہت دخل ہے: (۱) شرح تبادلہ (۲) محصولات درآمد و برآمد۔
اسلامی اقتصادی نظام کے دورِ اول میں پہلی چیز کا وجود نہیں تھا، اس لیے کہ اس زمانہ کی تجارت بیشتر اشیاء کے بدلہ میں اشیاء ہی کے ذریعہ ہوا کرتی تھی، اور کہیں کہیں ٹکسالی سکہ اور چاندی سونے کی غیر مسلوک ڈلیوں کے ذریعہ بھی لین دین ہو جایا کرتا تھا۔ اس لیے تبادلۂ سکہ جات کے جو اثرات آج کل کی تجارت پر پڑتے ہیں اور اقتصادی فلاح و بہبود یا تباہی و بربادی لاتے ہیں، اس زمانہ میں اس کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
البتہ دوسری چیز یعنی درآمد و برآمد پر محصول اس زمانہ میں بھی رائج تھا۔
ایک قومی و ملکی حکومت اپنا فرض سمجھتی ہے کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی تجارتی ترقی کے لیے شرح مبادلہ اور محصولات کو اس طرح قائم کرے جس سے نقصان کی بجائے فائدہ، اور ناکامی کی جگہ کامیابی کے ساتھ مالا مال ہو جائے۔ چاہے دوسرے ممالک کو اور دوسری اقوام کو اس کی وجہ سے کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ لیکن چونکہ اسلام عالمگیر پیغام ہے اور وہ اخوتِ عالم کا سب سے بڑا علمبردار ہے، اس لیے اس معاملہ میں وہ ایسے ترجیحی سلوک کا قائل نہیں ہے۔ اس نے فطری تقاضا کے مطابق یہی فیصلہ دیا ہے کہ ’’تجارت‘‘ معاشی ذرائع میں سے ایک بہترین ذریعہ ہے، لہٰذا اس کو اپنے اور پرائے کا فرق کیے بغیر ٹیکسوں اور محاصل سے معاف رکھا جائے۔ اسلام کے معاشی نظام نے تجارت کے بارے میں یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ تجارت و صنعت اصولاً محاصل کی پابندی سے آزاد ہوں، ورنہ کم از کم سخت پابندیوں، سخت ڈیوٹیوں اور سخت محصولات سے آزاد ہونی چاہیے۔
دار الضرب یا ٹکسال
تجارتی کاروبار اور تمام قسم کے لین دین میں ’’سکہ‘‘ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ابتدائی دورِ تمدن میں چیزوں کا لین دین عموماً چیزوں ہی کے ذریعہ سے ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد سونا، چاندی، تانبہ قسم کی دھاتوں کے ٹکڑوں کے ذریعہ ہونے لگا۔ اور تیسرے دورِ ترقی میں ’’سکہ‘‘ نے ان دونوں کی جگہ لے لی۔ سکہ کے وجود میں آنے کے بعد ترقی کا ایک درجہ یہ آیا کہ دارالضرب کا مطبوعہ کاغذ ’’نوٹ‘‘ کے نام سے دھات کے سکہ کے قائم مقام ہو گیا۔ اور اب یہ بحث چھڑ گئی کہ کسی ملک کی اقتصادی ساکھ جب قائم رہ سکتی ہے کہ اس کے دارالضرب میں وہ دھات، جو سکہ کا معیاری قرار دی گئی ہے، اتنی مقدار میں موجود ہو جس مقدار میں نوٹ جاری کیے گئے ہیں۔ لیکن اس ترقی کے نتائج جس قدر تباہ کن ثابت ہوئے وہ آفتاب کی طرح روشن ہیں۔ کیونکہ یہ ایجادِ نو ایک ایسا حربہ ہے کہ محض محکوم اقوام کی اقتصادی حالت کو ہی برباد نہیں کر رہا بلکہ رقیب حکومتیں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے ان دو حربوں ہی سے کام لیتی رہتی ہیں جو شرح مبادلہ اور کاغذی سکہ کے نام سے مشہور ہیں۔
اس لیے اسلامی اقتصادی نظام ایسے ’’کاغذ‘‘ کو سند تو تسلیم کر سکتا ہے لیکن سکہ تسلیم نہیں کر سکتا، تاکہ کسی وقت بھی اس کاغذ کا مالک کاغذ کی اصل سے محروم نہ رہ جائے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں دارالضرب (ٹکسال) کو یہ حیثیت دی گئی ہے کہ چونکہ سکہ عوام کی کاروباری زندگی کی سہولت کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے اس کے دارالضرب کا مقصد نفع عوام ہے نہ کہ حکومت کا مخصوص شعبہ آمدنی۔ اس لیے اس کو صرف حکومت کے خزانہ ہی کے لیے مخصوص نہ ہونا چاہیے بلکہ عوام کو یہ سہولت ہونی چاہیے کہ اگر وہ اپنی مملوکہ دھات سے مروجہ سکہ کو مسکوک کرانا چاہیں تو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ نیز شرح مبادلہ ’’امام‘‘ اور اس کی ’’مجلس شوریٰ‘‘ کی رائے پر موقوف ہے کہ وہ عام اقتصادی ترقی کے لیے جو صورت بھی مفید سمجھیں اختیار کریں۔
تجارتی بد عنوانیوں کا انسداد
اسلام کا اقتصادی نظام ان تمام بدعنوانیوں کا سدباب کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے جو درحقیقت اقتصادی نظام کے مقصدِ نفع اور نصب العین کو تباہ و برباد کرنے کا باعث بنتی ہیں، اور تجارت کے نام سے عام بدحالی اور قابلِ نفرت سرمایہ داری کو فروغ دیتی ہیں۔ اقتصادی نظام کو برباد کرنے اور اس کو کھوکھلا بنانے میں بدعنوانیوں کی جس قدر بھی تفصیلات اور جزئیات ہو سکتی ہیں وہ صرف دو بنیادوں پر قائم ہیں۔ اسلام نے اپنی اصطلاح میں ان کو دو خصوصی نام سے موسوم کیا ہے: (۱) احتکار (۲) اکتناز۔
احتکار سے مراد یہ ہے کہ دولت سمٹ کر کسی ایک ہی طبقہ میں محصور ہو جائے۔ اور اکتناز کے معنی یہ ہیں کہ دولت کے عظیم الشان خزانے افراد کے پاس جمع ہو جائیں اور ان کے پھیلاؤ اور تقسیم کی کوئی راہ باقی نہ رہے۔ اسلام نہ اِس کو منظور کرتا ہے اور نہ اُس کو۔ وہ ہر معاشی و اقتصادی شعبہ میں ان دونوں کے خلاف قانون سازی کے ذریعہ جہاد کرتا اور ان دونوں ملعون راہوں کو بند کرتا ہے۔
فقہ میں احتکار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ’’غلہ‘‘ وغیرہ کو بہت بڑی مقدار میں اس لیے خرید لے کہ بازار گراں ہو جائے، اور پبلک میں اس چیز کی مانگ کا مرکز صرف وہی بن جائے اور پبلک اس کے مقررہ نرخ پر مجبور ہو جائے۔ احتکار کی دوسری جزئی ’’قمار‘‘ ہے۔ اس سے ہماری مراد صرف ’’جوئے‘‘ کی وہ عام شکل ہی نہیں ہے جو نقد کے ذریعہ کھیلا جاتا ہے، بلکہ وہ تمام صورتیں اس میں شامل ہیں جو تجارت کے نام سے کی جاتی ہیں لیکن حقیقت میں قمار ہی کی قسمیں کہلاتی ہیں، یا ان کی تہ میں مالی ترقی کا وہی جذبہ کارفرما ہے جو ’’قمار‘‘ میں پایا جاتا ہے۔
سود
احتکار کی سب سے ملعون قسم ’’سودی لین دین‘‘ ہے۔ جس اقتصادی نظام میں اس کا مکمل دخل ہے وہ یکسر تباہ و برباد ہے۔ یہ کروڑوں انسانوں کو مفلس و محتاج بنا کر ایک مخصوص طبقہ میں دولت کو سمیٹتا اور ان کو اس کا واحد اجارہ دار بنا دیتا ہے۔
بینک
ان تمام جزئیات میں سے جن کو اسلامی شریعت نے سود میں داخل کیا ہے، اہم اور موجودہ دورِ ترقی میں شائع و ذائع جزئی ’’بینک کا قیام‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی بڑی تجارتوں کی آسانی، دولت و ثروت کے ذخیروں کی حفاظت، اور ان سے مزید زرکشی کے لیے اس ترقی یافتہ زمانہ میں ’’بینکوں کا وجود‘‘ از بس ضروری ہے۔ لیکن اس خوشنما رنگ و روپ میں جو ’’مارِ سیاہ‘‘ پوشیدہ ہے اور اس کی ظاہر و نگبیں میں جو ’’زہر قاتل‘‘ مستور ہے۔