کراچی میں ایک ہفتہ گزار کر گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا ہوں۔ کراچی سمندر کے کنارے پر ہے، لیکن خود بھی انسانی آبادی کا ایک وسیع سمندر ہے۔ مجھے کراچی آتے جاتے تین عشروں سے زیادہ وقت گزر گیا ہے اور اس کے لیے بیسیوں بار کا جملہ بہت کم معلوم ہوتا ہے۔ پہلی بار ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفی کے بعد کراچی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس وقت میں جمعیۃ علمائے اسلام کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا اور مولانا محمد زکریاؒ میرے میزبان تھے، جو کراچی میں جمعیۃ کے سرگرم راہ نماؤں میں سے تھے، ایک مرحلہ میں کراچی جمعیۃ کے امیر رہے ہیں اور سندھ اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ پاکستان قومی اتحاد نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع کی تھی، البتہ قومی اتحاد کے انتخابی منشور کی وجہ سے ”تحریک نظام مصطفیٰ“ کا عنوان اختیار کر گئی تھی۔ مولانا محمد زکریاؒ کراچی میں اس تحریک کی قیادت کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کا یہ واقعہ اس تحریک کا تاریخی عنوان اختیار کر گیا تھا کہ ایک احتجاجی جلوس کو روکنے کے لیے فیڈرل سیکورٹی فورس کے کمانڈر نے روڈ پر سرخ لکیر کھینچ کر اعلان کیا کہ جو شخص اس ریڈ لائن سے آگے بڑھے گا، اس کو گولی مار دی جائے گی۔ مولانا محمد زکریاؒ اس جلوس کی قیادت کر رہے تھے، جبکہ فیڈرل سیکورٹی فورس کے متعدد سپاہی اپنے کمانڈر کے حکم کی تعمیل کے لیے سنگینیں تانے اور نشانہ باندھے مستعد کھڑے تھے۔ مولانا محمد زکریاؒ نے یہ منظر دیکھ کر اپنے قدم نہیں روکے، بلکہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ریڈ لائن عبور کر گئے۔ اردگرد کی فضا نعرۂ تکبیر سے گونج اٹھی اور فورس کے نوجوانوں کی تنی ہوئی رائفلوں نے سر جھکا لیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ اس تحریک کے دوران گکھڑ میں بھی پیش آیا، جب اسی طرح کے ایک احتجاجی جلوس کی قیادت والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کر رہے تھے۔ فیڈرل سیکورٹی فورس کے کمانڈر نے سڑک پر سرخ لائن لگائی اور کہا کہ جو شخص اس لائن سے آگے بڑھے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں میرے استاذ محترم قاری محمد انور صاحب اور حاجی سید ڈار مرحوم کے ہمراہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے سرخ لائن عبور کر گئے کہ ”مسنون عمر (۶۳ سال) پوری کر چکا ہوں اور شہادت کے لیے تیار ہوں۔“ فیڈرل سیکورٹی فورس کا کمانڈر اس منظر کی تاب نہ لا سکا اور رائفلوں کی طرح اس کی نظروں کا رخ بھی زمین کی طرف ہو گیا۔
مولانا محمد زکریاؒ کو اس جرأت رندانہ کے باعث بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس کے بعد وہ کراچی جمعیۃ کے امیر بننے کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ کراچی میں میرا پہلا مہمان خانہ فیڈرل بی ایریا میں ان کا مدرسہ انوار العلوم تھا، جہاں میں نے چند دن گزارے اور مختلف جماعتی سرگرمیوں میں شریک ہوا۔
اس کے بعد کراچی میں شیر شاہ کالونی کی مسجد طور سالہا سال تک میری آمدورفت کا مرکز رہی، جہاں مولانا عبد الرزاق عزیز خطیب تھے۔ وہ بھی جمعیۃ علمائے اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں سے تھے اور ان کے ساتھ سید عمران شاہ صاحب بھی وہاں ہمارے متحرک ساتھی تھے۔ مولانا عبد الرزاق عزیز کے ساتھ ان کی موٹر سائیکل پر میں کراچی کا کونا کونا گھوما ہوں اور جماعتی سرگرمیوں میں شرکت کی سعادت حاصل کی ہے۔ کوئٹہ میں مجھے یہ موقع حافظ حسین احمد صاحب کے ساتھ ملا ہے، حافظ صاحب کی موٹر سائیکل ہوتی تھی اور ان کے ساتھ میں کئی روز کوئٹہ کے بازاروں اور گلیوں میں گھومتا رہتا تھا۔ وہاں میری قیام گاہ بروری روڈ کا مدرسہ مطلع العلوم ہوتا تھا اور حضرت مولانا عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی ہمیں حاصل ہوتی تھی۔
جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مولانا عبد الرزاق عزیز اور حافظ حسین احمد صاحب کے ساتھ میرا مشترکہ ذوق اخبارات کے دفاتر کے چکر کاٹنا، جماعتی خبریں لگوانا اور ہم خیال صحافیوں کے ساتھ گپ شپ کرنا ہوتا تھا۔ حسنِ اتفاق سے یہ دونوں دوست میرے بعد باری باری جمعیۃ علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں۔ حافظ صاحب محترم تو ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اب ما شاء اللہ اونچی پرواز پر ہیں اور مولانا عبد الرزاق عزیز نیویارک کے علاقہ لانگ آئی لینڈ میں ایک اسلامک سینٹر میں خطیب و امام کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، جبکہ میری نیاز مندی دونوں کے ساتھ بحمد اللہ مسلسل قائم ہے، اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں، آمین۔
کراچی میں حسبِ معمول جامعہ اسلامیہ کلفٹن اور جامعہ انوار القرآن میں تخصص کی کلاسوں سے انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے تین چار روز تک مختلف نشستوں میں گفتگو چلتی رہی۔
زوار اکیڈمی میں دو روز تک خلافت کے نظام پر اصحابِ فکر کے سامنے معروضات پیش کیں، جس میں خلافت کا مقصد، شرعی حیثیت، تاریخی تسلسل، خلافت کے خاتمہ کے اسباب، موجودہ عالمی صورت حال، خلافت کے دوبارہ قیام کی ضرورت، امکانات، توقعات، رکاوٹوں اور قابلِ عمل طریق کار کے مختلف پہلوؤں پر طالب علمانہ نقطہ نظر پیش کر کے محترم ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن صاحب کی فرمائش کی تعمیل کا موقع مل گیا۔
سعید آباد میں ”دارالعلوم الصفہ“ میں حاضری اور اساتذہ و طلبہ کی مختلف نشستوں میں تعلیمی ضروریات پر گفتگو کی سعادت حاصل کی۔
ناظم آباد کے دارالعلوم معاذ بن جبلؓ میں حاضری ہوئی اور تعلیمی نظام کو دیکھنے کا موقع ملا۔
”اقرأ روضۃ الاطفال“ ملک بھر میں پھیلے ہوئے وسیع تعلیمی نیٹ ورک کی حیثیت سے معروف و مشہور ہے اور اس کی خدمات کا دائرہ مستقل گفتگو کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ہمارے شہید دوست مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ کی شبانہ روز محنتوں کا ثمرہ ہے۔ اس کے ایک مرکز میں حاضری ہوئی اور مولانا مفتی خالد محمود، مولانا مفتی مزمل حسین اور دیگر اساتذہ کے ساتھ مختلف تعلیمی مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات ہوا۔
مولانا شفیق احمد بستوی کے ادارہ جامعہ خدیجۃ الکبریٰؓ میں طالبات سے دینی تعلیم و تعلم میں خواتین کے مقام و کردار پر مختصر گفتگو کا موقع ملا۔
ملیر کینٹ میں ہمارے فاضل دوست مولانا عبد الجبار طاہر نے ایک مسجد میں مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کے شروع کردہ قرآنی عربی کے کورس کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر تقریب کا اہتمام کیا، جس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور محترم مفتی ابو لبابہ صاحب اور بزرگ دوست بریگیڈیر (ر) قاری فیوض الرحمٰن صاحب سے ملاقات بھی تازہ ہو گئی۔
ہمارے فاضل اور شہید دوست مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ کے شروع کردہ دو پروگراموں درس قرآن ڈاٹ کام اور لاثانیہ ریسٹورنٹ کے درس قرآن کریم کے تسلسل میں شرکت کا شرف حاصل ہوا اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی سعادت بھی مل گئی۔
مولانا مفتی محمد اسامہ کے شروع کردہ تعلیمی نظام کو دیکھنے اور طلبہ کی ایک نشست میں فہم قرآن کریم کی اہمیت پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا اور آخری روز جامعۃ الرشید میں حاضری اور ایک تعلیمی مشاورت میں شرکت کے علاوہ ”تخصص فی الصحافۃ“ کی کلاس کو دیکھنے اور طلبہ سے گفتگو کی سعادت حاصل کی۔
اس طرح جامعہ اسلامیہ کلفٹن کی دعوت پر کیا جانے والا یہ سفر مذکورہ بالا سرگرمیوں کے بعد جمعرات کی نماز عصر تک بحمد اللہ تعالیٰ مکمل ہو گیا۔ اس اجمال کی کچھ تفصیلات آئندہ چند کالموں میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔