۲۵ فروری ۲۰۲۳ء کو مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر کے افتتاح کے موقع پر فہمِ قرآن کے بنیادی تقاضوں سے متعلق گفتگو کی تھی، جسے برخوردار حافظ فضل اللہ راشدی نے محفوظ اور مرتب کیا ہے۔ ان کے شکریے کے ساتھ یہ تحریر نذر قارئین کی جا رہی ہے۔
حمد و صلاۃ کے بعد، سب سے پہلے تو میں دورۂ تفسیر القرآن الکریم کے لیے آنے والے طلباء کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس کارِ خیر کے آغاز پر مدرسہ انوارالعلوم کے مہتمم مولانا داؤد احمد صاحب سمیت ان کے رفقاء، اساتذہ اور منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ کار خیر مدرسہ انوار العلوم میں شروع ہوا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کا تسلسل قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میں دو تین تمہیدی باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ برصغیر میں ”دورۂ تفسیر قرآن کریم“ کا آغاز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا تھا۔ اس سے پہلے ہمارے تعلیمی نصابوں میں قرآن فنی طور پر پڑھایا جاتا تھا، جیسے تفسیر بیضاوی اور تفسیر جلالین نصاب میں شامل تھیں جن میں سے ایک کا تعلق نحو سے اور ایک کا تعلق بیان سے ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے زمانے میں فارسی زبان رائج تھی اور اردو بھی عام بولی جاتی تھی، لیکن ان میں قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کا رواج نہیں تھا۔
سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں کی سرکاری زبان (فارسی) میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا، جو نہ صرف سرکاری زبان، بلکہ عدالتی اور دفتری زبان بھی تھی۔ اور اس وقت کی عوامی زبان (اردو) میں ان کے دو بیٹوں حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ اور حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ نے قرآن پاک کا ترجمہ کیا۔ یہ قرآن کریم کے عمومی ماحول میں فہم کی جدوجہد کا آغاز تھا اور شاہ صاحبؒ ہی کے جانشین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی کی جامع مسجد میں قرآن پاک کا عوامی و مقامی زبان میں درس دینا شروع کیا۔
اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے شاہ عبد القادرؒ کے ترجمہ کو سامنے رکھ کر قرآن پاک کا اردو ترجمہ کیا اور انہوں نے شاہ عبد القادرؒ کے لکھے ہوئے مختصر حواشی سے کچھ زیادہ اور عام فہم انداز میں حواشی بھی لکھے، لیکن ان کی تکمیل سے پہلے ان کی وفات ہو گئی۔ بعد میں ان حواشی کو حضرت شیخ الہند ؒکے مایہ ناز شاگرد علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے مکمل کیا اور آج وہ تفسیر عثمانی کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ نے یہ کارنامہ مالٹا کے جزیرے میں تین سال جیل کاٹنے کے دوران انجام دیا اور انہوں نے واپس آ کر یہ فرمایا بھائی! ہم ہندوستان میں جو غلامی بھگت رہے ہیں اس کی بڑی وجہ میرے نزدیک دو چیزیں ہیں۔
(۱) ایک تو قرآن پاک کا علم و فہم نہیں ہے، بس قرآن پاک کو برکت کے لیے پڑھتے ہیں اور علمی زبان میں پڑھتے ہیں۔ لہٰذا فہم قرآن کے لیے درس کے حلقے قائم کیے جائیں یا لوگوں کو قرآن پاک سمجھانے کے لیے عوامی زبان میں دروس کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
(۲) اور دوسری چیز ہمارے باہمی اختلافات ہیں جو حد سے بڑھ جاتے ہیں اور دشمن کے لیے تقویت کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس لیے باہمی اختلافات اور جھگڑے جس قدر بھی کم کیے جائیں گے تو ہمیں قوت و تقویت حاصل ہو گی۔ لہٰذا آپس کا جوڑ اور قرآن پاک کا فہم عام کیا جائے۔
حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے پھر قرآن پاک کے عوامی افہام و تفہیم اور تعلیم یافتہ حلقہ میں قرآن پاک کے فہم کے لیے درس سے ہٹ کر حلقے قائم کیے، جن میں سے تین بہت مشہور ہوئے۔
ایک تو دہلی میں ہی مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے ”نظارۃ المعارف القرآنیہ“ کے نام سے حلقہ قائم کیا۔ کثیر تعداد میں علماء کرام وہاں جاتے اور قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر پڑھتے رہتے۔ اس تسلسل کو شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ نے چلایا اور ترجمہ و تفسیر کی شکل میں قلمبند بھی کیا۔ مولانا لاہوریؒ کا ذوق یہ تھا کہ قرآن پاک کے احکام کی آج کے دور کے ساتھ تطبیق کرتے کہ قرآن پاک کیا کہہ رہا ہے اور آج کے حالات کیا کہہ رہے ہیں۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا ترجمہ اور تفسیر آپ دیکھیں گے تو آپ کو آج کے مسائل پر قرآن پاک کی آیات منطبق نظر آئیں گی کہ دور حاضر کے یہ مسائل ہیں اور قرآن ان کے متعلق یہ کہتا ہے۔ یہ ان کا خصوصی ذوق تھا۔
ہمارے پاکستان میں تین چار درس کے حلقے قائم ہوئے جنہوں نے شہرت پائی:
(۱) سب سے پہلا درس کا حلقہ عام طلباء اور علماء کے لیے مولانا حسین علی صاحبؒ نے قائم کیا، جو مولانا گنگوہیؒ اور مولانا مظہر نانوتویؒ کے شاگرد تھے۔ تعلیمی طور پر بھی سب سے متقدم بزرگ ہیں اور سند کے اعتبار سے بھی۔
(۲) دوسرا حلقہ لاہور شیرانوالہ میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے قائم کیا، جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
(۳) تیسرا حلقہ ہالیجی شریف میں مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ نے قائم کیا۔
(۴) چوتھا حلقہ خانپور میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے قائم کیا۔
(۵) جبکہ پانچواں حلقہ راولپنڈی میں شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کا تھا۔
یہ پانچ حلقے شیخ الہندؒ کی اس بات اور فکر پر قائم کیے گئے کہ قرآن پاک کے فہم کے حلقے عام کیے جائیں۔ طلبہ، علماء سمیت عوام کے لیے بھی قرآن پاک پڑھانے اور سمجھانے کے یہ ہمارے معروف حلقے قائم ہوئے تھے۔
اس کے بعد سن ۱۹۴۳ء میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے گکھڑ میں اور سن ۱۹۵۲ء میں عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے گوجرانوالہ میں درس قرآن کا حلقہ قائم کیا۔ ان دونوں بزرگوں کے دروس کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں۔ دونوں بزرگوں کا قرآن کریم سمجھانے کا اپنا اپنا دائرہ ہے۔ عوامی سطح پر حضرت والد صاحبؒ کے دروس ”ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن“ سب سے بہترین ہے، اس سے بہتر کوئی ترجمہ، تفسیر عوامی سطح کے لیے نہیں ہے، اور تعلیم یافتہ حلقے میں اس لیول پر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے علوم سے متعارف کرنے کے لیے حضرت صوفی صاحبؒ کے ترجمہ و تفسیر سے بہتر کوئی ترجمہ نہیں ہے۔
پھر والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے تین دائرے تھے:
(۱) ایک تو فجر کی نماز کے بعد گکھڑ میں ٹھیٹھ پنجابی میں درس قرآن دیتے تھے اور ان جیسی پنجابی کوئی پنجابی بھی نہیں بول سکتا تھا، حتی کہ پنجابی لوگ ان سے محاورے کا ترجمہ پوچھنے آیا کرتے تھے کہ اس پنچابی محاورے کا ترجمہ کیا ہے؟ اللہ پاک جزائے خیر دے مولانا محمد نواز بلوچ صاحب اور حاجی میر لقمان اللہ صاحب کو کہ انہوں نے اس کو اردو میں منتقل کر کے چھپوایا۔ حضرت والد محترمؒ نے اپنے اس دائرے میں تین چار دفعہ قرآن مکمل کیا۔
(۲) دوسرا دائرہ یہ تھا کہ گکھڑ میں اساتذہ کا ٹریننگ اسکول تھا، جو اب گورنمنٹ کالج ہے، اسے ہم نارمل اسکول کہتے ہیں، ملک عبد الحمید صاحبؒ وہاں کے پرنسپل تھے اور بہت اچھے آدمی تھے۔ ان کی فرمائش پر جو اساتذہ ملک کے مختلف حصوں سے ٹریننگ کورس کے لیے آتے تھے، ان کو حضرت والد صاحبؒ عصر کے بعد ایک گھنٹہ درس دیا کرتے تھے اور تسلسل کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ ہوتا تھا۔
(۳) تیسرا دائرہ یہ تھا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۱۹۷۶ء سے دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا تھا جو اکیس سال تک چلتا رہا، اس کی بھی ریکارڈنگ موجود ہے۔ لیکن اس پر لطیفہ یہ ہے کہ گکھڑ والا عمومی درس تو مرتب ہو کر چھپ گیا ہے، نارمل سکول والا ریکارڈ نہیں ہو سکا تھا اور یہ ریکارڈ ہو کر ریکارڈ موجود ہے۔ اس دورے میں علماء سامنے ہوتے تھے اور والد صاحبؒ جو تفسیر انہیں پڑھاتے رہے ہیں وہ بڑی کام کی چیز ہے۔ ہمارے بھائی حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب بڑے باذوق عالم ہیں اور بہت اچھے مدرس ہیں، اللہ پاک انہیں صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ وہ اس کو مرتب کر رہے ہیں اور میں کئی دفعہ انہیں یاد دلاتا ہوں کہ مکمل کر لو، چھاپ دیتے ہیں۔
الغرض عوامی حلقے میں چار درس بڑے مقبول تھے۔ ایک حضرت والد صاحبؒ کا، ایک حضرت صوفی صاحبؒ کا، ایک حضرت مولانا قاضی نور محمد صاحبؒ کا، یہ ہمارے بڑے بزرگوں میں سے تھے اور ان کے درس کو پھر مولانا قاضی عصمت اللہ صاحبؒ نے چلایا ہے اور چوتھا درس جو مقبول عام درس تھا، حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحبؒ کا تھا۔ اللہ پاک نے ان سے بڑا کام لیا ہے، اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔ ایک دور میں شہر میں سب سے مقبول حلقۂ درس ان کا ہوتا تھا اور شام کو یہاں رونقیں لگی ہوتی تھیں۔ آدھی اردو اور آدھی پشتو ہوتی تھی، بڑی مزے کی زبان بولتے تھے اور عالم تو وہ تھے ہی، اللہ پاک نے بہت بڑا خزانہ ان کے سینے میں رکھا تھا۔
تو یہ دورے چلتے آ رہے تھے اور اس تناظر میں امسال انوار العلوم میں اس دورۂ تفسیر کا آغاز کیا گیا جو میرے لیے تو خوشی کی بات ہے۔ اللہ پاک مولانا داؤد احمد صاحب اور مولانا فضل الہادی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اللہ پاک آپ کو یہ سلسلہ مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اس کے فوائد و ثمرات سے بہرہ ور فرمائے۔
میں دو باتیں تمہید کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک بات یہ کہ آج کے عمومی تناظر میں فہم قرآن پاک کے لیے ضروری تقاضے کیا ہیں؟
ایک بات تو یہ کروں گا کہ قرآن پاک سے اگر براہ راست سمجھنا ہے تو اس کے لیے دو دائرے ہیں، ایک بلا واسطہ اور ایک بالواسطہ۔ اوریجنل سورس تو یہ ہے کہ عربی زبان سیکھ کر اس میں عبور حاصل کریں اور خود قرآن پاک پڑھیں اور سیکنڈری سورس یہ ہے کہ ترجمہ پڑھ لیں۔ ترجمہ اور تفسیر یہ سیکنڈری سورس ہے کہ خود نہیں سمجھ رہے، لیکن کسی استاد سے سمجھ لیتے ہیں۔
اوریجنل سورس پر امریکی خاتون کا ایک دلچسپ واقعہ۔ امریکہ کی ایک نومسلم خاتون ہے، جس کا نام ڈاکٹر ایم کے ہرمنسن ہے، بڑی اسکالر ہے، اس وقت شکاگو یونیورسٹی میں شاہ ولی اللہ چیئر کی چیئر پرسن ہے اور حجۃ اللہ کا انگلش میں معیاری ترجمہ بھی اس نے کیا ہے۔ یہاں گوجرانوالہ میرے اس گھر میں تشریف لائی ہیں اور ہمارا ان سے رابطہ ہے۔ وہ جب مسلمان ہوئی تو میں نے یہاں ان سے انٹرویو کیا کہ آپ کیوں مسلمان ہوئی ہو؟ اس نے جو کچھ بتایا اس کی لمبی داستان میں سے ایک حصہ عرض کرتا ہوں۔ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو اس کی پوری داستان چھپی ہوئی ہے۔ اس نے کہا کہ جب میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تو میں نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا۔ کچھ دن میں نے قرآن پاک انگلش ترجمہ میں پڑھا تو مجھے اچھا لگا۔ میں نے کہا چلو اس کو پڑھنا چاہیے۔ لیکن میرے ذہن میں خیال آیا کہ ترجمہ تو سیکنڈری سورس ہے، اصل عربی میں پڑھنا چاہیے۔ قرآن پاک کو اصل عربی میں پڑھنے کے لیے میں نے دو سال عربی زبان کا کورس کیا قاہرہ جا کر۔ پھر میں نے قرآن پاک سٹڈی کیا تو قرآن پاک نے مجھے مسلمان کر دیا۔
یہ اوریجنل سورس ہے کہ قرآن پاک کو اصل زبان میں پڑھا جائے۔ سیکنڈری سورس بھی ٹھیک ہے الحمد للہ ہم تو یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اصل سٹڈی کے لیے پہلی ضرورت ہے کہ عربی زبان جانتا ہو۔ لیکن یاد رہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت عربی زبان جاننا ہے، اور صرف جاننا نہیں بلکہ عربی زبان پر عبور حاصل کرنا ہے۔ ہر زبان کی طرح عربی زبان کے بھی دو دائرے ہیں۔
(۱) ایک دائرہ اخبار کا ہوتا ہے کہ ایک آدمی اردو پڑھ لیتا ہے، اخبار پڑھ لیتا ہے وہ کہے میں اقبال کو سمجھ لوں گا تو سمجھ لے گا؟ جنگ اخبار پڑھ لیتا ہے وہ کہے میں مرزا غالب کو بھی سمجھ لوں گا، سمجھ لے گا؟ زبان کا لیول زبان نہیں، بلکہ اس کا لیول وہ ہے جس پر کتاب لکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اردو اخبار پڑھنے والا غالب کا دیوان سمجھ لے گا؟ یا انگریزی اخبار پڑھنے والا شیکسپیئر کو سمجھ لے گا؟ فارسی اخبار پڑھنے والا فردوسی کو سمجھ لے گا ؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ فردوسی فردوسی ہے، شیکسپیئر شیکسپیئر ہے، غالب غالب ہے اور اخبار اخبار ہے۔
(۲) جو دوسرا تقاضا ہے کہ اس لیول کی زبان سمجھنا۔ ہمارے ہاں جو جاہلی ادب پڑھایا جاتا ہے، حماسہ پڑھتے ہیں اور سبعہ معلقہ، دیوان متنبی اور الکامل للمبرد بھی پڑھتے ہیں تو یہ کیوں پڑھتے ہیں؟ ادب جاہلی ہے اور شعر و شاعری ہے، عشق و عاشقی ہے، کیا ہے، لیکن اس سب کچھ کو ہم زبان کے لیول کے لیے پڑھتے ہیں کہ جس دور میں قرآن پاک نازل ہوا تھا اس دور کی زبان یہ ہے۔
قرآن پاک کے فہم کا تیسرا تقاضہ: قرآن پاک کا فہم تو اللہ پاک جس کو جتنا بھی عطا کرے کر دے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خود پوچھا گیا کہ حضرت! سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قرآن پاک کی کچھ زائد چیزیں بھی دی تھیں، جو عام امت کو نہیں دیں، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ فرمایا: غلط ہے، جو تمہارے پاس ہے وہی ہمارے پاس ہے، جو قرآن تمہارے پاس ہے وہی ہمارے پاس ہے، جو ہدایات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دی تھیں ہمیں بھی وہی دی تھیں۔ ہاں صرف ایک موقع پر چار باتیں کی تھیں وہ میں نے لکھی ہوئی ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے، ہاں! فہم اللہ نے دیا ہے، اللہ پاک نے جو ہمیں دیا ہے وہ دوسروں کو نہیں دیا۔
لیکن اس فہم میں کوئی اتھارٹی بھی ہے؟ میں یہ بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اب پاکستان کا دستور ہے میں بھی اپنے حد تک سمجھوں گا آپ بھی اپنے حد تک سمجھیں گے، لیکن اس میں کوئی اتھارٹی ہے کہ نہیں ہے؟ پاکستان میں اگر کسی قانون میں الجھن ہے تو اتھارٹی ہائی کورٹ ہوتا ہے۔ قانون کا ایک معنی آپ کر رہے ہیں ایک میں کر رہا ہوں، لیکن اتھارٹی ہائی کورٹ ہے۔ دستور کی کسی دفعہ میں اگر کوئی الجھن ہے، ایک وکیل یہ معنی کر رہا ہے دوسرا یہ معنی کر رہا ہے تو اتھارٹی کون ہے؟ سپریم کورٹ۔ یعنی دنیا کی ہر زبان و قانون میں کوئی نہ کوئی اتھارٹی ہوتی ہے کہ حتمی فیصلہ اس کا ہو گا۔ پاکستان کے دستور کی کسی بھی دفعہ میں آپ لاکھ رائے دے دیں، لیکن فیصلہ سپریم کورٹ کا ہو گا۔
قرآن پاک میں بھی فہم اپنی اپنی حد تک ہوتا ہے، لیکن اس فہم میں اتھارٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جس طرح دستور کی وضاحت کی اتھارٹی سپریم کورٹ ہے اور قانون کی وضاحت کی اتھارٹی ہائی کورٹ ہے، قرآن پاک کے فہم کی اتھارٹی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتھارٹی کی دو حیثیتیں ہیں:
(۱) ایک حیثیت یہ ہے کہ ان پہ نازل ہوا ہے۔ ایک عام محاورہ ہے کہ مبتلیٰ بہ کی رائے مقدم ہوتی ہے، یعنی جس کے ساتھ جو معاملہ ہوا ہوتا ہے اس معاملے میں اس کی رائے مقدم ہوتی ہے اور قرآن پاک میں مبتلیٰ بہ کے معنی میں اگر کوئی شخصیت ہیں تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
(۲) اور دوسرا اس حوالے سے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نمائندے ہیں۔ نمائندہ جو بات کرتا ہے وہ اسی کی ہوتی ہے جس کا یہ نمائندہ ہو، اور رسول کا معنی بھی نمائندہ ہے۔
اب پاکستان میں امریکہ کا سفیر بیٹھا ہے، وہ جو بات کرتا ہے کس کی ہوتی ہے؟ امریکہ کی۔ سفیر ہے نا تو امریکہ سے پوچھ کر بات کرے یا بغیر پوچھے کرے، بات امریکہ کی ہی سمجھی جائے گی، کیوں کہ یہ اس کا نمائندہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی آنے پر بات کریں تب اللہ کی ہے، وحی آئے بغیر بات کریں تب بھی اللہ کی ہے۔
ایک اور مثال سے بات سمجھیں کہ وحی کا آغاز غار حرا سے ہوا تھا اور آخری وحی کب ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہیں، جبرئیل سامنے آئے، حضور کا ہاتھ یوں کھڑا ہے، جبرئیل سے باتیں کر رہے ہیں اور ”اللھم بالرفيق الأعلی“ کہہ رہے ہیں۔ جبرئیل پوچھ رہے ہیں کہ حضرت! رہنا ہے کہ جانا ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں ”اللھم بالرفيق الأعلی“ یہاں تک وحی چلتی رہی۔ تئیس سال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی باتیں کہی ہوں گی؟ اور کتنے کام کیے ہوں گے؟ کوئی اندازہ نہیں ہے۔ لیکن ان میں سے نکیر صرف چار یا پانچ باتوں پر ہوئی ہے، جن پر اللہ نے کہا ہے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ایک ”لم تحرم ما أحل اللہ لك“ دوسری ”لم أذنت لھم حتی يتبين لك الذين صدقوا“ تیسری ”آپ نے بدر کے قیدیوں سے فدیہ کیوں لیا ہے؟“ چوتھی ”آپ نے عبد اللہ بن أبی کا جنازہ کیوں پڑھایا تھا؟“ پانچویں ”عبس وتولّٰی“۔ پورے تئیس سال میں جن باتوں پر اللہ پاک نے کہا یہ نہیں کرنا چاہیے تھا وہ ٹوٹل پانچ ہیں، شاید کوئی چھٹی نکل آئے۔ تو ہزارہا باتوں میں سے پانچ باتوں پر نکیر ہے باقی سب باتوں کی کنفرمیشن نہیں ہے؟
ایک مثال اور سمجھ لیں۔ حدیث کی تعریف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات فرمائی ہے اس کو قولی کہتے ہیں، حضورؐ نے عمل کیا، صحابی نے روایت کر دیا اس کو فعلی حدیث کہتے ہیں، یا صحابی نے ایک بات کہی ہے اور حضورؐ نے سن کر خاموشی اختیار فرما لی ہے تو یہ تقریری ہوئی۔ اب بات صحابی کی تھی، لیکن حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئی۔ صحابی کی بات حضورؐ کے خاموش رہنے سے کس کی بن گئی ہے؟ حضورؐ کی۔ اگر صحابی کی بات حضورؐ کے خاموش رہنے سے حضورؐ کی بات بن گئی ہے تو حضورؐ کی بات اللہ کے خاموش رہنے سے اللہ کی نہیں بنی؟ اس لیے ”وما ينطق عن الھوى إن ھو إلا وحی يوحٰی“ کا ترجمہ میں کیا کرتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی ہے۔ یا وحی آنے پر فرمائی ہے یا فرمائی ہے اور وحی نے خاموشی اختیار کر کے شامل کر لی ہے۔
پہلی ضرورت میں نے یہ عرض کی تھی کہ زبان اس لیول اور اس سطح کی زبان سیکھی جائے۔ دوسری بات یہ کہ اتھارٹی تک رسائی، قرآن پاک کی کسی بات میں الجھن ہے تو وضاحت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں گے۔
ایک تیسرا دائرہ بھی آپ سمجھ لیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان ہو تو اس کا بیک گراؤنڈ سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ کس پس منظر میں بات کہی گئی ہے۔ بات کا بیک گراؤنڈ، اس کا پس منظر بات کی پوزیشن واضح کرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ ترجمہ پس منظر کے بغیر نہیں آتا۔ بات کہاں کہی ہے؟ کس سوال کے جواب میں کہی ہے؟ کس مسئلے میں کہی ہے؟ اس کو آج کی دنیا بیک گراؤنڈ اور پس منظر کہتی ہے، جبکہ ہم اسے شان نزول کہتے ہیں۔ لہٰذا شان نزول جاننا بھی ضروری ہے کہ کس پس منظر میں بات کہی گئی ہے۔
اس پر ایک واقعہ بھی عرض کروں گا کہ پس منظر سمجھے بغیر بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بہت سے واقعات ہیں، بخاری میں آٹھ دس واقعات ہیں کہ پس منظر سمجھے بغیر بات سمجھ میں نہیں آتی، لیکن ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معروف صحابی ہیں قدامہ بن مظعونؓ، یہ اور عثمان بن مظعونؓ دونوں آپس میں بھائی تھے اور دونوں بدری صحابی ہیں۔ عثمانؓ تو شہید ہو گئے تھے، جبکہ قدامہؓ بہت عرصہ رہے ہیں اور یہ عبد اللہ بن عمرؓ کے ماموں اور حضرت عمرؓ کے سالے بھی ہیں۔
حضرت عمرؓ نے ان کو بحرین کا گورنر بنا لیا تو رپورٹ آئی کہ قدامہ کبھی کبھی شراب پیتے ہیں۔ واقعہ اگر تفصیلی طور پر پڑھنا ہو تو حافظ ابن حجرؒ نے الاصابہ میں بڑی تفصیل سے بڑے مزے لے کر بیان کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے انکوائری کے لیے محمد بن مسلمہ کو بھیجا جو کہ انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ وہ جا کر رپورٹ لے آئے کہ بات ٹھیک ہے، کبھی کبھی بابا جی پیتے ہیں۔ چنانچہ امیر المومنین کے دربار میں گورنر صاحب کی طلبی ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا قدامہ! تم شراب پیتے ہو؟ کہا جی، کبھی کبھی پیتا ہوں۔ او خدا کے بندے! شراب تو حرام ہے۔ انہوں نے کہا ہاں پتہ ہے مجھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کوڑے بھی لگتے ہیں۔ کہا ہاں پتہ ہے مجھے۔ تو کہا پھر کیوں ایسا کرتے ہو؟ کہنے لگے قرآن پاک اجازت دیتا ہے۔ ”يايھا الذين اٰمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون“ اس میں ”فاجتنبوہ “ کے لفظ کے ساتھ نہی اور حرمت ثابت ہوتی ہے اور اگلی آیت ”انما يريد الشيطان ان يوقع بينكم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والميسر“ کہ شراب اور جوئے سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، یہ ممانعت کی حکمت ہے، اور پھر ”وأطیعوا اللہ وأطیعو الرسول“ میں تاکید ہے اور چوتھی آیت ”ليس علی الذين اٰمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا“ اگر سابقہ تسلسل کے تناظر میں اس کا ترجمہ کیا جائے تو مؤمنین عمل صالح والے اور تقویٰ داروں کے لیے اس کا مباح ہونا ثابت ہوتا ہے اور آج کے متجددین بھی یہی معنی کرتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے چکھ چُھک لیا کرو، یہ مولوی خواہ مخواہ کہتے ہیں حرام ہے۔
قدامہؓ نے بھی کہا قرآن پاک کہتا ہے، اس لیے تھوڑی سی پیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر تم بدری صحابی نہ ہوتے تو خدا کی قسم کھڑے کھڑے تمہاری چمڑی اتار دیتا، ”اداشع جلدک“ اللہ پاک نے بدریوں کو بڑی بڑی سہولتیں دی ہیں، یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ خیر، ایک جملہ میں یہاں کہا کرتا ہوں کہ ضروری نہیں جو ترجمہ ہو مطلب بھی وہی ہو۔ تو حضرت عمرؓ نے پس منظر واضح کیا کہ بات یہ نہیں ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ جب شراب کی حرمت کا اعلان ہوا تو اس سے پہلے تو لوگ پیتے تھے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پی کبھی بھی، بلکہ حضورؐ کو تو جبرئیل علیہ السلام نے پیش فرمائی تھی۔ جب عرش پہ گئے ہیں تو اکرام کے طور پر تین پیالے پیش کیے شہد کا، دودھ کا، شراب کا۔ آپؐ نے دودھ کا اختیار فرمایا تو بعد میں کہا آپ کا امتحان ہو رہا تھا، یہ آپ نے دودھ پکڑ لیا ”أصبت الفطرۃ لو أخذت الخمر لغوت أمتک“ حضرت صدیق اکبرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے زندگی بھر نہیں پی اور ایک دو صحابی اور ہیں، جن کے بارے میں بھی یہی آتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ تقریباً اکثریت پیتی تھی، حتیٰ کہ بخاری کی روایت ہے احد کی جنگ میں مجاہدین تو پی کر گئے ہیں، کیوں کہ حرام نہیں تھی تو پیتے تھے۔
تو سوال یہ پیدا ہوا کہ قرآن پاک کہتا ہے ”رجس من عمل الشیطٰن“ رجس ہے یہ، گندگی ہے تو ہمارے جو بھائی شراب پیتے پیتے شہید ہو گئے ہیں اور ان کے پیٹ میں گئی ہے ”فی بطونھم“ تو ان کا کیا ہو گا؟ تو اللہ پاک نے فرمایا یہ جو پی کر چلے گئے ہیں ناں ان پر کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا قدامہ! تمہیں نہیں کہا، ان کو کہا ہے۔
میں نے یہ عرض کیا کہ اگر یہ پس منظر واضح نہ ہو، بیک گراؤنڈ واضح نہ ہو تو آپ آیت کا صحیح ترجمہ اور صحیح مطلب بیان نہیں کر سکتے۔
ایک اور بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ قرآن پاک اور حدیث رسولؐ کا باہمی تعلق کیا ہے؟ ان دونوں کے آپس میں چار تعلق ہیں:
(۱) پہلی بات یہ کہ قرآن پاک تک رسائی کا واحد ذریعہ حدیث ہے۔ سب سے پہلے وحی کا نزول غار حرا میں ہوا اور پانچ آیتیں نازل ہوئیں ”إقرا باسم ربك الذی خلق، خلق الإنسان من علق، إقرا وربك الأكرم، الذي علم بالقلم، علم الإنسان ما لم يعلم“ (العلق) یہ آیات ہمیں غار حرا سے ملی ہیں اور غار حرا کا واقعہ ہے تو پانچ آیتیں بھی ہیں اور اگر غار حرا کا واقعہ نہیں ہے تو پانچ آیتیں بھی نہیں ہیں۔ اور غار حرا کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آیا ہے تو حضور نے بیان فرمایا اور صحابی نے روایت کیا۔ حضورؐ کو واقعہ پیش آنا اور صحابی کا اسے بیان کرنا اسی کو تو حدیث کہتے ہیں۔ یوں ہمیں یہ پانچ آیتیں حدیث سے ملی ہیں، اگر حدیث نہ ہوتی تو ان پانچ آیتوں تک ہمیں رسائی بالکل نہ ہو سکتی۔
میں لمبی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ صرف یہ پانچ آیات نہیں، بلکہ ان کی طرح قرآن پاک کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہ ہو کہ یہ مجھ پر نازل ہوئی ہے، بلکہ قرآن کا کوئی لفظ یا کوئی جملہ ایسا نہیں ہے جس بارے حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ مجھ پر نازل ہوا ہے اور وہ قرآن کا حصہ نہ ہو۔ لہٰذا قرآن پاک کا کوئی لفظ بھی حدیث کے بغیر نہیں مل سکتا۔
آج کل لوگوں کو مغالطہ ہے اور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب! قرآن پاک پر ہمارا ایمان ہے، قرآن پاک کے بعد حدیث پر ایمان لانا بھی ضروری ہے؟ میں کہا کرتا ہوں بیٹا! بعد میں نہیں، پہلے ایمان لانا ضروری ہے۔ دلائل کی ترتیب میں قرآن پہلے ہے حدیث بعد میں ہے، لیکن ایمان کی ترتیب میں حدیث پہلے ہے اور قرآن بعد میں ہے۔ حدیث پر ایمان ہو گا تو تب قرآن پر ہو گا۔
(۲) دوسرا تعلق یہ ہے کہ قرآن پاک کی وضاحت میں اتھارٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرما دیا کہ قرآن پاک کی فلاں آیت کا یہ مطلب ہے تو بس وہی مطلب ہو گا۔ دوسری بات یہ سمجھ میں آئی کہ قرآن کی وضاحت میں اتھارٹی حدیثِ رسولؐ ہے۔
(۳) تیسرا تعلق یہ ہے کہ قرآن کریم کی کسی بھی آیت کا بیک گراؤنڈ کہاں سے معلوم ہو گا؟ قرآن پاک کی فلاں آیت فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی یہ کہاں سے پتہ چلے گا؟ یہ ہم حدیث سے پوچھیں گے اور حدیث ہمیں بتائے گی کہ فلاں جگہ یہ صحابی نے کہا، فلاں جگہ اللہ کے نبی نے یہ کیا ہے۔
(۴) چوتھا تعلق یہ ہے کہ قرآن پاک کے مفہوم کے تعین کا ایک معیار یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے اور ایک یہ ہے کہ وضاحت نہیں فرمائی، عمل کیا ہے، جسے ہم تعامل کہتے ہیں۔ حضورؐ کا عمل اور صحابہ کا تعامل یہ بھی فہم قرآن کی اتھارٹی ہے۔
اس پر بھی ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا، جس سے قرآن و حدیث کا باہمی تعلق اچھی طرح سمجھ آ جائے گا۔
قصر کی نماز کے بارے قرآن پاک نے فرمایا کہ سفر میں ہوں تو قصر کر لیا کرو، لیکن شرط یہ ہے کہ ”إن خفتم ان یفتنکم الذين كفروا“ یہاں مشروط حکم سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز قصر صرف حالت خوف میں ہونی چاہیے، جبکہ ہم تو حالت امن میں بھی قصر کرتے ہیں تو یہ امن والا قصر کہاں سے آیا؟ حافظ ابن کثیرؒ نے اس پر بڑا مزے دار واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ سوال سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے ذہن میں آیا تھا۔ حجۃ الوداع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہزاروں صحابہ کے ساتھ گئے ہیں اور وہاں لاکھوں ہو گئے تھے، راستے میں قصر کرتے جا رہے ہیں اور قصر کرتے آ رہے ہیں۔ واپسی پر ایک جگہ حضرت عمرؓ کے ذہن میں آیا کہ قرآن پاک نے تو ”إن خفتم أن یفتنکم الذين كفروا“ کے ساتھ قصر کے حکم کو مشروط کیا ہے، جبکہ ہمیں کوئی خوف نہیں اور ہم قصر کرتے جا رہے ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر تو کوئی خوف نہیں تھا، کیونکہ پورے جزیرۃ العرب میں کنٹرول مسلمانوں کا ہو چکا تھا۔ لہٰذا حضرت عمرؓ سیدھے حضورؐ کے پاس گئے اور کہا یا رسول اللہ! ہم قصر کیوں کر رہے ہیں؟ قرآن پاک نے تو ”ان خفتم“ کی شرط لگائی ہے اور ہمیں تو کوئی خوف بھی نہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے مزے کا جملہ ارشاد فرمایا۔ فرمایا ”عمر! اللہ کا صدقہ واپس کیوں کرتے ہو؟“ حضرت عمرؓ چپ کر کے واپس ہو گئے۔ یہاں پر یہ بات ذرا وضاحت طلب ہے کہ اللہ کا صدقہ واپس کیوں کرتے ہو۔ اس کا ترجمہ میں اپنی زبان میں یہ کیا کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! اللہ نے کہا کہ خوف میں قصر کرو اور ہم امن میں کر رہے ہیں، اللہ کو بولنا تھا لیکن اللہ نے کچھ نہیں کہا تو چپ کر یار! بند کرانا ای؟ بس اتنا ہی جملہ کہا اللہ کا صدقہ ہے، اللہ چپ کر گیا ہے تو تم بھی چپ کر جاؤ۔
یہاں میں عرض کرتا ہوں کہ حالت خوف کا قصر قرآن میں ہے اور حالت امن کے قصر کے متعلق سنت نے فرمایا کچھ نہیں ہے، بلکہ کیا ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل قرآن پاک کا معنی بن گیا ہے، حضورؐ کا عمل قرآن پاک کی تفسیر بن گیا ہے۔ لیکن یہ سب کہاں سے پتہ چلتا ہے؟ حدیث سے۔ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں قرآن سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔