ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور سعودی حکومت کے ساتھ تجارت و معیشت کے حوالہ سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کی طرف سے دو باتیں سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جو بہرحال توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے ہم اپنا موقف متعدد بار واضح کر چکے ہیں اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کی بات بظاہر عرب اسرائیل سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے لیکن اس کا جو درپردہ پہلو ہے اس پر ہم کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک عرصہ سے عالمی سطح پر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مذاہب کو آپس میں ہم آہنگی بلکہ اتحادِ مذاہب کے عنوان سے باہمی ایڈجسٹمنٹ کی کوئی صورت نکالنی چاہیے جس کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ چونکہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود رکھنے کا فلسفہ عالمی قوتوں نے آپس میں طے کر لیا ہے اور اس کو قبول کرانے میں رکاوٹ صرف مسلم معاشرہ میں پیش آ رہی ہیں کہ حکمران طبقوں سے قطع نظر دینی و عوامی ماحول میں مسلم امت اور عوام مذہب کے معاشرتی و تہذیبی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت میں آمادہ نہیں ہیں اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یکجہتی کا ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے مسلم دنیا کو بھی مذہب کے بارے میں آج کے عالی فلسفہ کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔
اس کا ایک دائرہ ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کو یکجا کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کی یہ کوشش بھی ہے کہ چونکہ مسیحی، یہودی، مسلمانوں اور بعض دانشوروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے انہیں ایک چھت کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی ماحول میں محنت کا ایک میدان گرم ہے اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے، اور اس کے لیے ابوظہبی میں ’’خاندان ابراہیم ہاؤس‘‘ تعمیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اس پر علمی حلقوں کے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہم بھی اس سلسلہ میں کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مگر سرِدست ایک دو پرانی یادوں کو گفتگو کے آغاز کے طور پر قارئین کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔
نصف صدی قبل کی بات ہے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں لیبیا کے حکمران جناب معمر قذافی نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات کہہ دی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی چونکہ بیشتر آسمانی مذاہب کا مرکز و محور ہے اور انہوں نے ہی اپنے ماننے والوں کو ’’مسلم‘‘ ہونے کا خطاب دیا تھا ’’ملۃ ابیکم ابراہیم ہو سماکم المسلمین‘‘ (الحج ۷۸) اس لیے مسلمان کہلانے کے لیے یہ نسبت ہی کافی ہے اور انہیں اپنا مرکز و محور ماننے والوں کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کے عنوان سے الگ تشخص قائم کرنا ضروری نہیں ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ اس وقت مصر کے نائب صدر جناب حسین الشافعی بھی کانفرنس میں شریک تھے اور انہوں نے صدر قذافی کی اس بات کو موقع پر ہی ٹوک دیا تھا کہ ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ’’مسلمان‘‘ کہلانے کے لیے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور انہیں آخری نبی کے طور پر اپنا پیشوا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے اور نہ کسی کو مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہم ایک مشاہدہ بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو اسی تناظر یں شکاگو کے ایک سفر میں ہمارے سامنے آیا تھا۔ امریکہ کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ صاحب مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی کے پیروکار ’’بہائیوں‘‘ کا بہت بڑا مرکز ہے جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا (کون وڑن دیسی؟)۔ میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض وڑائچ صاحب کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں پہچان لیا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا وزٹ کرایا۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور وہ سب کے جامع ہیں۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے شکاگو کے اس مرکز کے مین ہال میں، جو بہت بڑا ہال ہے، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے جبکہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہر عبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور اس میں منبر ہے۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ چھوڑیں یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسفہ کی نہیں بلکہ یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے۔
ہمارے خیال میں یہی تصور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے پیچھے بھی کارفرما ہے جو اہلِ علم اور دینی قیادتوں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ یہ گزارش ہم نے تمہید کے طور پر کی ہے جس کی تفصیلات پر ان شاء اللہ تعالیٰ چند کالموں میں کچھ معروضات پیش کریں گے۔