برما میانمار کے مسلمانوں کی حالتِ زار

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ برما، جس کا اس وقت سرکاری نام میانمار ہے، وہاں کے مسلمان اس وقت جس مظلومیت، کسمپرسی، ظلم، بربریت، درندگی اور وحشت کا شکار ہیں، یہ عالمی ضمیر کی بے حسی اور مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا افسوسناک مظہر ہے۔ یہ خطہ، جو اراکان کا خطہ کہلاتا ہے، یہاں کے روہنگیا مسلمان صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور ساڑھے تین سو سال ان کی حکومت رہی ہے۔ روہنگیا، اراکان مستقل ایک مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر تین سو سال سے زیادہ ایک ریاست کے طور پر رہا ہے۔ اس زمانے میں ان کی برما کے بودھ حکمرانوں کے ساتھ مخاصمت چلتی آ رہی تھی۔

لیکن جب برطانیہ نے اس خطے پر قبضہ کیا تو اپنے تسلط کے دوران اس ریاست پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور پھر بالآخر اس ریاست کو تقسیم کر کے جب برما کو آزادی دی، تو چٹاگانگ ملا دیا بنگال کے ساتھ، اور باقی وادی اور پٹی ملا دی برما کے ساتھ۔ اور یہ برطانوی استعمار نے تقسیم کر کے روہنگیا کے مسلمانوں کو بے یار و مددگار کیا اور برما کی بودھ حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جبکہ ان کا سب سے بڑا مرکز چٹاگانگ بنگال کے حوالے کر دیا گیا۔ بنگال میں چٹاگانگ جو ایک زمانے میں متحدہ پاکستان کی دوسری بڑی بندرگاہ ہوتا تھا، اور اب بنگلہ دیش کی بڑی بندرگاہ ہے، اصل میں روہنگیا ہی کا حصہ تھا، اراکان کا حصہ تھا۔

آراکان کے مسلمان اس وقت سے برما کی بودھ حکومت اور بودھ قوم کے مظالم کا شکار ہیں۔ وہ جو صدیوں سے یہاں آباد رہے ہیں، اور صدیوں ان کی حکومت رہی ہے، ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ یہاں کے شہری نہیں ہیں، یہ علاقہ چھوڑ دیں، یہ سارے مظالم انہیں علاقہ چھوڑ دینے پر مجبور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور ایک طویل عرصے سے بیچارے ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، اور ان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں کیونکہ یہاں کے شہری نہیں ہیں۔ جس ملک میں ان کی صدیوں حکومت رہی ہے، اور جس ملک میں کئی صدیوں سے وہ آباد ہیں، وہ ملک ان کے لیے اجنبی بنا دیا گیا ہے۔

اور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ان کے قریب بنگلہ دیش ایک آزاد مسلم ریاست ہے، لیکن وہ جب اپنے حکمرانوں اور اپنی قوم کے مظالم کا شکار ہو کر سرحد پار کر کے ہجرت کرنا چاہتے ہیں، تو بنگلہ دیش نے پہلے تو ان کو آباد کیا، لیکن اب ان کی سرحدیں بند کر دی گئی ہیں۔ سمندر میں ان کو آگے بڑھنے سے روکا جا رہا ہے، اور وہ سینکڑوں سمندر میں ڈوب گئے، اور سینکڑوں سرحدوں پر بے یار و مددگار پڑے ہیں اور ہزاروں ذبح ہو گئے ہیں۔ یہ بے حمیتی کی انتہا ہے جس پر آج بھی مسلم حکمران، او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) بے حمیتی کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ صرف ایک واحد رجب طیب اردگان ہیں، ترکی کے حکمران، جو ایک حد تک غیرت کا حمیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں، میں تاریخ کا طالب علم ہوں، یہ اصل میں پاکستان کا کیس تھا، جس طرح کشمیر کو تقسیم کیا گیا، اسی طرح اراکان کو تقسیم کیا گیا۔ اُس کی ذمہ داری بھی برطانیہ پر ہے، اِس کی ذمہ داری بھی برطانیہ پر ہے۔ برطانیہ نے اراکان کو تقسیم کر کے، چٹاگانگ بنگال کے حوالے کیا، اور باقی وادی کو، باقی خطے کو برما کی حکومت کے حوالے کیا جس سے یہاں کے مسلمانوں کی مظلومیت کا آغاز ہوا۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا، اور چٹاگانگ مشرقی پاکستان کے حصے کے طور پر نقشے میں نمودار ہوا، تو اراکان کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سے مل کر درخواست کی تھی کہ ہم بھی پاکستان کا حصہ ہیں، ہم بھی مسلم اکثریت کی پٹی ہیں، ہمیں بھی پاکستان میں شامل کیا جائے، لیکن خدا جانے کوئی مصلحت ہو گی۔

تب سے یہ بودھ حکومت کے مظالم کا شکار ہیں، انہیں ذبح کیا جا رہا ہے، کاٹا جا رہا ہے، علاقے سے نکالا جا رہا ہے، اور دنیا کی مسلمان حکومتیں، مسلمان اقوام خاموش بیٹھی ہیں، تماشائی بنی ہوئی ہیں، یہ بہت بڑے ظلم کی بات ہے۔ بہت بڑی نا انصافی کی بات ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے، میرے نزدیک سب سے بڑی ذمہ داری بنگلہ دیش کی ہے، بنگلہ دیش حکومت جو ایک مسلمان حکومت کہلاتی ہے، اور مسلمان ملکوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، سب سے بڑی ذمہ داری بنگلہ دیش کی ہے، پھر پاکستان کی ہے، اور پھر عالمِ اسلام کی او آئی سی کی ہے، اور ان سب سے بڑھ کر ذمہ داری اقوام متحدہ کی ہے، سلامتی [کونسل] کی ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کو ان کے شہروں میں، ان کے آبائی وطن میں آباد کرنے، ان کے اخراج کو روکنے، ان پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کچھ بھی ہے چلو، ایک انسانی نسل ہے، آدم کی اولاد ہیں، ان کی رگوں میں بھی یہی خون دوڑتا ہے، وہ بھی اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، پوری نسلِ انسانی آبادی کو، انسانی سوسائٹی کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے اور حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مظلوم مسلمانوں کو اس بربریت اور درندگی سے نجات دلانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter