افغانستان کی آزادی، غزوۂ احزاب کے حوالے سے

   
عثمانیہ میڈیا آفیشل
۱۸ اکتوبر ۲۰۲۱ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے ایک پہلو پر توجہ دلانا چاہوں گا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احزاب سے فارغ ہوئے۔ غزوۂ احزاب کیا تھا؟ قریش نے بدر کی جنگ میں، اُحد کی جنگ میں ناکام ہونے کے بعد عرب قبائل کا متحدہ محاذ بنا لیا تھا اور مدینہ منورہ پہ چڑھ دوڑے تھے، محاصرہ کر لیا تھا، اور قرآن پاک نے اس محاصرے کی بڑی عجیب منظر کشی کی ہے ’’اذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا‘‘ (الاحزاب ۱۰)۔ ایک مہینہ محاصرہ رہا مدینہ منورہ کا۔ محاصرہ ناکام ہوا اور متحدہ محاذ مدینہ منورہ کو فتح کرنے میں ناکام رہا، ناکام واپس گئے۔ قرآن پاک نے اس کی بھی تعبیر کی ’’ورد اللہ الذین کفروا بغیظھم لم ینالوا خیرا‘‘ (الاحزاب ۲۵) اللہ پاک نے کافروں کو ان کے غصے سمیت واپس پلٹا دیا، کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے اجتماع میں خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں دو باتیں فرمائیں، ان دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

ایک بات تو یہ فرمائی ’’الآن نغزوھم ولا یغزوننا‘‘ اب قریشیوں کو ہم پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہو گی، اب جب بھی جائیں گے، ہم جائیں گے۔ اور ویسا ہی ہوا۔ ’’الآن نغزوھم ولا یغزوننا‘‘ اب وہ ہم پر کبھی حملہ آور نہیں ہوں گے، ان کے سارے داؤ پورے ہو چکے، جب بھی جائیں گے ہم جائیں گے۔ پھر حضورؐ ہی گئے ہیں۔ ایک بات تو یہ فرمائی، صحابہؓ کو تسلی دی کہ جب بھی موقع ملا اب ہم جائیں گے مکہ۔ دو تین سال کے بعد چلے گئے تھے۔

دوسری بات فرمائی کہ اب یہ ہتھیار کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ یہ اب جنگ لڑیں گے اعصاب کی، نفسیات کی، اور زبان کی۔ یہ تمہارے خلاف عربوں کو بھڑکائیں گے، نفرت پھیلائیں گے۔ تمہارے خلاف خطابت اور شاعری کے جوہر دکھائیں گے۔ تم سے لوگوں کو دور ہٹانے کی کوشش کریں گے، متنفر کرنے کی کوشش کریں گے۔ تمہارے خلاف اب پراپیگنڈے کا محاذ گرم کریں گے۔ یہ جنگ کہلاتی ہے، میڈیا کی جنگ کہہ لیں، نفسیاتی جنگ کہہ لیں، اعصابی جنگ کہہ لیں۔ فرمایا، اب یہ اعصابی جنگ ہوگی، ہتھیاروں کی کی جنگ نہیں ہو گی۔

یہ کہہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے سوال رکھا، ہتھیار کی جنگ میں تم میرے ساتھ تھے، بدر میں بھی ساتھ تھے، اُحد میں بھی ساتھ تھے، خندق میں بھی ساتھ تھے۔ اب یہ نئی جنگ ہے، یہ زبان کی جنگ ہے، نفسیات کی جنگ ہے، اعصابی جنگ ہے، اس میں کون کون آگے آئے گا، یہ جنگ کون لڑے گا؟ روایات میں آتا ہے، بخاری شریف کی روایت ہے کہ تین آدمی تو مجلس میں کھڑے ہوئے کہ ہم لڑیں گے: حسان بن ثابت، ابی بن کعب، عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم۔ تینوں انصاری تھے، تینوں بڑے شاعر تھے۔ اور چوتھے بزرگ ہیں خطیب الانصار ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہ جو اگلی جنگ تھی نا، پراپیگنڈے کی جنگ، جس کو میڈیا وار کہہ لیں، اعصابی جنگ کہہ لیں، یا نفسیاتی جنگ کہہ لیں۔ پھر اس کا بازار گرم ہوا منڈیوں میں، بازاروں میں، میلوں میں۔ یہ محاذ گرم ہوا اور یہ لڑائی لڑی ہے پھر چار آدمیوں نے: ثابت بن قیس نے، حسان بن ثابت نے، ابی بن کعب نے، عبد اللہ بن رواحہ نے، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

اس کا ایک منظر۔ یہ بنو تمیم بہت بڑا قبیلہ تھا، بڑا پھنے خان قبیلہ تھا۔ بنو تمیم کے جب سردار آئے ہیں تو اپنے قبائلی مزاج کے مطابق۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک میں ہے کہ ’’ان الذین ینادونک من ورآء الحجرات اکثرھم لا یعقلون‘‘ (الحجرات ۴) یہی آوازیں لگا رہے تھے ’’محمد اخرج الینا‘‘ باہر نکلو بات کرنی ہے۔ قرآن پاک نے ڈانٹا، خدا کے بندو! بات تو سلیقے سے۔ یہی بنو تمیم والے ہیں۔ ان کے بارے میں وہ والی آیات نازل ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہوا۔ بڑے سردار تھے، زبرقان بن بدر تھے، اقرع بن حابس تھے، بعد میں بڑے بڑے صحابہؓ شمار ہوتے ہیں۔ تو حضورؐ سے کہنے لگے جناب ہم تو آپ کا کلمہ پڑھیں گے لیکن پہلے ہمارا مقابلہ ہوگا خطابت کا اور شاعری کا۔ ہم اپنا خطیب ساتھ لائے ہیں، اپنا شاعر ساتھ لائے ہیں، مقابلہ ہوگا، اگر آپ مقابلہ جیت گئے تو ہم آپ کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل سے یہ واقعہ ’’الاصابہ‘‘ میں بیان کیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ مجلس جمی، اُدھر سے بھی لوگ آگئے اِدھر سے بھی آ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا پہل کرو بھئی، تمہارا خطیب کدھر ہے؟ زبرقان بن بدر کھڑے ہوئے، خطابت کے جوہر دکھائے۔ ہم یہ، ہم وہ، جیسے ہوتا ہے، اپنے مفاخر۔ حضورؐ نے ثابتؓ سے کہا، ہاں بھئی ثابتؓ، اٹھو جواب دو۔ ثابتؓ اٹھے، جواب دیا۔ حضورؐ کی مدح اور اسلام کی خوبیاں اور شرک کی مذمت، جو بھی ہو۔ پھر ان کا شاعر کھڑا ہوا، شاعر نے اپنی شاعری کی زبان میں اپنے مفاخر بیان کیے۔ حضورؐ نے حضرت حسانؓ سے کہا، اٹھو بھئی جواب دو۔ حضرت حسانؓ نے حضورؐ کی نعت پڑھی، اسلام کی خوبیاں بیان کیں۔ اقرع بن حابس تمیمی تھے ان کے سردار۔ جب مجلس مکمل ہوئی وہ کھڑے ہو گئے، جناب، ٹھیک ہے، آپ کا خطیب بھی ہمارے خطیب سے بڑا ہے، آپ کا شاعر بھی ہمارے شاعر سے بڑا ہے، کلمہ پڑھائیے ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘۔

میں ماحول بیان کر رہا ہوں کہ یہ وہ ماحول تھا۔ یہ اعصابی جنگ کا، نفسیاتی جنگ کا، میڈیا وار کا، ابلاغ کے ذرائع کی جنگ کا یہ ماحول تھا۔ ایک بات اور شامل کر لیں۔ پھر انہوں نے تقسیم کر رکھی تھی۔ حسان بن ثابتؓ تو حضورؐ کے اوصاف اور مدح کرتے تھے اور کافروں کی طرف سے جو ہجو ہوتی تھی اس کا جواب دیتے تھے۔ ابی بن کعبؓ اسلام کی خوبیاں، شرک کی مذمت، یہ بیان کرتے تھے۔ عبد اللہ بن رواحہؓ رزمیہ شاعری کرتے تھے، جس کو جنگی ترانے کہتے ہیں۔ کاٹ دیں گے، اڑا دیں گے، پھاڑ دیں گے، جلا دیں گے، تباہ کر دیں گے، بیڑا غرق کر دیں گے۔

بخاری کی روایت ہے۔ عمرۃ القضا پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ ماحول سارا کافروں کا ہے، مشرکین کا ہے۔ ویزے پہ گئے، تین دن کے معاہدے پر گئے۔ تو مکہ کی پہاڑی سے بیت اللہ کی طرف اتر رہے ہیں، چودہ سو کے قریب صحابہؓ تھے، احرام باندھے ہوئے، عمرہ کی نیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احرام باندھا ہوا ہے اور اونٹنی پر سوار ہیں۔ اونٹنی کی مہار عبد اللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں ہے۔ نیچے اتر رہے ہیں۔ باقی سارے تلبیہ پڑھ رہے ہیں ’’لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک‘‘ عبد اللہ بن رواحہؓ جنگی ترانے پڑھ رہے ہیں۔ مار دیں گے، اڑا رہے تھے، کاٹ دیں گے، پھاڑ دیں گے، جلا دیں گے۔ وہ لگے ہوئے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے دیکھا دور سے تو اشارے سے او خدا کے بندے، کیا کر رہے ہو! زبان سے کچھ نہیں کہا، ہاتھ سے یوں، کعبہ نظر آ رہا ہے، کیا کر رہے ہو؟ حضرت عمرؓ کو یوں گھورتے حضورؐ نے دیکھ لیا اوپر سے کہ حضرت عمرؓ عبد اللہ بن رواحہؓ کو جنگی ترانے پڑھنے پر گھور رہے ہیں۔ حضورؐ نے اوپر سے کہا ’’دعہ یا عمر‘‘ عمر چھوڑو پڑھنے دو اس کو۔ اس کے شعر تمہارے تیروں سے زیادہ دشمن کے سینوں میں ٹھکانے پہ لگ رہے ہیں۔

یہ ماحول میں بتا رہا ہوں کہ جو نئی جنگ تھی نا، اعصابی جنگ، نفسیاتی جنگ، میڈیا کی جنگ، ابلاغ کے ذرائع کی جنگ۔ یہ جنگ جو نئی شروع ہوئی، یہ جن جرنیلوں نے لڑی ہے، تین چار کا نام میں نے بتایا، پھر یہ لڑائی بھی حضورؐ نے پورے ذوق کے ساتھ پورے شوق کے ساتھ لڑی ہے۔

یہ بات میں آج کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہی صورتحال تقریباً‌ افغانستان میں ہوئی ہے۔ متحدہ محاذ آیا ہے، بیس سال کوشش کی ہے، افغانستان کو زیر نہیں کر سکے، واپس گئے ہیں۔ اسی کیفیت میں گئے ہیں ’’رد اللہ الذین کفروا بغیظھم لم ینالوا خیرا‘‘ (الاحزاب ۲۵) واپس گئے ہیں، ناکامی کا اعتراف کر کے گئے ہیں، کہہ کے گئے ہیں کہ ہم ناکام ہیں۔ لیکن اب نئی جنگ چھیڑ دی۔ جیسے انہوں نے اعصابی جنگ چھیڑ دی تھی نا، جیسے مشرکینِ مکہ نے مشرکینِ عرب نے احزاب کی جنگ میں ناکامی کے بعد ایک اعصابی اور نفسیاتی اور میڈیا کی جنگ چھیڑ دی تھی، اب وہ جنگ چھڑ گئی ہے۔ یہ جنگ اعصابی ہے، نفسیاتی ہے، ابلاغ کی ہے، اور آج کے ماحول میں لابنگ کی ہے۔ اب یہ نئی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے، اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا ہے اور صحابہ کرامؓ کی سنتِ مبارکہ کیا ہے؟ جو اس صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، ان کو؛

دیکھیں، تلوار کی جنگ کے جرنیل اور تھے، زبان کی جنگ کے جرنیل اور تھے۔ جو بھی اعصابی جنگ میں، نفسیاتی جنگ میں، میڈیا کی جنگ میں، اور ابلاغ کے ذرائع کی جنگ میں، قلم کے حوالے سے، زبان کے حوالے سے، لابنگ کے حوالے سے، ٹیکنیک کے حوالے سے، جو بھی اس جنگ میں شریک ہو سکتے ہیں ان کو اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور سنتِ رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ کی اتباع کرتے ہوئے اِس جنگ میں شریک ہونا چاہیے اور اپنے بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اللہم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ و بارک وسلم۔

https://youtu.be/BGlDZOLUa7w

2016ء سے
Flag Counter