ابراہیمی معاہدہ: نیا جال لائے پرانے شکاری

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۸ اکتوبر ۲۰۲۵ء

(۱۸ اکتوبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں طلبہ و علماء کرام کی ہفتہ وار نشست سے خطاب کا خلاصہ۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات پھر دہرائی ہے کہ سعودی عرب ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ پر جلد دستخط کر دے گا اور اس کے بعد بہت سے دیگر مسلم ممالک بھی اس میں شریک ہو جائیں گے۔ ابراہیمی معاہدہ سے مراد مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت کے حوالہ سے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے خلاف نفرت کے ماحول کو کم کرنا اور یہودیوں کو ایک مشترکہ ماحول میں لا کر تحفظ فراہم کرنا ہے جس کے لیے امریکہ کئی برسوں سے مصروفِ کار ہے۔

بڑے مذاہب کو ایک مشترکہ ماحول میں جمع کر کے باہمی تنازعات کو کم کرنے کا یہ فارمولا ہم اس سے قبل بھی بھگت چکے ہیں جن میں سے ایک اکبر بادشاہ کے دور میں سامنے آیا تھا جسے کم و بیش پانچ سو سال گزر چکے ہیں۔ اکبر بادشاہ نے اپنے دور میں اسلام، مسیحیت، ہندو ازم، جین مت، اور بدھ مذہب کی بہت سی باتوں کو ملا کر ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے ایک ملغوبہ بنایا تھا اور طاقت کے زور سے اپنی رعیت سے اسے منوانے کی کوشش کی تھی۔ یہ دینِ الٰہی ’’اجتہاد‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مرتب کیا گیا تھا اور ان چار پانچ مذاہب کی عبادات اور احکام و قوانین میں سے کچھ کو جمع کر کے مشترکہ طور پر رواج دینے کا آغاز ہوا تھا مگر اکبر بادشاہ کی تمام تر طاقت و قوت کے باوجود یہ عوام میں رائج نہیں ہو سکا تھا اور جہانگیر بادشاہ کے دور میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور ان کے رفقاء کی مسلسل جدوجہد کے باعث جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ اس سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے حضرت مجدد الف ثانیؒ کے حالات زندگی اور جدوجہد کا مطالعہ بہت ضروری ہے جس سے اس فکر و فلسفہ کی ماہیت اور نفسیات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ایران میں جنم لینے والے ایک نئے مذہب ’’بہائیت‘‘ نے خود کو اتحاد بین المذاہب کا علمبردار بنا کر پیش کیا تھا جس کے بانی مرزا بہاء اللہ شیرازی نے خود کو تمام آسمانی تعلیمات کا منبع قرار دے کر سب مذاہب کے حق ہونے کی بات کی تھی۔ ان لوگوں کا کہنا بھی یہی تھا کہ سب آسمانی مذاہب برحق ہیں اور ان سب کا آخری مجموعہ بہائیت ہے۔ اس مذاہب کا قبلہ فلسطین میں عکہ کے مقام پر بتایا جاتا ہے۔ اب سے تیس پینتیس برس قبل حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ اور راقم الحروف کو امریکی شہر شکاگو میں اس مذہب کے ایک بڑے مرکز کو دیکھنے کا موقع ملا تھا جس کا منظر ابھی تک نگاہوں کے سامنے ہے کہ ایک بڑے ہال میں چھ مذاہب (۱) اسلام (۲) مسیحیت (۳) یہودیت (۴) بدھ مت (۵) ہندو مت اور (۶) سکھ مت کے عبادت خانے قائم کیے گئے تھے اور ہر عبادت خانہ اس کے اصل ماحول کے مطابق بنایا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کے رخ کی جانب مسجد تھی جس میں مسجد کا مکمل ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ اس مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہم سب مذاہب کو برحق سمجھتے ہیں اور ہر مذہب کے پیروکاروں کو ان کے عبادت خانے میں آزادی کے ساتھ عبادت کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

اس موقع پر بریفنگ دینے والے صاحب سے میں نے سوال کیا کہ ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک کونے میں مسجد ہے جہاں خدا ایک ہے اور دوسرے کونے میں چرچ ہے جہاں خدا تین ہو جاتے ہیں، میں ان دونوں کے درمیان وہ ٹرننگ پوائنٹ معلوم کرنا چاہتا ہوں جہاں سے گزرتے ہوئے اتنی بڑی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب چھوڑیے یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں یہ فلسفہ کی نہیں عقیدہ کی بات ہے۔ خدا کسی فلسفہ کا عنوان نہیں بلکہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور عقیدہ کی بنیاد ہے۔

یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کا یہ نیا راؤنڈ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس قسم کے فارمولے تاریخ میں اس سے قبل بھی ہم بھگت چکے ہیں۔ اسی تناظر میں ابراہمی ہاؤس کے عنوان سے متحدہ عرب امارات میں تینوں مذاہب کے عبادت خانے ایک چار دیواری میں بن چکے ہیں اور اب سعودی عرب سے بھی تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ پر دستخط کر کے اس عمل کا حصہ بنے مگر سعودی عرب کے اکابر علماء کرام نے اسے ایک سے زیادہ بار کفر و ارتداد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور وہ اسے کسی صورت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ ہم جنوبی ایشیا کے مسلمان تو اس سے قبل اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی اور بہائی مذہب کے ’’وحدتِ ادیان‘‘ سے بخوبی واقف ہیں اور حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی جدوجہد اور قربانیوں کا شاندار ماضی رکھتے ہیں۔ ہم صرف اور صرف اسلام کو حق مذہب سمجھتے ہیں اور ہمارا بے لچک عقیدہ ہے کہ موجودہ کشمکش جس قدر بھی طویل ہو جائے بالآخر اسلام نے ہی غالب آنا ہے۔ اور باقی تمام مذاہب یا تو باطل ہیں، اور جو اپنے دور میں حق تھے وہ بھی اسلام کے آنے کے بعد سے منسوخ اور زائد المیعاد ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر قائم رکھیں اور امتِ مسلمہ کو اس طرح کی آزمائشوں سے ہمیشہ کی طرح سرخرو فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، کراچی۔ ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۵ء)
2016ء سے
Flag Counter