پاکستان میں غیر سودی معاشی نظام

   
۴ جون ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

۲۸ مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک ریسٹورنٹ کے وسیع لان میں پاکستان شریعت کونسل نے میزان بینک کے تعاون سے ’’غیر سودی بینکاری‘‘ کے مسئلہ پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کی صدارت ممتاز عالم دین مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری نے کی اور اس میں ڈیرہ کے سرکردہ علماء کرام، دینی کارکنوں، تاجروں اور بینکاروں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ خطاب کرنے والوں میں مولانا عبد الحفیظ محمدی، مولانا محمد بشارت، جناب صادق الرحمن اور محمد ہارون ریحان شامل تھے۔ اس موقع پر راقم الحروف نے جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ غیر سودی معاشی نظام اور غیر سودی بینکاری اس وقت دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر زیر بحث ہے اور اسی حوالہ سے آج کا یہ سیمینار بھی منعقد ہو رہا ہے۔ غیر سودی بینکاری کے فقہی اور فنی پہلوؤں کے بارے میں تو اس وقت کچھ عرض نہیں کر سکوں گا، البتہ اس کی معروضی صورت حال کے تناظر میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہوں گا۔

غیر سودی بینکاری کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم اپنے معاشی نظام کی بنیاد مغرب کے معاشی فلسفہ پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانی سوسائٹی کو جنگوں اور تباہی سے دوچار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قائد اعظمؒ نے ملک کے معاشی ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ملک کے معاشی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت کریں۔ لیکن چھ عشروں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود ہمارے معاشی ماہرین اس کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئے اور ملک کا معاشی نظام سود اور سٹہ کے مغربی اصولوں کے مطابق ہی چل رہا ہے۔

اس دوران عالمی سطح پر یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ معاشی ماہرین کی ایک کمیٹی نے رپورٹ دی ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کے مطابق چلا کر ہی صحیح رخ دیا جا سکتا ہے، اور اس کے بعد عالمی سطح پر غیر سودی بینکاری کی طرف نہ صرف یہ کہ مغربی ملکوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے بلکہ اس وقت مغرب میں غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش جاری ہے اور چند ماہ قبل برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

ایک وقت وہ تھا جب ہم غیر سودی بینکاری کی بات کرتے تھے تو ہمیں سادہ لوحی اور بے خبری کا طعنہ دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ غیر سودی معیشت آج کے دور میں قابل عمل نہیں ہے۔ لیکن آج غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں مقابلہ جاری ہے۔ یہ یقیناً اسلام کا اعجاز اور اسلامی تعلیمات کی صداقت و ابدیت کا اظہار ہے۔

ہمارے ملک میں غیر سودی بینکاری اور معیشت کے عمومی تناظر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے طویل بحث و مباحثہ و تجزیہ کے بعد ملک میں رائج سودی قوانین کو غیر اسلامی اور غیر دستوری قرار دے کر حکومت کو انہیں اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ جس کی توثیق سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کر دی تھی۔ لیکن ہمارے حکمران طبقے اور بینکار حلقے اسے قبول کرنے کی بجائے اپیل در اپیل کے چکر میں ٹالتے چلے جانے میں مصروف ہیں۔ اور خاصے عرصے کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع کی ہے تو اس کے لیے دینی حلقوں کے متحرک ہونے کی وجہ سے کیس کو پھر معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔

میں اس سلسلہ میں آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلسی شرعی پاکستان‘‘ نے وفاقی شرعی عدالت میں مشترکہ موقف پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تیاری کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کا گروپ کام کر رہا ہے، اور یہ متفقہ موقف کچھ دنوں تک سامنے آجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ملی مجلس شرعی پاکستان کی تحریک پر دینی اور عوامی حلقوں میں اس سلسلہ میں آگہی اور بیداری پیدا کرنے کے لیے ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے نام سے ایک الگ فورم تشکیل دیا گیا ہے جس کی رابطہ کمیٹی کا کنوینر مجھے بنایا گیا ہے اور اس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں عوام، تاجر حلقوں اور علماء کرام میں غیر سودی اسلامی نظام معیشت کے فروغ اور سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد کے بارے میں آگاہی اور بیداری کے لیے سیمیناروں کا سلسلہ جاری ہے۔ میں علماء کرام، تاجر حضرات اور غیر سودی بینکاری سے دلچسپی رکھنے والے بینکاروں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس تحریک میں شریک ہوں اور اسے آگے بڑھانے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔

جبکہ غیر سودی بینکاری کے حوالہ سے تیسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک میں عملی طور پر غیر سودی بینکاری کے تجربہ کا آغاز ہو چکا ہے اور عالم اسلام کی معروف دینی و علمی شخصیات اس کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ مگر بعض علمی حلقوں کے اس سلسلہ میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ میں اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ چونکہ اسلامی معاشی نظام کے سوسائٹی میں عملی کردار کے تعطل پر خاصا دور گزرا ہے، اس لیے اسے نئے سرے سے روبہ عمل میں لانے میں کچھ عرصہ تو تجربات کے دور سے گزرنا ہی پڑے گا۔ اور اس کے مکمل شکل تک پہنچنے تک تحفظات بھی سامنے آتے رہیں گے۔ اس لیے اس تجربہ کے کسی پہلو سے علمی اور دینی طور پر اختلاف ہو تو اس کا اظہار ضرور کیا جائے، لیکن اس بات کو غنیمت سمجھا جائے کہ ملک کے معاشی نظام کے ایک حصے کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کا جذبہ موجود ہے اور اسے عملی شکل دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے دور میں اگر کوئی اپنا کام اسلام کے مطابق کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کی راہ نمائی کی جائے تاکہ اس کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ بلکہ جائز حدود میں رہتے ہوئے اسے سہولت بھی دی جائے اور اس کے لیے قابل عمل راستے تلاش کیے جائیں۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے اسی ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ گزارش کروں گا کہ ملک میں غیر سودی بینکاری کے تجربہ کی حوصلہ افزائی اور اس کی کامیابی کے لیے تعاون کرنا ہی بہتر راستہ ہے۔ اور اگر کسی پہلو سے اختلاف ہو تو اس کا اظہار کیا جائے اور کام کرنے والوں کی راہ نمائی کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن اختلاف کو مخالفت اور رکاوٹ بننے سے بچایا جائے۔

اس حوالہ سے ایک اور بات دونوں حلقوں سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اس تجربہ میں ہم ناکام ہوگئے اور باہمی کشمکش کے باعث اسے بہتری اور کامیابی کی طرف نہ لے جا سکے تو وہ سابقہ پوزیشن پھر سے بحال ہو جائے گی کہ اسلام کے معاشی نظام کو ناقابل عمل قرار دیا جانے لگے گا۔ میرے خیال میں ہم سب کو اس صورت حال کی واپسی کو روکنے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں مخلصانہ محنت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter