علماء دین کی تین اہم ذمہ داریاں

   
جامعہ انوار العلوم، گوجرانوالہ
۲۷ نومبر ۲۰۲۵ء

۲۷ نومبر ۲۰۲۵ء جمعرات کو جامعہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث شریف کے اسباق مسلم شریف، جامع ترمذی اور سنن نسائی کی تکمیل کے موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جو جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا داؤد احمد میواتی کی دعا پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس موقع پر ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین کی جا رہی ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں ان کتابوں کی تکمیل پر استاذ الحدیث مولانا مفتی محمد جمیل گجر اور تمام اساتذہ و طلبہ کو مبارک باد دیتے ہوئے دو تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔

(۱) احادیث مبارکہ کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے خطاب میں یہ ہدایت آپ پڑھ چکے ہیں کہ ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ جو باتیں تم نے مجھ سے سنی ہیں انہیں آگے پہنچاؤ! یعنی ارشادِ نبویؐ یہ ہے کہ قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اعمال و سنن بھی امت کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اپنے آپ تک محدود نہ رکھیں بلکہ آگے جہاں تک ہو سکے پہنچائیں تاکہ پوری امت ان سے فائدہ اٹھا سکے، جس طرح ہمارے بزرگوں نے ہم تک پہنچایا ہے ہم بھی اگلی نسل تک پہنچائیں۔

مگر ایک بات کے اہتمام کے ساتھ کہ ہم اس حوالہ سے پائپ لائن ہیں جسے لیک نہیں ہونا چاہیے، پائپ لائن میں لیکیج ہو گی تو اندر کا صاف پانی باہر نکل جائے گا اور باہر کی گندی چیز اندر آنے کا امکان ہے، اس لیے ہمیں پائپ لائن کی طرح خود کو ہر قسم کی لیکیج سے محفوظ رکھتے ہوئے اس علمی ورثہ کو پوری حفاظت کے ساتھ اگلی نسل تک پہنچانا ہے۔

(۲) دوسری بات کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ ارشاد بھی آپ نے پڑھا ہے کہ لوگوں تک بات اس انداز سے پہنچاؤ اور اس طریقہ سے ان سے بات کرو کہ وہ سمجھ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرو، جسے آج کے دور میں فریکونسی سیٹ کرنا کہتے ہیں۔ اگر آپ کی بات سننے والا اسے سمجھ رہا ہے تو وہ اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھا سکے گا ورنہ اس سے خرابی پیدا ہو گی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے ’’اتحبون ان یکذب اللہ و رسولہ‘‘ کیا تم یہ بات پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول کی کی بات کو جھٹلا دیا جائے؟ یعنی بات تم نہ سمجھا سکو اور انکار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا کر دیا جائے، جس کا سبب تم بنے ہو۔

اس لیے ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آج کی زبان، لہجہ، نفسیات اور ذہنی سطح کو بھی اچھی طرح سمجھ کر بات کریں تاکہ ہماری کوتاہی یا کمزوری کی وجہ سے دین کی کسی بات کا انکار نہ ہو جائے۔

(۳) تیسری بات کہ حضرت امام ربیعۃ الرائےؒ جو حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت امام مالکؒ دونوں کے استاذ ہیں، ان کا یہ ارشاد بھی آپ حضرات نے بخاری شریفؒ میں پڑھا ہے کہ ’’لا ینبغی لاحد عندہ شئ من العلم ان یضیع نفسہ‘‘ جس شخص کے پاس تھوڑا سا بھی علم ہے اسے خود کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ یعنی علم رکھنے والے شخص کو کسی نہ کسی علمی کام میں مصروف ہونا چاہیے تاکہ اس کا علم ضائع نہ ہو جائے۔ اور خود کو لوگوں کے سامنے اس انداز میں رکھنا چاہیے کہ اس کا وقار قائم رہے اور اس کی بات کا لوگ اعتبار کریں، ورنہ اگر اس کا وقار نہ رہے یا اس کی علمی مشغولیت نہ ہو تو وہ ضائع ہو جائے گا۔ اور علم کو ضائع کرنا علم کی ناقدری ہے جس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter