وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ انکشاف کر کے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ وہ جب قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کے ترمیمی بل کی حمایت کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان سے رابطے کر رہے تھے تو ایک سینیٹر نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’حضورؐ تو خود ڈکٹیٹر تھے‘‘ (نعوذ باللہ)۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر جناب سعید احمد منہاس نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سینیٹر کا نام بتائیں عوام خود اسے سنگسار کر دیں گے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل چودھری احمد مختار نے وزیراعظم کے اس انکشاف کو ایک نئے انتشار کا پیش خیمہ قرار دیا ہے، اور پاکستان عوامی اتحاد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے چیف الیکشن کمشنر سے کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف ایک گستاخ رسولؐ کا جرم چھپانے اور اس کا نام ظاہر نہ کرنے کے جرم میں کاروائی کریں۔
یہ مسئلہ فی الواقع سنگین ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارے کے ایک رکن کی زبان پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں یہ گمراہ کن اور گستاخانہ الفاظ آخر کس طرح آگئے؟ اس معاملہ کے ضروری پہلوؤں کا جائزہ لینا اور انصاف و دینی حمیت کے تقاضے کو پورا کرنا متعلقہ شخصیات اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ مگر ہم اس مسئلے کے بارے میں ایک اور پہلو سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کے بارے میں مذکورہ سینیٹر کا یہ جملہ اس کا اپنا نہیں بلکہ ایک درآمدی فقرہ ہے جو مغرب کے نظریہ ساز کارخانوں میں ڈھلا ہے۔ اور یہ نو آبادیاتی نظام تعلیم و تربیت میں نشوونما پانے والے ہر ایسے شخص کے ذہن کے کسی نہ کسی کونے میں چپکا ہوا ہے جسے اسلامی تعلیمات، خلافت راشدہ اور اسلامی تاریخ کے بارے میں ضروری معلومات میسر نہیں ہیں۔ اس سینیٹر نے یہ جسارت کی ہے کہ وہ اس جملے کو ذہن کے فریزر سے نکال کر نوک زبان پر لے آیا ہے ورنہ بہت سے ذہنوں کے ’’اسٹور روم‘‘ اسلام اور جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں اس قسم کے متعدد ریمارکس اپنے دامن کی تاریکیوں میں سمیٹے ہوئے ہیں اور معاشرتی دباؤ کے باعث ان کے اظہار کی ہمت نہیں پا رہے۔ ہمارے نزدیک اس کا بنیادی سبب دو امر ہیں۔
ایک ہمارے قومی نظام تعلیم کی بے مقصدیت ہے کہ اس نے قیام پاکستان کے بعد نصف صدی کے طویل عرصہ میں ابھی تک یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مغرب کے سیاسی فلسفے اور نظام کے مقابلہ میں اسلام کو ایک سیاسی نظام اور فلسفے کے طور پر نئی نسل کے سامنے پیش کرے۔ اور ان شکوک و شبہات کا علمی طور پر ازالہ کرے جو مغرب کے تعلیمی نظام اور میڈیا سسٹم نے اسلام اور جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں ہر طرف پھیلا رکھے ہیں جن کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کا یکطرفہ پراپیگنڈا اور نظریاتی یلغار بہت سے ذہنوں میں اپنی کمین گاہیں قائم کرتی جا رہی ہے، جبکہ ہم ان ذہنوں سے یہ کانٹے نکال باہر پھینکنے کی بجائے انہیں وہیں دبا دینے اور دبائے رکھنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ہمارے علماء کرام، خطباء اور واعظین میں ایسے افراد کا تناسب بہت کم اور بہت ہی کم ہے جو اپنے مواعظ و خطبات میں اسلام کے اجتماعی پہلوؤں اور جناب رسول اللہؐ کی سنت مبارکہ کے اجتماعی دائروں کو گفتگو کا موضوع بناتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کے مختلف طبقات کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام کے اجتماعی نظام اور سنت نبویؐ کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، اور قانونی پہلوؤں سے ناواقف ہے۔ لیکن یہی ناواقفیت اور جہالت کبھی کبھی اپنی آخری حدود بھی تجاوز کر کے گستاخی اور جسارت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہے تو ہم جذبات اور اشتعال کی ایک اور لہر کا وزن ڈال کر اسے دبائے رکھنے کا عمل دہرا دیتے ہیں۔
اب مغرب کے اسی الزام کو دیکھ لیجئے جو آنحضرتؐ کے بارے میں صدیوں سے دہرایا جا رہا ہے کہ (معاذ اللہ) آپؐ مطلق العنان اور ڈکٹیٹر تھے۔ حالانکہ یہ سراسر جہالت اور رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ سے بے خبری ہے اور باخبر ہونے کی صورت میں محض عناد اور ہٹ دھرمی ہے۔ کیونکہ سیرت نبویؐ شاہد ہے اور تاریخ کے ریکارڈ پر یہ گواہی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دونوں طرف کا لحاظ رکھنے کے پابند تھے۔ انہیں ایک طرف یہ حکم تھا کہ وہ مسلمانوں کو اجتماعی معاملات میں شریک مشورہ کریں وشاورھم فی الامر (سورۃ الشوریٰ)۔ اور دوسری طرف وہ اس امر کے پابند تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام میں اپنی مرضی سے کوئی رد و بدل نہیں کر سکتے اور وحی الٰہی کو ہر صورت میں پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ان دونوں ذمہ داریوں کو اس شان سے نبھایا کہ تاریخ انسانی میں اس کی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ سیرت طیبہ اس قسم کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے، صرف دو تین واقعات اس موقع پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
- غزوۂ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ اس مسئلہ پر مشورہ کر رہے تھے کہ جنگ مدینہ منورہ میں رہ کر اور محصور ہو کر لڑنی چاہیے یا باہر نکل کر کھلے میدان میں کفار کا سامنا کیا جائے۔ خود آپؐ کی رائے محصور ہو کر لڑنے کی تھی مگر مشورہ کی مجلس میں عمومی رجحان باہر جا کر لڑنے کا تھا اس لیے نبی اکرمؐ نے خود اپنی رائے کے خلاف باہر جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور یہ لڑائی احد پہاڑ کے دامن میں کھلے میدان میں ہوئی۔
- ایک مرتبہ جناب نبی اکرمؐ نے اپنے ایک گھریلو معاملہ کے باعث قسم کھا لی کہ وہ شہد استعمال نہیں کریں گے۔ یہ ایک ذاتی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن وحی الٰہی نے حضورؐ کو اپنا حلف توڑنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ آپؐ نے قسم توڑی اور اس کا کفارہ ادا کیا اور پھر حسب سابق شہد استعمال کرتے رہے۔
- اسی طرح جناب نبی اکرمؐ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور آپؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی جو آپؐ نے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صحابیؓ کی ننگی کمر پر مار دی، کمر ننگی تھی اور کھجور کی ٹہنی گھڑی ہوئی نہیں تھی اس لیے ذرا سخت لگی اور کمر پر خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے بھری مجلس میں بدلے کا مطالبہ کر دیا۔ آنحضرتؐ نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر ٹہنی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی کمر آگے کر کے فرمایا کہ ’’اپنا بدلہ لے لو‘‘۔
اس قسم کے واقعات سیرت نبویؐ میں قدم قدم پر ملتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے نہ صرف قانون کی پابندی اور قانون کے سامنے برابری کی اعلیٰ ترین عملی مثال پیش کی بلکہ لوگوں کے معاملات میں ان سے مشورہ کرنے اور ان کے مشورہ کو اہمیت اور ترجیح دینے کی روایت قائم کی اور یہ سب کچھ اس دور میں ہوا جب خود مغرب قانون، رائے، مشورہ اور حق نامی کسی چیز سے متعارف نہیں تھا۔ اس لیے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مغرب کے اس ’’بھونڈے الزام‘‘ کو جہالت یا ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم محض مغرب کو کوسنے اور کوستے رہنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس کریں اور نظام تعلیم، ذرائع ابلاغ اور دینی راہ نمائی کے شعبوں کے ارباب حل و عقد ہماری نئی نسل کو اسلام کے اجتماعی نظام اور سیرت طیبہؐ سے متعارف کرانے کا اہتمام کریں۔ ورنہ مغربی فلسفہ اور کلچر کے لیے ’’بوسٹر‘‘ کا کام کرنے والے حضرات اس قسم کے بے ہودہ ریمارکس نشر کرتے رہیں گے اور ہم ’’ذہنی ارتداد‘‘ کی اس رو کے سامنے جذبات اور اشتعال کے عارضی بند ہر دفعہ نہیں باندھ سکیں گے۔