ہمارا عام طور پر مزاج بن گیا ہے کہ وفات پانے والے بڑے بزرگوں کو تو کسی نہ کسی طرح یاد کر لیتے ہیں لیکن کارکنوں کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کے بزرگ تحریکی شاعر سائیں محمد حیات پسروری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک پنجابی نظم میں اس صورت حال کو اس طرح تعبیر کیا تھا کہ مکان کی خوبصورتی اور مضبوطی میں دیواروں اور چھت کو تو ہر شخص دیکھتا ہے لیکن جو اینٹیں روڑے بن کر بنیادوں میں کوٹ دی جاتی ہیں ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا، حالانکہ عمارت کی اصل مضبوطی انہی سے ہوتی ہے۔ یہی حالت ہمارے عام کارکنوں کی ہوتی ہے اور میں خود بھی اس دائرے سے باہر نہیں ہوں۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے تین پرانے جماعتی اور تحریکی کارکن وفات پا گئے ہیں اور میری محرومی یہ ہے کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہو سکا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
- مولانا عبد السمیع نگینویؒ ہمارے بہت پرانے ساتھی تھے، رسول پورہ کی مسجد صدیقیہ میں اس دور میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے جب وہ جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی تحریکی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز شمار ہوتی تھی، انہوں نے متعدد تحریکات میں ہمارے ساتھ شب و روز کام کیا، بعد میں تبلیغی جماعت میں زیادہ وقت دینے لگے اور کچھ عرصہ رائے ونڈ مرکز میں بھی رہے۔
- محمد اشرف صاحب جو بابا محمد اشرف کے نام سے معروف تھے اور ہم انہیں اشرف ہمدانی کے نام سے یاد کرتے تھے، جمعیۃ علماء اسلام نے جب گوجرانوالہ میں ’’انصار الاسلام‘‘ کے نام سے رضا کار تحریک منظم کی تو وہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالیٰ کی سرپرستی اور سالار قاسم خان مرحوم کی شبانہ روز محنت کا ثمرہ تھا۔ اس دور میں گوجرانوالہ کے شہریوں نے متعدد بار انصار الاسلام کے رضا کاروں کو سڑکوں پر منظم مارچ کرتے دیکھا ہے۔ محمد اشرف خان مرحوم بھی اس کے سرگرم سالاروں میں سے تھے۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم میں منعقد ہونے والے کل پاکستان نظام شریعت کنونشن کا وہ منظر بہت سے شہریوں کو یاد ہوگا جب قاسم خان مرحوم کی قیادت میں سینکڑوں باوردی رضا کاروں نے شہر کی سڑکوں کا مارچ کیا تھا اور کنونشن کے سٹیج پر حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور دیگر اکابر کو سلامی پیش کی تھی۔
- محمد اشرف صاحب بھی ہمارے پرانے ساتھی تھے، انہیں ہم سیٹھ اشرف کے نام سے پکارتے تھے، تحریکی کارکن تھے، ختم نبوت کا دفتر ان کا اکثر بسیرا رہتا تھا، تحریک احیا سنت کے عنوان سے مختلف تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے تھے اور دینی تحریکات میں سرگرمی کے ساتھ شریک ہوتے تھے، ان کا فرزند قاری محمد ابوبکر مدنی ایک اچھا نعت خواں اور مداح رسولؐ اور مختلف دینی محافل کی زینت ہوتا ہے۔
یہ تینوں ساتھی گزشتہ تھوڑے سے عرصہ میں وقفہ وقفہ سے وفات پا گئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی خدمات کو قبولیت سے نوازیں اور ان کے پسماندگان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔