اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے اور ان پابندیوں سے براہ راست متاثر ہونے والے پاکستان کے سوا کسی مسلمان ملک کو اس پر رسمی احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ سلامتی کونسل میں موجود ملائیشیا نے بھی ایک برادر مسلم ملک کے حق میں کلمہ خیر کہنے کی بجائے اس اجلاس سے غیر حاضری کو ترجیح دی ہے جس میں طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس سے افغانستان کی اسلامی حکومت یا بالفاظ دیگر عالمی نقشہ پر نمودار ہونے والی واحد اسلامی نظریاتی ریاست کے خلاف عالمی صف بندی کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے اور یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ خالص اور عملی اسلامی نظام کو روکنے اور ناکام بنانے کے لیے صرف امریکہ اور روس ہی متحد نہیں ہوئے بلکہ نام نہاد مسلم حکومتوں نے بھی اپنا وزن انہی کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
جہاں تک اقتصادی پابندیوں اور معاشی ناکہ بندی کا تعلق ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جس نظام اور فلسفۂ فکر کی خاطر طالبان اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں اور جس دین کا پرچم اٹھانے کی پاداش میں انہیں بھوک اور افلاس میں ہوشربا اضافے کی اس دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے اس کا آغاز بھی آج سے چودہ سو برس قبل انہی حالات میں اور اسی قسم کی کیفیات میں ہوا تھا۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر پیچھے مڑ کر اس مقام پر جا کھڑی ہوئی ہے جب مکہ مکرمہ میں جناب نبی اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے ساتویں سال قریش کے قبائل نے آپؐ کے خاندان بنو ہاشم کا اقتصادی بائیکاٹ کر دیا تھا اور بنو ہاشم شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رہے تھے۔
علامہ سید سلیمان ندوی نے ’’سیرت النبیؐ‘‘ میں اس اقتصادی بائیکاٹ اور محاصرہ و ناکہ بندی کی تفصیلات بیان کی ہیں جن کے مطابق تمام قبائل نے اس ’’قرارداد‘‘ پر اتفاق کر لیا تھا کہ
’’کوئی شخص نہ خاندانِ ہاشم سے قرابت کرے گا، نہ ان کے ہاتھ خرید و فروخت کرے گا، نہ ان سے ملے گا، نہ ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا، جب تک وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کے لیے حوالے نہ کر دیں‘‘۔
طالبان حکومت کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد کا مطالعہ کرلیں آپ کو بھی میری طرح یہی محسوس ہوگا کہ یہ قرارداد چودہ سو سال کی اسی قرارداد کی نقل و تشریح ہے جو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قریش کے قبائل نے طے کی تھی اور اس کی اہمیت بڑھانے کے لیے اسے بیت اللہ شریف کے دروازے پر لٹکا دیا گیا تھا۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ
’’تین سال تک بنو ہاشم نے اس حصار میں بسر کی، یہ زمانہ ایسا سخت گزرا کہ للح کے پتے کھا کھا کر رہتے تھے، حدیثوں میں صحابہؓ سے مذکور ہے کہ ہم للح کے پتے کھا کھا کر بسر کرتے تھے یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے چنانچہ سہیلیؒ نے روض الانف میں تصریح کی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا، میں نے اس کو پانی سے دھویا، پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا۔ ابن سعد نے روایت کی ہے کہ بچے جب بھوک سے روتے تھے تو باہر آواز آتی تھی، قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے۔‘‘
تین سال تک مسلسل ان مصائب اور تکالیف کے باوجود جب جناب نبی اکرمؐ کی دعوت میں کوئی فرق نہ آیا اور اس کا دائرہ تنگ ہونے کی بجائے وسیع ہوتا گیا حتیٰ کہ حضرت ابوذر غفاریؓ جیسے بزرگ بھی باہر سے آکر اس دور میں مسلمان ہوئے اور کھلے بندوں اپنے اسلام کا اعلان کیا تو پابندیوں اور ناکہ بندی کی ناکامی دیکھتے ہوئے خود قریش ہی کے کچھ لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے اس معاہدہ کو چاک کر دیا۔
طالبان بھی اسی اسلام کے علمبردار اور حضرت محمدؐ کے پیروکار ہیں اور اسی اسلام کو انسانی معاشرہ میں از سر نو نافذ و جاری کرنے کے داعی ہیں، اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ اگر وہ اپنے عزم پر قائم رہے اور جیسا کہ امارت اسلامی افغانستان کے سربراہ امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ تعالیٰ نے ان پابندیوں کو مسترد کرنے، عرب مجاہد اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے، اور نفاذ اسلام کا عمل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے تکالیف اور اذیتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا تو ان کے خلاف عائد کی جانے والی یہ پابندیاں بھی اسی طرح ناکام ہو جائیں گی جیسے قریش کا معاہدہ بنو ہاشم کے خلاف فیل ہوگیا تھا۔ لیکن اس سلسلہ میں ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے، یہ درست ہے کہ پاکستان کے اکثر دینی حلقوں اور سرکردہ زعماء نے طالبان حکومت کے خلاف ان پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ ہمدردی، یک جہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔ مگر صرف اتنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے سنجیدہ عملی محنت کی بھی ضرورت ہے جو ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل صورتوں میں ہو سکتی ہے۔
- امارت اسلامی افغانستان کی مالی معاونت کے لیے باقاعدہ مہم منظم کی جائے اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ احباب کو توجہ دلا کر سفارت خانہ امارت اسلامی افغانستان ہاؤس نمبر ۸ اسٹریٹ ۹۰ جی ۶/۳ اسلام آباد کے ذریعہ امدادی رقم یا سامان بھجوانے کا اہتمام کیا جائے۔
- امارت اسلامی افغانستان کی حمایت اور امریکی عزائم کی مذمت کے لیے رائے عامہ کو منظم کیا جائے اور دینی جماعتیں اس سلسلہ میں مشترکہ جدوجہد کی طرف پیشرفت کریں۔
- تاجروں اور صنعتکاروں کو افغانستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے اور اس مقصد کے لیے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔
- مسلم حکومتوں اور اسلام آباد میں ان کے سفارت خانوں کو خطوط، وفود اور یادداشتوں کے ذریعہ ان کی بے حسی کی طرف توجہ دلائی جائے اور ان کی غیرت کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے۔
- امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے اور عوام کو اس کے لیے تیار کیا جائے۔