ہمارا علمی و ثقافتی ورثہ ۔ انڈیا آفس لائبریری لندن

   
۱۶ ستمبر ۱۹۹۷ء

لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں پہلی بار ۱۹۸۵ء میں جانے کا اتفاق ہوا تھا جب میرے ایک انتہائی مشفق دوست ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم زندہ تھے۔ ارشد میر مرحوم پنجابی ادب کی جانی پہچانی شخصیت تھے اور ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے، وہاں ہم دونوں نے مشورہ کیا کہ انڈیا آفس لائبریری میں جانا چاہیے، چنانچہ ایک دن اس کام کے لیے فارغ کیا اور برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری چلے گئے۔ لائبریری میں سلیم قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی جو برٹش لائبریری کے جنوبی ایشیا کی زبانوں کے سیکشن انچارج تھے۔ انہوں نے ہمیں لائبریری کا ممبر شپ کارڈ بھی بنا کر دیا جو چار سال کے لیے تھا لیکن اس کے بعد اس کارڈ سے فائدہ اٹھانے کا موقع میسر نہیں آیا۔

اس سال پاکستان کے نامور خطاط اور معروف روحانی پیشوا حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہ صاحب نفیس رقم ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ آئے تو ان کی ترغیب او رتلقین پر انڈیا آفس لائبریری میں جانے کا ذوق ایک بار پھر بیدار ہوگیا۔ شاہ صاحب کا کتابی ذوق بہت عمدہ اور ان کے نام کی طرح نفیس ہے، نایاب کتابوں اور مخطوطات کی ٹوہ میں رہتے ہیں، انہیں حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال میں لاتے ہیں، اور پھر وہ کتابیں صرف ان کی لائبریری کی زینت نہیں بنتیں بلکہ مسلسل مطالعہ کے مراحل سے گزر کر قلب و ذہن کی گہرائیوں میں بھی محفوظ ہو جاتی ہیں۔ حضرات صوفیائے کرامؒ کے حالات اور تاریخ ان کے خصوصی مضامین ہیں۔ چنانچہ کسی مجلس میں انہیں ان کی دلچسپی کے کسی موضوع پر متوجہ کر دیں تو معلومات کا تذکرہ ایک خاص ترتیب سے شروع ہو جاتا ہے اور بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسانوں کی کسی محفل میں نہیں بلکہ کتابوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں حضرت شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انڈیا آفس لائبریری کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا چاہیے اور وہاں کے علمی ذخیرے سے استفادہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ چند دوستوں نے آپس میں مشورہ کیا اور ۲۹ اگست ۱۹۹۷ء کو ہم لائبریری جا پہنچے۔

انڈیا آفس لائبریری لندن اس وقت برٹش لائبریری کے ایک حصے کے طور پر کام کر رہی ہے اور اس میں برصغیر (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، اور برما) سے متعلق گزشتہ کئی صدیوں کا علمی ذخیرہ اور تاریخی ریکارڈ محفوظ ہے۔ جنوبی ایشیا کی زبانوں کے سیکشن کو اب بھی سلیم قریشی صاحب ہی ڈیل کر رہے ہیں، انہوں نے ہمیں لائبریری کے مختلف شعبے دکھائے اور بہت سی معلومات فراہم کیں۔ ہمارے وفد میں میرے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری، ختم نبوت سنٹر لندن کے انچارج الحاج عبد الرحمان باوا، جامعہ مسجد فنس بری پارک لندن کے خطیب مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری، اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے ہمارے دوست مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی شامل تھے۔

انڈیا آفس لائبریری میں سلطان ٹیپو شہیدؒ کا مکمل کتب خانہ منتقل کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد متحدہ ہندوستان کا جو علاقہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی تحویل میں آیا وہاں کے کتب خانوں اور ریکارڈ کو لندن بھجوا دیا گیا جو اس لائبریری میں موجود ہے۔ خود ایسٹ انڈیا کمپنی کا اپنا ریکارڈ اس کے قیام سے لے کر ۱۸۵۷ء تک یہاں محفوظ ہے۔ سلطان ٹیپو شہیدؒ کی لائبریری کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی لائبریری تھی، اس میں سے ایک کتاب سلیم قریشی صاحب نے ہمیں دکھائی جو دوسری ریاستوں کے ساتھ سلطان ٹیپو شہیدؒ کی خط و کتابت کے بارے میں ہے۔ ٹیپو شہیدؒ سرکاری طور پر جو خطوط لکھتے وہ اس کتاب میں نقل کرا لیتے تھے، ان میں سے بعض خطوط پر سلطان شہیدؒ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ انگریزی دور کا سرکاری ریکارڈ تمام کا تمام اس لائبریری میں موجود ہے۔ برصغیر میں فرنگی اقتدار کے دور میں جو کتابیں طبع ہوئیں ان سب کا ایک ایک نسخہ لائبریری میں محفوظ کیا گیا ہے اور جو کتابیں ضبط کی گئیں انہیں بھی تاریخ کے اس ریکارڈ میں محفوظ رکھا گیا ہے۔

انڈیا آفس لائبریری میں فارسی، اردو، عربی، سنسکرت، اور پنجابی سمیت برصغیر میں بولی اور لکھی جانے والی بیشتر زبانوں میں کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے اور محققین اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اہل تشیع کی فقہی کتاب ’’من یحضرہ الفقیہ‘‘ کا عربی نسخہ ہم نے دیکھا جس پر ۱۱۷۷ ہجری کا سن لکھا ہوا ہے۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر مرحوم کا نکاح نامہ بھی محفوظ ہے۔ اور سلیم قریشی صاحب نے ہمیں قرآن کریم کے دو نسخے بھی دکھائے جو قدیم ترین نسخے کہلاتے ہیں۔ ایک نسخہ چند سورتوں پر مشتمل ہے جس کے آخر میں درج ہے کہ اسے حضرت امام حسینؓ نے لکھا تھا۔ دوسرا نسخہ مکمل قرآن کریم کا ہے جس کے اختتام پر لکھا ہے ’’کتبہ عثمان بن عفان‘‘ کہ اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا ہے۔ یہ نسخہ مختلف حکمرانوں اور بادشاہوں کے پاس رہا ہے اور اس پر بادشاہ ہمایوں، جلال الدین اکبر، شاہ جہان کے علاوہ ایران کے صفوی حکمرانوں کی مہریں ثبت ہیں۔

سلیم قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ سرکاری ریکارڈ کے بارے میں قانون یہ ہے کہ اسے تیس سال کے بعد محققین اور مؤرخین کے استفادہ کے لیے اوپن کر دیا جاتا ہے لیکن بعض اہم امور کے بارے میں لائبریری کی انتظامیہ پابندی بھی لگا دیتی ہے۔ مثلاً خلافت کی تحریک کے بارے میں ریکارڈ تقریباً پون صدی کے بعد اب اوپن کیا گیا ہے جس پر مختلف اسکالرز کام کر رہے ہیں۔ سلیم قریشی صاحب نے اس سلسلہ میں ایک دلچسپ حقیقت کا انکشاف کیا کہ تحریک خلافت کے دوران تحریک کے قائد مولانا محمد علی جوہر مرحوم پر تحریک کے نام پر جمع ہونے والے اٹھارہ لاکھ روپے کے غبن کا الزام تھا جس کے بعد تحریک خلافت نے دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بارے میں ریکارڈ سے یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ اٹھارہ لاکھ روپے تحریک خلافت کے نام پر جمع ہوئے تھے جنہیں مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے سرکاری بینکوں میں اس خطرہ سے جمع نہیں کرایا تھا کہ ضبط کر لیے جائیں گے، بلکہ انہیں ایک مسلمان سرمایہ کار سیٹھ چھوٹانی مرحوم کے پرائیویٹ بینک میں جمع کروایا تھا۔ چنانچہ سرکاری طور پر سازش کی گئی اور مختلف بینکوں کو سیٹھ چھوٹانی کے ساتھ ایک بہت بڑے پراجیکٹ میں شریک کر کے وہ رقم وہاں لگوا دی گئی اور پھر اس پراجیکٹ کو اقتصادی طور پر ناکام کر کے رقم ڈبو دی گئی جس کے واپس نہ ملنے پر مولانا محمد علی جوہر مرحوم اس الزام کی زد میں آئے اور پھر تحریک خلافت بھی اس رقم کے ساتھ ہی ڈوب گئی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرنگی حکمرانوں نے اپنے خلاف تحریکوں کو ناکام بنانے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کیے تھے۔

انڈیا آفس لائبریری میں موجود تمام تر علمی ذخیرہ اور سرکاری ریکارڈ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ اب بھی قانونی طور پر بھارت، پاکستان، اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کی ملکیت ہے لیکن ملک کی تقسیم کے بعد ان کتابوں اور ریکارڈ کی تقسیم کا کوئی فارمولا طے نہ ہو سکا جس کی وجہ سے یہ علمی، ثقافتی، اور تاریخی وراثت ابھی تک برصغیر کے باشندوں کو واپس نہ مل سکی۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے، جب وہ بھارت کے وزیر تعلیم تھے، یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور پاکستان کی حکومت کے ساتھ گفت و شنید بھی کی تھی مگر تقسیم کے کسی فارمولے پر اتفاق نہ ہو سکنے کی وجہ سے صورتحال جوں کی توں رہی۔ اور اب بھی یہ عظیم ترین علمی ذخیرہ اور ریکارڈ برصغیر کی حکومتوں کی ملکیت ہونے کے باوجود سابق حکمرانوں ہی کے قبضے میں ہے اور برٹش لائبریری اسے کنٹرول کر رہی ہے۔

انڈیا آفس لائبریری کو دیکھنے کے بعد سب سے پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ یہ علمی ڈکیتی کی ایک افسوسناک شکل ہے کہ پورے برصغیر کو علمی وراثت سے محروم کر کے فرنگی حکمرانوں نے اس علمی ذخیرے کو اپنی جھولی میں ڈال لیا اور برصغیر کے باشندوں کے مال و دولت اور صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ ان کے علمی اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ لیکن میں معاملے کے صرف ایک پہلو کو نہیں دیکھتا بلکہ منفی کے ساتھ مثبت اور مثبت کے ساتھ منفی پہلو پر بھی توجہ دیا کرتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اپنے ساتھ جانے والے دوستوں سے کہا کہ ہمیں ایک بات پر اپنے انگریز حکمرانوں کا بہرحال شکرگزار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے ہمارے کتب خانوں کے ساتھ تاتاریوں والا سلوک نہیں کیا، ورنہ ہندوستان میں بھی بہت سے دریاؤں کا پانی سیاہ ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ہمارے کتب خانوں کو لوٹا تو سہی مگر اپنے پاس محفوظ کر لیا جو آج بھی محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ اگر ہمیں ان کی قدر و قیمت کا صحیح طور پر احساس ہو اور کچھ حمیت بھی جاگ جائے تو علم، ثقافت، اور تاریخ کا یہ عظیم ترین ذخیرہ اور ورثہ واپس لینا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ خدا کرے کہ یہ بات ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آجائے، آمین ثم آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter