مولانا مسرور نواز جھنگوی کی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی اور اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان دونوں اچھی اور حوصلہ افزا خبریں ہیں جن پر دینی حلقوں میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جھنگ کی صورتحال میں اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے جذبات بھی اس حوالہ سے یہی ہیں اور ہم اپنے عزیز محترم مولانا مسرور نواز کو مبارک باد دیتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔
موصوف کے ساتھ کوئی ملاقات تو یاد نہیں ہے مگر ان کے والد محترم حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے ساتھ ایک عرصہ تک ملاقاتیں اور دینی جدوجہد میں رفاقت رہی ہے۔ ہم دونوں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سرگرم حضرات میں سے تھے اور مختلف مراحل میں باہمی مشاورت اور رفاقت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ میں تقسیم ہوئی تو ہم دونوں بھی اس تقسیم کا شکار ہوئے۔ میں درخواستی گروپ کا فعال کردار تھا اور وہ فضل الرحمن گروپ میں متحرک تھے۔ دونوں ورکر تھے اور سیاسی بیانات کے علاوہ پبلک اجتماعات کے خطابات دونوں کا میدان کارزار تھا اس لیے آپس میں نوک جھونک بھی چلتی رہتی تھی۔ لیکن باہمی ملاقاتیں، مشاورت اور مختلف معاملات میں تعاون کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔
مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ نے جھنگ کی وڈیرہ سیاست کے خلاف محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے عقائد و مفادات کے تحفظ کا مورچہ سنبھالا تو ان کے موقف سے اصولی اتفاق رکھتے ہوئے بوقت ضرورت ان کو سپورٹ کرنے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوتی رہی۔ البتہ ان کے طریق کار سے خود کو کبھی متفق نہیں پا سکا اور اس کے اظہار میں بھی کبھی مجھے حجاب نہیں رہا۔ ان کے ساتھ میں نے بارہا اس سلسلہ میں گفتگو کی حتیٰ کہ ان کی شہادت کے روز اس سانحہ سے ایک گھنٹہ قبل بھی فون پر ان سے اسی حوالہ سے میری گفتگو ہوئی تھی جو ان کے ساتھ میری آخری گفتگو ثابت ہوئی۔ وہ سپاہ صحابہؓ کے نام سے نئی تنظیم قائم کرتے ہوئے بھی جمعیۃ علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے صوبائی نائب امیر تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ جمعیۃ علماء اسلام میں غیر متحرک ہوتے ہوئے اپنی قائم کردہ تنظیم کے لیے ہی وقف ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے دفاع صحابہؓ کے لیے ملک بھر کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے ذوق کے مطابق منظم کیا، پرجوش اور متحرک کیا، جذبہ و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور پھر اسی مشن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔
مولانا جھنگویؒ کی شہادت کے بعد کیا ہوا اور کیا ہوتا رہا، میں اس مرحلہ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں نے یہ ساری تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ان کے فرزند مولانا مسرور نواز جھنگوی نے جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا ہے تو کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ اپنے پرانے گھر میں ہی واپسی کی ہے۔ جبکہ جمعیۃ کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے بھتیجے کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا اصل میدان ملک میں نفاذ اسلام ہے۔ البتہ ایک دور میں جمعیۃ مسلکی معاملات بالخصوص سنی شیعہ کشمکش سے اس قدر لاتعلق نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت بظاہر دکھائی دے رہی ہے۔ بلکہ ان امور میں متعلقہ حلقوں کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ جمعیۃ کا اپنا بھی ایک موقف اور کردار ہوتا تھا اور وہ مسلکی محاذ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے حلقوں کے درمیان کوارڈینیشن اور سرپرستی کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھی۔ یہ پہلو جوں جوں دھیما پڑتا گیا مسلکی مسائل پر محنت کرنے والی جماعتیں خودمختار اور آزاد ہوتی چلی گئیں جس سے مسلکی حلقوں میں باہمی عدم تعاون بلکہ خلفشار کا ماحول پیدا ہوگیا۔ میرے خیال میں آج بھی اگر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اجتماعی دینی و ملی معاملات کے حوالہ سے تمام مذہبی مکاتب فکر کے درمیان جبکہ مسلکی مسائل کے حوالہ سے متعلقہ جماعتوں کے درمیان حقیقی اور عملی کوارڈینیٹر کا کردار سنبھال لے تو ملک بھر کے دینی حلقوں میں دن بدن بڑھتے چلے جانے والے خلفشار کی سنگینی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اہل سنت کے حقوق و مفادات اور صحابہ کرامؓ کی عظمت و مقام کے تحفظ کا محاذ ان میں سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے، اس لیے کہ اس دائرہ میں مستقبل کے خدشات و خطرات کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کے وسعت پذیر تغیرات پاکستان کی صورتحال پر براہ راست اثر انداز ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ میرے خیال میں یہ محاذ پہلے بھی جوش و خروش سے زیادہ حکمت و تدبر کا متقاضی تھا اور اب تو اس میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے حکمت و تدبر اور دانش و حوصلہ ہی واحد ذریعہ اور آپشن باقی رہ گیا ہے۔ اس پس منظر میں مولانا مسرور نواز جھنگوی کی اپنے پرانے گھر میں واپسی خوش آئند ہے اور یہ بات مزید خوش کن ہے کہ اس سارے عمل کو مولانا محمد احمد لدھیانوی کی سرپرستی حاصل ہے۔
ملک بھر میں مختلف دینی محاذوں پر کام کرنے والے دیوبندی علماء کرام اور کارکن اصل میں جمعیۃ علماء اسلام ہی کا اثاثہ ہیں جنہیں اپنا حقیقی اور قیمتی اثاثہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ دو طرفہ اعتماد اور تعلقات کار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن اور حضرت مولانا سمیع الحق مل بیٹھ کر اس کا راستہ نکالیں۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اگلے سال اپریل کے دوران صد سالہ تقریبات کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اگر اس سے قبل اس سلسلہ میں کوئی مشترکہ حکمت عملی اور روڈ میپ طے کیا جا سکے تو نہ صرف تقریبات کا لطف دوبالا ہو جائے گا بلکہ علماء اور کارکنوں کو بہت حوصلہ ملے گا۔ اس سے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر دین اور دینی حلقوں کے خلاف مصروف عمل سیکولر قوتوں کو مؤثر پیغام جائے گا اور علماء حق کا یہ قافلہ نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اگلی صدی کے سفر کا آغاز کر سکے گا۔
دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے عزیز بھتیجے مولانا مسرور نواز جھنگوی کو اس کارِ خیر کا نقطۂ آغاز بنا دیں اور اہل حق کو آج کے تقاضوں اور ضروریات کے ادراک کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔