(جامعۃ الرشید، اٹاوہ، گوجرانوالہ کے دورہ کے موقع پر گفتگو)
جامعۃ الرشید گوجرانوالہ کے کیمپس میں حاضری میرے لیے سعادت کی بات بھی ہے اور خوشی کی بات بھی۔ اس حوالے سے بھی کہ میں اپنے پرانے گھر میں آیا ہوں، اور اس حوالے سے بھی کہ میرا یہ گھر نئے گھر کی شکل میں تعلیمی ماحول میں بہت پیشرفت کر رہا ہے اور اس کے پروگرامات سے میں واقف رہتا ہوں اور خوش ہوتا رہتا ہوں۔ جامعۃ الرشید تعلیمی میدان میں جو بھی خدمات سرانجام دے رہا ہے یہ وقت کی ضرورت ہے اور ہمارے پرانے خوابوں کی تعبیر ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ تمام آزمائشوں سے بچاتے ہوئے ترقیات و برکات و ثمرات بہرہ ور فرمائیں۔
میں اس ادارہ کے بانیوں میں سے ہوں، جامعہ شاہ ولی اللہ کے نام سے ہم نے کئی سال یہاں تعلیمی کام کیا ہے، ہمارا کالج بھی تھا ہمارا، کئی کلاسوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے بھی کیا، بعض نے ایم اے بھی کیا۔ اس ادارہ کا نام ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ رکھنے سے پہلے ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ رکھا گیا تھا جو ریکارڈ پر بھی ہے۔ جامعہ نصرۃ العلوم کے مہتمم، میرے چچا محترم، حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ نہیں بھئی، یہ کام شاہ ولی اللہؒ کے نام سے کرو۔
لیکن جب ہماری انڈرسٹینڈنگ نہیں رہی تو ہم نے مشورہ کیا کہ کسی کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ہم میں سے کچھ کے ذہن میں تھا کہ محکمہ تعلیم کے حوالے کر دیں، کچھ نے کہا کہ کسی مدرسے کے حوالے کر دیں۔ تو اس وقت ہم مشورہ کے لیے گئے۔ میں نے سب سے پہلے جامعہ نصرۃ العلوم میں، جہاں میں صدر مدرس بھی ہوں اور ناظمِ تعلیمات بھی، ان کے ذمہ دار حضرات سے جو الفاظ میں نے کہے کہ اس وقت میری مٹھی میں ہے، آپ چاہتے ہیں تو آجائیں وہاں، ورنہ کسی اور کے حوالے کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نہیں کریں گے، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
پھر ہم نے کہا کہ مشورہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس وقت اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) کے صدر تھے۔ ہم اکٹھے ان کے پاس گئے۔ وہ ہماری مشاورت کا حصہ تھے اور کئی دفعہ تشریف لائے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ یہ معاملہ ہے، ہم کسی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں، تو ایک تاریخی جملہ انہوں نے کہا کہ: اگر آپ پیشکش لے کر آتے تو میرے پاس اختیارات بھی ہیں، میرے پاس وسائل بھی ہیں، میں چوبیس گھنٹے بھی تاخیر نہ کرتا، (لیکن) آپ مشورہ کرنے آئے ہیں اور مشورہ دیانت سے دینا چاہیے، یا آپ دارالعلوم کراچی کے حوالے کر دیں یا جامعۃ الرشید کے حوالے کر دیں، اور یہ بھی کہا کہ دارالعلوم والے نہیں لیں گے۔
یہ اس کا تاریخی پس منظر ہے، پھر ہم کراچی گئے۔ تو یہ میرا گھر ہے ’’ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستان میں‘‘۔ مجھے خوشی ہے کہ تعلیمی پروگرام، جو ہمارے خواب تھے، اس کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، اور دعاگو ہیں کہ اللہ پاک کامیابیوں سے اور ترقیات سے نوازیں۔