حضرت قاضی مظہر حسینؒ کا جملہ جس نے زندگی بدل دی

   
نامعلوم
نامعلوم

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ما شاء اللہ آپ حضرات کو یوں بیٹھا دیکھ کر مجھے ساٹھ سال پہلے کا وہ اپنا منظر سارا یاد آ گیا ہے۔ نصرۃ العلوم میں سب سے پہلے طلباء کی انجمن بنائی تھی، میں اس کا بانی ہوں۔ آج جمعرات ہے نا؟ جمعرات کو ہم اکٹھے ہوا کرتے تھے، تقریری مقابلے بھی کرتے تھے، تقریریں بھی کرتے تھے، مناظرے بھی کرتے تھے، اور سب کچھ کرتے تھے جو آپ لوگ کر رہے ہیں۔ تو یہ ’’بیماری‘‘ میری بڑی پرانی ہے کہ پہلی یونین بنی تھی اُس وقت۔ یہ جے ٹی آئی وغیرہ بہت بعد کی پیداوار ہیں، میں سن ۶۳ء کی بات کر رہا ہوں، آپ میں سے کون کون تھا؟ ساٹھ سال ہو گئے ہیں۔ یہ کام۔ مجھے وہ سارا منظر یاد آ گیا۔ ہم، کبھی کبھی کوئی بزرگ قابو آجاتا تھا، تو ان کو بٹھا لیتے تھے، حضرت! ہماری تقریریں سنیں۔ ہم تقریریں کیا کرتے تھے۔ اور ایک میں نے لطیفہ لکھا بھی ہے، کل کالم میں چھپا بھی ہے، وہ لطیفہ سنا کر آپ سے اجازت چاہوں گا۔

میرا وہ ابتدائی دور تھا، نصرۃ العلوم میں آیا تھا نیا نیا۔ ۶۲ء میں آیا تھا، ۶۳ء ۶۴ء کی بات کر رہا ہوں۔ انجمن ہم نے بنائی تھی۔ مولانا عطاء اللہ شاہ شیرازی ہمارے بھائی بھی تھے، اور یہ چمڑا منڈی، چمڑا سکول کے خطیب بھی رہے ہیں۔ وہ صدر تھے، میں سیکرٹری تھا۔ یہ سیکرٹری ہونا میری بڑی پرانی ’’بیماری‘‘ ہے، اس کا عادی مریض ہوں۔ تو میں اس وقت سیکرٹری تھا جمعیۃ طلبائے مدرسہ نصرۃ العلوم کا۔ تو حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ بزرگوں کی صحبت، بزرگوں کی صحبت ہوتی ہے۔ لطیفہ سمجھ لیں، واقعہ سمجھ لیں۔ میں نے دو تین سال الحمد للہ وہ دور صاحبزادگی میں ایسا گزارا ہے کہ میرا لباس عام درزی نہیں سی سکتا تھا۔ کبھی میں نے استری کیے بغیر رومال کندھے پہ نہیں رکھا تھا۔ کبھی وہ سنہری چشمہ آنکھ سے نہیں دور کیا کرتا تھا۔ قراقلی پہنتا تھا۔ اور جناب پتہ چلتا تھا کہ صاحبزادہ صاحب۔ ہاتھ میں چھڑی ہوتی تھی۔ دور سے پتہ لگتا تھا کہ صاحبزادہ صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ وہ دور ہمارا آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ ترنم کے ساتھ کانوں پہ ہاتھ رکھ کے میں آدھا آدھا گھنٹہ تقریر کیا کرتا تھا۔ بعض دیہاتوں والے اب بھی کہتے ہیں ’’یار او تقریر سنا، او جیڑی…‘‘۔

خیر، حضرت قاضی صاحبؒ تشریف لائے۔ کبھی کبھی لاتے تھے تشریف۔ تو ہمارا اسی طرح کا ایک عنوان تھا ’’شیخ الہندؒ اور تحریکِ آزادی‘‘۔ یہ ہمارا عنوان تھا اور مقابلے پہ تقریریں تھیں۔ اس میں میں نے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تحریکِ آزادی کے ذوق پر کوئی پندرہ بیس منٹ تقریر کی۔ اسی کیفیت میں، صاحبزادگی میں۔ تو حضرت قاضی صاحبؒ کی خدمت میں۔ مہمان خانے میں خدمت میرے ذمے ہوتی تھی۔ تو صبح ناشتے میں بیٹھا تو حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں:

’’بیٹا! رات آپ نے بہت اچھی تقریر کی ہے، مطلب یہ ہے آپ نے شیخ الہندؒ کو پڑھا ہے، تو مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے‘‘۔

قاضی صاحبؒ مہمانِ خصوصی تھے ہمارے۔ ایک جملہ کہا قاضی صاحبؒ نے۔ اللہ اکبر کبیرا۔ ایک جملہ کہا، میری کیفیت دیکھ کے نا۔

’’بیٹا! شیخ الہندؒ ایسے نہیں تھے‘‘۔

ایک جملہ، اللہ والے کا جملہ تھا۔ میں ایمانداری کے ساتھ، مسجد میں کھڑا ہوں۔ وہ دن اور آج کا دن۔ سب صاحبزادگی گئی، ایسے گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ جاتا ہے۔ آج تک کبھی صاحبزادگی کا ذوق نہیں پیدا ہوا۔ گھر والے کپڑے استری کر دیتے ہیں، کبھی میرا تقاضا نہیں ہوا۔ اور اب میں آپ کے سامنے ہوں۔

اس لیے میں صرف ایک نصیحت کروں گا۔ ٹھیک ہے سارے کام کریں، لیکن اللہ والوں کی نگرانی میں، بزرگوں کی نگرانی میں۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا، یہ بہت بڑی نعمت ہے جو ہمیں میسر ہے ابھی تک۔ ہمیں ابھی تک میسر ہے۔ اللہ پاک، جو بزرگ اس وقت موجود ہیں، ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے۔ آپ حضرات کے اِس ذوق میں۔ یہ مشق ہے، یہ آپ کو مشق کام آئے گی۔ میں بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ وہ آٹھ سات سال جو ہم نے مشق کی تھی نا، اپنے بزرگوں کی رہنمائی میں، وہ مشق ہی آج کام آ رہی ہے۔ آپ اس کو ویسے ہی شوق سمجھ کے نہ کریں، ضرورت سمجھ کے کریں کہ آپ کی ضرورت ہے، امت کی ضرورت ہے، دین کی ضرورت ہے، جماعتوں کی ضرورت ہے۔ دین کی ضرورت سمجھ کے، اپنی ضرورت سمجھ کے، اچھے سلیقے کے ساتھ یہ فن سیکھیں، لکھنے کا بھی، بولنے کا بھی۔ یہی آپ کے کام آئے گا۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

2016ء سے
Flag Counter