بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تنظیم اسلامی کے قائدین بالخصوص محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور حافظ عاکف سعید صاحب کا شکرگزار ہوں کہ آپ حضرات کے ساتھ اس ملاقات میں مجھے بھی شرکت کا شرف بخشا۔ ’’نفاذِ شریعت: کیا، کیوں اور کیسے؟‘‘ اس پر مختصراً چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
(۱) ’’کیا‘‘ کی بات تو واضح ہے۔ شریعت کیا ہے؟ قرآن پاک، سنتِ رسول، خلافتِ راشدہ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرامؓ نے جو معاشرت کا، اسلامی معاشرت کا اور اسلامی حکومت کا اور اسلامی ریاست کا جو تصور دیا ہے، وہ ہمارے ہاں شریعت ہے۔ اور اس کا موجودہ، آج کے دور میں یہ سوال ہوتا ہے کہ شریعت تو سب لوگ کہتے ہیں، آپ کا ویژن کیا ہے؟ شریعت سے کیا مراد؟ آج کے دور میں آپ کی شریعت سے کیا مراد ہے؟ تو میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم نے گزشتہ ساٹھ سال میں اس پر جو ہوم ورک کیا ہے، علماء نے اجتماعی طور پر (۱) قراردادِ مقاصد (۲) علماء کے بائیس نکات (۳) سن ۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات (۴) اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات۔ مجموعی طور پر، بعض تحفظات کے باوجود۔ میرے نزدیک شریعت کا پاکستان میں ویژن یہ ہے۔ جس پر پاکستان کے جمہور علماء امت کا اجماع ہے، تمام مکاتبِ فکر کا اجماع ہے، تمام متفق ہیں۔ اور یہی ویژن پاکستان کے لیے قابلِ عمل بھی ہے اور پیشرفت کی پوزیشن بھی رکھتا ہے۔ میں پھر دہرا دوں گا: قراردادِ مقاصد، علماء کے بائیس نکات، ۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات، اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، مجموعی طور پر۔ اسی کے لیے ہم ساٹھ سال سے کام کر رہے ہیں اور اسی کی طرف آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
(۲) دوسری بات، کیوں؟ ’’کیوں‘‘ میں پہلی بات یہ کروں گا کہ ہم مسلمان ہیں، قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں، ہماری ایمانیات کا تقاضا ہے، جب ہم ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پڑھتے ہیں، اس کے بنیادی تقاضوں میں یہ بات ہے کہ ہماری شخصی زندگی، انفرادی زندگی، خاندانی زندگی، سوسائٹی کی زندگی، اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ تو ’’کیوں‘‘ کا پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور بحیثیت مسلمان ہم پابند ہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات کو شریعت کے مطابق بنائیں۔
دو، اس لیے بھی کہ یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پہ بنا ہے۔ ہم نے جب یہ ملک؛ آج سے پینسٹھ سال پہلے اس ملک کی تحریک چلائی تھی ہمارے بڑوں نے، تو ہم نے ایک واضح کمٹمنٹ کی تھی، اللہ کو بھی، عوام کو بھی۔ اللہ پاک سے ہم نے کہا تھا، یا اللہ! ایک ملک دے دے۔ اللہ پاک نے دیا۔ اور ہمارے ہاتھوں میں قرآن تھا۔ جب ہم پبلک جلسے میں پاکستان کی بات کرتے تھے تو ہمارے ہاتھ میں قرآن پاک ہوتا تھا اور شاید ایک موقع پر بخاری شریف بھی ایک ہاتھ میں تھی، کہ ہم یہاں یہ نافذ کریں گے، تو ہماری کمٹمنٹ ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی، قوم کے ساتھ بھی اور اللہ کے ساتھ بھی، ہماری کمٹمنٹ ہے کہ ہم پاکستان میں قرآن و سنت کا نظام نافذ کریں گے، شریعت نافذ کریں گے۔
’’کیوں‘‘ کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری ضرورت بھی ہے۔ میں اس کی تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے؛ اس وقت ہمارے ملک میں جو قانونی اور عدالتی صورتحال ہے، آج بھی ہمارے چیف جسٹس صاحب چیخ رہے ہیں، عدالتی صورتحال پر اور مقدمات کی بھرمار پر اور کرپشن پر۔ یہ ہماری ضرورت بھی ہے، ہمارے قانونی عدالتی مسائل اور جرائم کے کنٹرول اور کرپشن کے خاتمہ اور تمام مسائل کے حل کے لیے، اس کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کہ ہم شریعت نافذ کریں۔
میں ایک چھوٹا سا حوالہ دینا چاہوں گا۔ ہماری وزارتِ قانون کافی عرصے سے اس پہ لگی ہوئی ہے۔ اور آپ کو یاد ہو گا، آپ نے خبریں پڑھی ہوں گی کہ وزارتِ قانون نے آج سے کچھ چند ماہ پہلے یہ تجویز دی تھی کہ ملک میں مقدمات کی بھرمار ہو رہی ہے اور عدالتوں پر بوجھ بہت زیادہ ہے اور وہ سمٹ نہیں رہا۔ بارہ لاکھ دیوانی مقدمات اور آٹھ لاکھ فوجداری مقدمات صرف پنجاب میں ہیں۔ وزارتِ قانون کی باضابطہ رپورٹ کے مطابق۔ بارہ لاکھ دیوانی اور آٹھ لاکھ فوجداری مقدمات صرف پنجاب میں ہیں۔ اور وزارتِ قانون نے اس کا حل یہ بتایا کہ جناب ایوننگ کورٹس شروع کی جائیں، شام کی عدالتیں لگائی جائیں۔ باقاعدہ تجویز آئی ہے اور وزارتِ قانون نے اجلاس کیا ہے تمام صوبوں کے لا سیکرٹریز کا، اور اس میں کہا کہ ایوننگ کورٹس قائم کی جائیں تاکہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو۔
میں نے اس پر عرض کیا تھا اُس وقت بھی اور آج بھی اس فورم کے حوالے سے ذمہ داری سے عرض کرتا ہوں کہ پاکستان کی عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے اور عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کے لیے ایوننگ کورٹس کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ نچلی سطح پر عوام کو، یہ ثالثی طرز پر، یا نچلی عدالتوں کی طرز پر، یہ شریعت کے قوانین پر لوگوں کو نچلی سطح پر عدالتیں مہیا کی جائیں اور شریعت کا نظام نافذ کیا جائے۔ جو آسان ہے، سادہ ہے، سہل الحصول ہے اور فری ہے۔ اس کے بغیر ہماری قانونی صورتحال بھی نہیں سمٹ سکتی۔
اور میں یہ عرض کرنا چاہوں گا، یہ سوات کے باقی تمام پہلوؤں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، نظامِ عدل ریگولیشن جو آیا ہے، نظامِ عدل ریگولیشن پر ہمارے صدر صاحب سے لے کر ایک صوبے کے وزیر تک یہ بات کہتے رہے ہیں؛ چلو اس کو بھی نظر انداز کر دیں کہ ہم شریعت نافذ نہیں کر رہے، عدل نافذ کر رہے ہیں، چلو اس جھگڑے کو چھوڑو۔ نظامِ عدل کیوں نافذ کر رہے ہیں؟ اس کی ریزن کیا ہے؟ کیا جواز دے رہے ہیں وہ؟ صدر صاحب سے لے کر ایک عام صوبے کے وزیر تک کیا جواز بتا رہے ہیں؟ کہ یہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ہم نے یہ کیا ہے۔ ہمارے صدر محترم نے یہی فرمایا، وزیر اعظم صاحب نے یہی فرمایا، وفاقی وزراء یہی کہہ رہے ہیں، صوبائی وزراء یہی کہہ رہے ہیں، کہ ہم نے کیوں کیا، کہ سستا اور فوری انصاف مہیا کیا جائے۔
گویا اس بات پر تو ہمارا اُن کا اتفاق ہے۔ میں یہ بالکل سنجیدگی کے ساتھ، گویا اس بات پر ہمارا ان کا اتفاق ہے کہ سستا اور فوری انصاف اگر مل سکتا ہے تو شرعی عدالتوں کے ذریعے مل سکتا ہے۔ آگے اختلاف یہ ہے کہ یہ صرف سوات والوں کا حق نہیں ہے، لاہور والوں کا بھی ہے، کراچی والوں کا بھی ہے، حیدرآباد والوں کا بھی ہے، کوئٹے والوں کا بھی ہے۔ اگر سستے اور فوری انصاف کا ذریعہ ان کے نزدیک بھی شرعی عدالتیں ہی ہیں تو پھر لاہور کا کیا قصور ہے؟ یہ پورے ملک میں؛ میں نے ’’کیوں‘‘ کی تیسری بات کی ہے۔
میں نے پہلی بات یہ عرض کی کہ ہم مسلمان ہیں، بحیثیت مسلمان اللہ رسول کے احکام کے پابند ہیں۔ ہم پاکستانی ہیں، ہم نے پاکستان کے قیام کے وقت کمٹمنٹ دے رکھی ہے، اللہ کو بھی اور عوام کو بھی، کہ یہاں شریعت نافذ کریں گے۔ اور یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہماری موجودہ صورتحال شرعی قوانین کے نفاذ کے بغیر کنٹرول میں آنے والی نہیں ہے۔
(۳) اور آخری نکتے کی طرف آؤں گا، کیسے؟ ’’کیسے‘‘ کے بارے میں بھی صاف طور پر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا، ہم نے پاکستان بننے کے بعد اجتماعی طور پر تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے یہ بات طے کی تھی کہ ہم یہاں نفاذِ شریعت کریں گے لیکن جمہوری طریقے سے، سیاسی طریقے سے، رائے عامہ کے ذریعے سے، پبلک کے ساتھ مل کر۔ اور اِس ملک میں ہتھیار اسلام کے لیے نہیں اٹھائے جائیں گے۔ اسلام کے لیے، نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہ ہم نے پہلے دی ہے، نہ آج دیتے ہیں، نہ آئندہ دیں گے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، مسلم ریاست ہے، اسلامی ریاست ہے اپنے قراردادِ مقاصد کی بنیاد پر۔ اور ایک اسلامی ریاست کے اندر کسی بھی مقصد کے لیے داخلی نظام کو چیلنج کرنا اور ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد، نہ کل ٹھیک تھی، نہ آج ٹھیک ہے، نہ آئندہ ٹھیک ہو گی۔
یہ ہمارا راستہ جمہوری راستہ ہے، ووٹ کا راستہ ہے، رائے عامہ کا راستہ ہے، اور پبلک قوت کے ذریعے۔ اس کی مثال موجود ہے، ہمارے پڑوس ایران کی مثال موجود ہے اور ہمارے ملک میں وکلاء کی مثال موجود ہے، کہ ہم نے پبلک قوت کے ذریعے، رائے عامہ کی قوت کے ذریعے، جمہوری قوت کے ذریعے یہ راستہ اختیار کیا تھا۔
لیکن اس کے ساتھ میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ساٹھ سال سے پاکستان میں نفاذِ شریعت کی بات سیاسی راستے سے آ رہی تھی۔ یہ تشدد کہاں سے آیا ہے؟ اس تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟ اس تشدد کی ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے ساٹھ سال سے شریعت کا راستہ روکا ہوا ہے۔ میں تشدد کو درست نہیں کہتا، جائز نہیں کہتا، اس کی حمایت نہیں کرتا، اس کی تائید نہیں کرتا، لیکن اس تشدد کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے ساٹھ سال سے شریعت کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اور اس کا ری ایکشن ہے یہ۔ یہ ہماری بیوروکریسی، ملٹری بیوروکریسی ہو، یا سول بیوروکریسی ہو، یا جاگیردار ہو، جو ہماری رولنگ کلاس ہے، اس رولنگ کلاس نے اسلام کے ساتھ، شریعت کے ساتھ، قرآن کے ساتھ، سنت کے ساتھ، ساٹھ سال سے جو منفی اور مضحکہ خیز طرزعمل اختیار کیا ہوا ہے، اس کا ری ایکشن ہے یہ تشدد۔ تشدد کرنے والے اگر مجرم ہیں تو تشدد کا راستہ دینے والے ان سے بڑے مجرم ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ میں آخری جملہ وہی کہوں گا، ہم پُر امن ذریعے سے، دستوری ذریعے سے، سیاسی ذریعے سے، رائے عامہ کی قوت سے، پبلک قوت سے، اس ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور ان شاء اللہ حاصل کریں گے۔ ان شاء اللہ یہ منزل ہم حاصل کریں گے۔ ہماری کمزوریاں ہیں، بہت سی کمزوریاں ہیں، میں اس طرف جاؤں گا تو لمبی بات ہو جائے گی، لیکن میں اسٹیبلشمنٹ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، آپ کے آج کے اس فورم کی مناسبت سے، اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرو، پہلے بھی تمہاری وجہ سے یہ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، اور آئندہ مزید ضد کرو گے تو یہ خرابیاں کم نہیں ہوں گی، زیادہ ہوں گی، اور ذمہ دار تم ہو گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

