جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سرگودھا کے جلسہ عام میں ارشاد فرمایا ہے کہ قادیانی مسئلہ حل ہو چکا ہے اور اس سلسلہ میں اب کچھ کرنا بھی باقی نہیں رہا۔ قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ نے ایک اخباری بیان میں اس دعویٰ کی تردید فرماتے ہوئے کہا ہے کہ اصولی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سوا ابھی تک کوئی عملی کاروائی نہیں کی گئی اور حکومت اس مسئلہ میں مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے۔
۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کے بعد سے اب تک کی صورتحال پر غور کیا جائے تو بھٹو صاحب کے اس بے جان دعوے کو جھٹلائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قادیانی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر نگاہ ڈالتے ہوئے بھٹو صاحب کے اس دعوے کا جائزہ لیں۔ جہاں تک قادیانی مسئلہ کا تعلق ہے، اسلامیان پاکستان اور خصوصاً مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے مطالبات اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل تھے۔
- قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
- انہیں کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے۔
- ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔
- قادیانیوں کی ملک دشمن سرگرمیوں کا محاسبہ کیا جائے۔
- خدام الاحمدیہ، فرقان فورس اور دیگر نیم فوجی قادیانی تنظیموں پر پابندی لگا کر اسلحہ ضبط کیا جائے۔
- ربوہ کے اوقاف پر ملکی قانون کا عملی اطلاق کیا جائے۔
لیکن عملی دنیا میں دیکھا جائے تو سوائے اس کے کہ صرف پہلے مطالبہ کو محض اصولی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، ان مطالبات کے ضمن میں اور کوئی عملی کاروائی نہیں ہوئی۔ بلکہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے عملی تقاضے بھی ابھی پورے نہیں کیے گئے۔ مثلاً
- رجسٹریشن کے کاغذات اور ووٹروں کی فہرستوں میں انہیں بطور غیر مسلم لکھنے کا حکم جاری نہیں کیا گیا۔
- وہ قانوناً غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلامی شعائر و اصطلاحات مثلاً اذان، نماز، قرآن کریم، مسجد، امیر المؤمنین، خلیفہ وغیرہ کا استعمال حسب سابق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ اصطلاحات و شعائر صرف اسلام اور اہل اسلام کے لیے مخصوص ہیں۔
- آئین میں عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف تبلیغ کی کلی ممانعت کے باوجود قادیانی گروہ اسلام کے نام پر ملت اسلامیہ کے اجتماعی عقائد کے خلاف تبلیغ میں مصروف ہے اور ان کا لٹریچر جو سراسر ملت اسلامیہ کے لیے ناگوار اور دل آزار ہے، برابر طبع و تقسیم ہو رہا ہے۔
یہ تو حال ہے اس مطالبے کا جسے پارلیمنٹ نے اصولی طور پر تسلیم کر لیا ہے اور جس کے بارے میں صرف حکومت کے ذمہ کا کام باقی رہ گیا ہے۔ باقی رہے دوسرے مطالبات تو ان کا حال بھی واضح ہے۔
- قادیانیوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹانے کی بجائے نئے قادیانیوں کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ مثلاً حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ کی اطلاع کے مطابق ایبٹ آباد کے ایک معروف قادیانی عبد اللہ سعید کو حال ہی میں فوج میں جنرل بنایا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے محکموں میں بھی قادیانی حضرات ابھی تک کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں۔
- ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے کی بات بھی رسمی کاروائی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ چند رسمی اقدامات کے سوا ربوہ کو مسلمانوں کے لیے کھلا شہر بنانے کے سلسلہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور عملاً آج بھی قادیانیوں کے لیے ربوہ ’’مخصوص اور محفوظ اسٹیٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
- قادیانیوں کی ملک دشمن سازشوں کو بے نقاب کرنے اور ان کا محاسبہ کرنے کی بات بھی حکمرانوں کی توجہ کی منتظر ہے اور حال ہی میں سرحد کے وزیرداخلہ حیات محمد خان شیرپاؤ کی المناک موت کے بعد سرحد کے مبینہ طور پر قادیانی آئی جی پولیس میاں بشیر احمد کے تبادلہ اور معاً بعد فوری برطرفی کے پس منظر سے بھی قوم کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور اس امر کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
- قادیانیوں کی نیم فوجی تنظیمیں فرقان فورس اور خدام الاحمدیہ اسی طرح مسلح اور مصروف عمل ہیں۔ حکومت جو پختون زلمے جیسی محب وطن تنظیم کو گوارا کرنے پر تیار نہیں، خدام الاحمدیہ اور فرقان فورس کی مسلح سرگرمیوں پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
- قادیانیوں کے اندرون ملک اوقاف اور بیرون ملک ملکی زرمبادلہ کے ذریعے حاصل کی جانے والی جائیدادوں کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے اور ابھی تک اس سلسلہ میں پالیسی نہیں طے کی گئی۔
حتی کہ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے اعلان کے ساتھ بھٹو صاحب نے تحریک ختم نبوت کے کارکنوں کے خلاف قائم کیے گئے مقدمات واپس لینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی تشنۂ تکمیل ہے اور ملک بھر میں خصوصاً پنجاب میں ہزاروں کارکنوں کے خلاف مقدمات ابھی تک چل رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پولیس کے حکام کے اشارے پر تحریک کے دوران تحریک کے کارکنوں کے خلاف مقدمات عملاً فوجداری دفعات کے تحت درج کیے گئے ہیں اور اب ہر جگہ وہ یہ بہانے پیش کر رہے ہیں کہ یہ مقدمات سیاسی نہیں اس لیے بھٹو صاحب کے وعدے کے ضمن میں نہیں آتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تحریک ختم نبوت کے کارکنوں کے خلاف کم و بیش دو ہزار سے زائد مقدمات ابھی تک چل رہے ہیں۔
اس صورتحال میں بھٹو صاحب کا یہ کہنا کہاں تک بجا ہے کہ ’’قادیانی مسئلہ حل ہو چکا ہے اور اس سلسلہ میں کچھ کرنا باقی نہیں رہا؟‘‘