۸ اگست منگل کو مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ضلع بھر کے دیوبندی علماء اور سرگرم کارکنوں کا بھرپور کنونشن ہوا جس کی صدارت خانقاہ سراجیہ مجددیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم نے کی۔ کنونشن سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی اور دیگر سرکردہ زعماء نے خطاب کیا۔ ضلع گوجرانوالہ کے مختلف علاقوں سے شدید گرمی اور حبس کے باوجود کم و بیش دو ہزار کے لگ بھگ علماء کرام اور کارکنوں نے شرکت کی، جبکہ مقامی علماء کرام میں سے مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا داؤد احمد میواتی، مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا شاہنواز فاروقی، مولانا عبد الواحد رسول نگری، مولانا قاضی عطاء اللہ، مولانا حافظ محمد صدیق نقشبندی، مولانا سید غلام کبریا شاہ، حاجی عثمان عمر ہاشمی، چودھری بابر رضوان باجوہ، مولانا قاری حماد الزہراوی، مولانا افضال الحق کھٹانہ، مولانا محمد رفیق عابد علوی، مولانا قاری محمد یوسف عثمانی اور دیگر سرکردہ حضرات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
کنونشن کا اہتمام جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ حنفی دیوبندی ضلع گوجرانوالہ نے کیا او رجمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کی سرکردگی میں رابطہ کمیٹی نے ضلع کا تفصیلی دورہ کر کے احباب کو اس میں شرکت کے لیے تیار کیا۔ ان کے ساتھ اس محنت میں مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا عبید اللہ حیدری، مولانا محمد جواد قاسمی، مولانا شوکت منصور، مولانا زاہد اللہ اور دیگر حضرات مسلسل سرگرم رہے۔ جمعیۃ علماء اسلام (ف) کے مرکزی راہ نما سینیٹر حافظ حمد اللہ نے بھی کنونشن سے خطاب کے لیے آنا تھا لیکن وہ عین وقت پر کسی اچانک مصروفیت کے باعث نہ آسکے۔
کنونشن کے خطابات میں ملک کی عمومی صورتحال میں دینی حلقوں کی مشکلات اور ان کی جدوجہد کے تقاضوں پر اظہار خیال کیا گیا۔ دینی مدارس کی تعلیمی سرگرمیوں کو مختلف حوالوں سے محدود کرنے کی سرکاری پالیسی پر گفتگو ہوئی، تحریک پاکستان میں علماء کرام کے کردار اور قیام پاکستان کے نظریاتی مقاصد کا ذکر کیا گیا، اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں انٹرنیشنل اور لوکل اسٹیبلشمنٹ کے منفی رویہ کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود دینی مدارس اپنا تعلیمی اور معاشرتی کردار ادا کرتے رہیں گے، نفاذ اسلام کی جدوجہد جاری رہے گی، لادین قوتوں اور سیکولر حلقوں کی یلغار کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے گا، پاکستان کی سالمیت و استحکام اور نظریاتی و تہذیبی شناخت کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، اور وطن عزیز کے خلاف جاری اندرونی و بیرونی سازشوں کے سدباب کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اپنے تفصیلی اور اساسی خطاب میں مختلف اہم امور پر گفتگو کی اور علماء حق کے موقف و کردار کی وضاحت کی۔ ان کے خطاب کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
- علماء کرام اور اہل دین کو اپنی جدوجہد کا اصل ہدف او رموجودہ عالمی کشمکش کا بنیادی نکتہ سمجھنا چاہیے۔ ۱۹۶۱ء کے دوران جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں حضرت علامہ شمس الحق افغانیؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ آئندہ دینی حلقوں کا مقابلہ مسیحیت، یہودیت اور دیگر مذاہب سے نہیں بلکہ ’’مغربیت‘‘ سے ہوگا اور علماء کرام کو اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملت اسلامیہ کا مقابلہ مذاہب سے نہیں بلکہ مغربی فکر و فلسفہ سے ہے۔ اور مغربی فکر و فلسفہ، جس کی بنیاد کسی مذہب پر نہیں بلکہ مذاہب کی نفی پر ہے، اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف صف آراء ہے اور پوری دنیا میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کا راستہ روکنے کے لیے برسر پیکار ہے۔ مثال کے طور پر مغرب کا تقاضہ ہے کہ مرد کی مرد کے ساتھ شادی کو قانوناً تسلیم کیا جائے جو کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مغرب یہ کہتا ہے کہ مرد اور عورت کے شادی کے بغیر اکٹھا رہنے کو ان کا حق تسلیم کیا جائے جس کی کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں ہے۔ اس لیے بنیادی طور پر یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت ہمارا مقابلہ مذاہب کے ساتھ نہیں بلکہ مغربی فلسفہ اور نظام حیات سے ہے، چنانچہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی علمی و عملی محنت کو اس دائرے میں منظم کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ مغربیت صرف مغرب میں نہیں بلکہ دنیا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور عالم اسلام اور پاکستان میں بھی یہ ذہن اور اس کے لیے محنت موجود ہے، اس لیے مغربیت کو علاقائی حوالہ سے نہیں بلکہ فکر و فلسفہ اور نظام زندگی کے طور پر دیکھنا چاہیے اور ہمیں اپنے حلقوں میں بھی اس کے اثرات کا جائزہ لینا چاہیے۔
- اس وقت پوری دنیا میں مذہبی تعلیمات اور احکام و قوانین کے نفاذ و فروغ کی بات ہمارے دینی مدارس کر رہے ہیں، اس لیے وہی مغربی فلسفہ و نظام کے علمبرداروں کا سب سے بڑا ہدف اور نشانہ ہیں۔ دوسرے مذاہب مثلاً مسیحیت اور یہودیت کی مذہبی قیادتیں مغربی فلسفہ کے سامنے سپر اندز ہو چکی ہیں اور اس کے مقابلہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہیں، اس لیے دوسرے مذاہب کے مذہبی حلقوں سے مغربیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جبکہ اسلامی دینی مدارس اور مسلمانوں کے مذہبی حلقوں نے اس فلسفہ کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں پوری طرح ڈٹے ہوئے ہیں، چنانچہ وہی سب سے زیادہ نشانہ پر ہیں اور انہیں ختم یا محدود کرنے کے لیے ہر سطح پر سازشیں جاری ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارے ملک کی حکمران کلاس کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے کہ انہیں خود کچھ پتہ نہیں ہوتا، عالمی اداروں کی طرف سے جو حکم ملتا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر اس کی طرف چل پڑتی ہے۔ لیکن جب ان کے ساتھ میز پر دلیل او رمنطق کے ساتھ بات کی جائے تو خود ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی اور مذاکرات کی میز پر وہ ہر بار لاجواب ہوتے ہیں۔ ابھی حال میں ہی بعض قبائلی علاقوں میں یہ آرڈر جاری کیا گیا کہ کوئی طالب علم دینی تعلیم کے حصول کے لیے اپنی تحصیل سے باہر نہیں جا سکتا۔ ہم نے ان سے بات کی کہ ملک کا دستور کہتا ہے کہ پاکستان کا شناختی کارڈ رکھنے والا کوئی بھی شخص ملک کے کسی بھی حصے میں جا سکتا ہے اور رہائش، کاروبار اور تعلیم وغیرہ میں مصروف ہو سکتا ہے۔ جبکہ صاحب حیثیت خاندانوں کے بچے تو دوسرے ملکوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو ملک کے اندر ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ یہ تو ملک کے دستور و قانون اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور یہ آرڈر واپس لے لیا گیا۔
- پھر مدارس کے چندوں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ سرکاری اجازت کے بغیر قربانی کی کھالیں جمع نہ کی جائیں، حالانکہ یہ قانون صرف کالعدم تنظیموں کے لیے ہے جس کا اطلاق کسی جواز کے بغیر دینی مدارس پر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں یہ قانون لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سرکاری اجازت کے بغیر کوئی مدرسہ زکوٰۃ و صدقات وصول نہیں کر سکے گا۔ یہ قطعی طور پر غلط اور ناقابل قبول ہے۔ زکوٰۃ ہمارے دینی فرائض میں سے ہے اور اس میں قدغنیں لگانا دینی فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کرنا ہے۔ کل یہ کہہ دیا جائے گا کہ نماز پڑھنے کے لیے بھی کسی سرکاری محکمے سے این او سی لیا جائے۔ نماز اور زکوٰۃ دین میں ایک جیسے فرائض ہیں اور کسی دینی فرض میں کسی قسم کی رکاوٹ اور پابندی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
- ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج دنیا میں کسی بھی جدوجہد کا سب سے بڑا ہتھیار علم، دلیل اور عوامی رابطہ ہوتا ہے۔ آج مسلح جدوجہد کا دور نہیں ہے اس لیے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو علم میں مضبوطی پیدا کرنی چاہیے، مطالعہ اور تحقیق کا ذوق بڑھانا چاہیے، دلیل کے ساتھ بات کرنے اور منوانے کا فن سیکھنا چاہیے اور عوام کے ساتھ رابطہ کو وسیع تر کرنا چاہیے۔ آج کے دور میں مؤثر ہتھیار یہی ہیں جن کو پوری مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ دلیل، علم اور منطق کی بات سمجھیں گے اور ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جو دینی حلقوں کو احتجاج و مزاحمت کے راستے پر ڈالنے کا باعث بن جائے۔ ہم پر امن طریقہ سے جدوجہد کر رہے ہیں مگر ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم احتجاج اور مزاحمت کے ہتھیاروں کا استعمال بھی اچھی طرح جانتے ہیں، ہمیں یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور ہمارے موقف اور مطالبات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے پرمغز خطاب کے بعد حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم کی پرسوز دعا کے ساتھ یہ کنونشن اختتام پذیر ہوا۔