ہاشمی سلطنت کا قیام ۔ نئی امریکی سازش

   
۲۱ اکتوبر ۲۰۰۲ء

لندن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ نوائے وقت نے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں ایک رپورٹ کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے عراق پر متوقع حملہ کے بعد سرے سے عراق کی ریاست کو ختم کر کے اسے اردن میں ضمن کرنے کے پلان پر غور شروع کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں امریکی ماہرین منصوبے کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مجوزہ پلان یہ ہے کہ عراق اور اردن کو ملا کر ایک علیحدہ سلطنت تشکیل دی جائے گی جس پر اردن کے شاہ عبد اللہ کی قیادت میں ہاشمی خاندان حکومت کرے گا اور اس نئے مجوزہ ملک کا دارالحکومت عمان ہوگا۔

امریکہ میں حکمت عملی تیار کرنے والے ادارے ’’اسٹراٹ فور‘‘ کا کہنا ہے کہ امریکا کی جنگ کے بعد عراق میں استحکام قائم کرنے کی غرض سے ہاشمی سلطنت کی حمایت میں اردن اور عراق کو متحد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز عنقریب ہونے والا ہے اور واشنگٹن اور مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی تیار کرنے والے ماہرین متوقع امریکی فتح پر نئی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں جو طویل مدت کے لیے فائدہ مند ہو، ان فوائد میں سنی عربوں کی اکثریت والے مرکز عراق کو اردن میں شامل کر کے ہاشمی سلطنت کی تشکیل کی تجویز بھی ہے۔ یہ منصوبہ امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی کے ذریعے تیار کیا گیا ہے جس پر ماہ جولائی میں لندن میں امریکہ کی حامی عراقی سنی اپوزیشن کے ارکان اور اردن کے ولی عہد شہزادہ حسن کے درمیان غیر معمولی اجلاس میں صلاح مشورہ ہوا تھا۔

اس تجویز کے مطابق عراق کے سنی عرب عوام اردن کے شاہ عبد اللہ سے درخواست کریں گے کہ وہ عراق کا اقتدار سنبھال لیں۔ اس درخواست کی بنیاد اس بات پر ہوگی کہ ۱۹۵۸ء میں عراق کے بادشاہ شاہ فیصل دوم کا تختہ الٹ کر کرنل عبد الکریم قاسم نے اقتدار سنبھال لیا تھا، یہ شاہ فیصل اردن کے شاہ عبد اللہ کے چچا لگتے تھےاور دونوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے جو ہاشمی خاندان کہلاتا ہے اور اسی حوالہ سے عربوں پر حکمرانی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر عراق کے خلاف طاقت استعمال کر کے صدر صدام حسین کو ان کے منصب سے ہٹا دیا جائے تو بھی عراق پر امریکہ کے طویل المیعاد کنٹرول کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ عراق میں مغرب کے سنیوں اور مشرق میں بسنے والے شیعہ کے درمیان تصادم اور خانہ جنگی کی کیفیت رہے گی اور امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی بجائے اس میں الجھا رہے گا۔ چونکہ امریکہ کا اصل مقصد تیل کے چشموں کا کنٹرول حاصل کرنا ہے جو تصادم اور خانہ جنگی کی فضا میں مشکوک رہے گا اس لیے اس مسئلہ کا حل یہ نکالا جا رہا ہے کہ سنی اکثریت رکھنے والے مغربی اور مرکزی عراق کو اردن کے ساتھ ملا کر ’’ہاشمی سلطنت‘‘ بنا دی جائے اور اس پر شاہ عبد اللہ کے خاندان کا حق حکمرانی تسلیم کر لیا جائے جو اب تک مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا وفادار خاندان چلا آرہا ہے اور امریکی ماہرین کو آئندہ بھی اس خاندان کی وفاداری پر مکمل اعتماد ہے۔

امریکہ کا یہ مجوزہ منصوبہ قابل عمل ہے یا نہیں اور اس کے عالمی اور علاقائی سطح پر کیا اثرات نمودار ہوں گے، اس سے قطع نظر ہاشمی خاندان کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ اس منصوبے کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ یہ ہاشمی خاندان شریف مکہ حسین کا خاندان ہے جو خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں عثمانی سلطنت کی طرف سے مکہ مکرمہ کا حکمران تھا۔ خلافت عثمانیہ کا دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول) تھا اور حجاز مقدس اس کا ایک صوبہ تھا۔ جبکہ حسین مذکورہ مکہ مکرمہ کا گورنر تھا، اسے شریف مکہ کہا جاتا تھا اور وہ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے کے لیے انگریزوں نے ان صاحب کو آلہ کار بنا کر ان سے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کرایا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ہاشمی ہیں، آل رسولؐ ہیں اور اسلامی احکام میں خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط کو ضروری قرار دیا گیا ہے، جبکہ ترکی خلفاء قریشی اور عربی نہیں بلکہ عجمی ہیں اس لیے وہ خلافت کی اہلیت نہیں رکھتے، ان کی بجائے اگر حسین شریف مکہ خلافت کا دعویٰ کر یں تو ہاشمی ہونے کی وجہ سے ان کا دعویٰ اہل اسلام کے لیے زیادہ قابل توجہ ہوگا اور مکہ مکرمہ کو دارالحکومت بنانے سے اس خلافت کی مخالفت کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔

ترکی کے عثمانی خلفاء صدیوں سے خلافت کا منصب سنبھالے ہوئے تھے اور عالم اسلام کے غالب حصہ میں انہیں امیر المؤمنین او رخلیفۃ المسلمین کے طور پر یاد کیا جاتا تھا حتیٰ کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس تینوں مقدس مقامات میں ان کے نام سے خطبہ پڑھا جا رہا تھا لیکن وہ قریشی نہیں تھے۔ اس لیے انگریزوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف ایک شرعی ہتھیار مل گیا چنانچہ خلفاء کے خلاف مذکورہ اعتراض کے علاوہ بہت سے دیگر الزامات کے ساتھ ایک فتویٰ تیار کیا گیا کہ عثمانی خلفاء خلافت کی اہلیت نہیں رکھتے اس لیے انہیں معزول کرنا شرعاً ضروری ہے۔

یہ وہ دور تھا جب متحدہ ہندوستان میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلح بغاوت کی تیاریاں جاری تھیں، بغاوت کی اس تحریک کے لیڈر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی خلافت عثمانیہ کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے خلافت کے حکام سے بات چیت کے لیے حجاز مقدس پہنچے ہوئے تھے اور عثمانی وزیر جنگ جمال پاشا سے ان کی ملاقات ہو چکی تھی۔ ادھر حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے ساتھی خلافت عثمانیہ کے تعاون سے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی تیاریاں کر رہے تھے اور ادھر شریف مکہ حسین انگریزوں کی مدد سے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کے منصوبہ کو آخری شکل دے رہے تھے۔ اس دوران مذکورہ فتویٰ سامنے آگیا جس پر دستخط کرنے کے لیے حضرت شیخ الہندؒ سے بھی کہا گیا مگر انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ اسی انکار کی وجہ سے شریف مکہ نے حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے رفقاء کو گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا جس کے بعد وہ جزیرہ مالٹا میں کم و بیش پونے چار سال تک قید رہے۔

اس پس منظر میں شریف مکہ حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر کے ترکی فوجوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا۔ شریف مکہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ حجاز مقدس کو خلافت عثمانیہ کے دائرہ سے نکالنے میں کامیابی کی صورت میں اسے عرب سلطنت کا حکمران تسلیم کر لیا جائے گا اور ’’امیر المؤمنین‘‘ کے خطاب کے ساتھ اس کی حکومت کا اعلان کر دیا جائے گا۔ مگر بغاوت کامیاب ہونے کے بعد انگریزوں نے یہ وعدہ پورا کرنے سے انکار کر دیا بلکہ پوری عرب دنیا میں ہاشمی خاندان کی حکومت قائم کرنے سے قطع نظر خود حجاز مقدس پر بھی اس کی حکومت کا حق تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کی بجائے نجد کے حکمران خاندان آل سعود کو آگے کر کے سعودی عرب کے نام سے ایک نئی سلطنت قائم کر دی گئی۔ آل سعود کئی پشتوں سے نجد پر حکمران چلے آرہے تھے اور صدیوں سے خلافت عثمانیہ سے ان کی ’’آویزش‘‘ جاری تھی، انہوں نے کبھی خلافت عثمانیہ کی بالادستی قبول نہیں کی تھی بلکہ مسلسل اس کے خلاف حالت جنگ میں رہے تھے ، اسی وجہ سے ان کا حق اس خطہ پر زیادہ سمجھا گیا۔

شریف مکہ حسین صاحب کا حشر یہ ہوا کہ انہیں نظربند کر دیا گیا اور اسی حالت میں ان کی موت ہوئی۔ جبکہ ان کے فرزند کو فلسطین اور اردن کی ایک پٹی دے کر ’’المملکۃ الاردنیۃ الہاشمیۃ‘‘ کے نام سے ایک نئی سلطنت قائم کر دی گئی۔ اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ اسی خاندان کے چشم و چراغ اور مذکورہ حسین شریف مکہ کے پڑپوتے ہیں۔ جبکہ عراق میں اس خاندان کے شاہ فیصل دوم کا تختہ ۱۹۵۸ء میں الٹ کر جرنیلوں نے حکومت سنبھال لی اور موجودہ صدر صدام حسین عراق کی سیکولر فوج کی حکمرانی کے اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔

اس پس منظر میں اردن اور عراق کے ایک بڑے حصے کو ملا کر نئی ’’ہاشمی سلطنت‘‘ قائم کرنے کے مجوزہ امریکی منصوبے کو دیکھا جائے تو استعماری قوتوں کے داؤ پیچ اور ان کے مکر و فریب کے حملوں کو سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ کس طرح وہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اب اسی عراق کے قضیہ کو لے لیجئے، وہاں سنی شیعہ کشمکش موجود ہے اور اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے لیکن اس کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ جہاں عراق کے مرکزی حصے کو اپنے ایک وفادار خاندان کے حوالے کر دینا چاہتا ہے وہاں عراق کے سنیوں پر یہ احسان بھی رکھنا چاہتا ہے کہ انہیں شیعوں کے شور و شر اور مداخلت سے مستقل طور پر نجات دلائی جا رہی ہے۔ جبکہ سنی سلطنت اور آل رسولؐ کی حکمرانی کا تمغہ ان کے سر پر الگ سجے گا۔ اور کچھ بعید نہیں کہ اس نئی سنی اور ہاشمی سلطنت کو داخلی طور پر سعودی عرب کی طرح مذہبی رنگ دے کر ہاشمی حکمران کے سر پر امیر المؤمنین کا تاج بھی رکھ دیا جائے جس سے اس خاندان کے جد امجد شریف مکہ حسین کے ساتھ کیے گئے انگریزوں کے وعدہ کی تکمیل کی صورت بھی نکل آئے گی اور عالم اسلام میں ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کی بحالی کا نعرہ لگانے والوں کا منہ بند کرنے کا بہانہ بھی بن جائے گا کہ لو خلافت اسلامیہ قائم ہوگئی ہے اور امیر المؤمنین کی حکومت بن گئی ہے اور تم جس کام کے لیے اتنے عرصہ سے شور مچا رہے تھے وہ ہم نے کر دیا ہے۔

لیکن کیا امریکی منصوبہ ساز اس پلان کو خدانخواستہ عملی جامہ پہنا کر بھی عالم اسلام کے دینی حلقوں کو مکروفریب کے جال میں پھانسنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ورثاء کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ جنہوں نے پردادا کے مکر کے جال سے دھوکہ نہیں کھایا وہ پڑپوتے کے فریب کا شکار کیسے ہو سکتے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter