شام کا بحران

   
اگست ۲۰۱۲ء

شام کا بحران دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ شاید سامنے آ چکا ہو، مگر اب تک کی صورت حال کے پیش نظر یہ گزارش ہے کہ شام کی صورت حال کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ عرب ممالک میں آمر اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر تیونس، لیبیا اور مصر کے بعد شام میں بھی اپنی جولانیاں دکھا رہی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے جو بشار الاسد کی حکومت کے جبر اور تشدد کا شکار ہے اور سیکڑوں شامی شہری اس میں جاں بحق ہو چکے ہیں، لیکن اس کا ایک مذہبی پہلو ہے جس نے اس بحران کی شدت کو مزید دو آتشہ کر دیا ہے۔ وہ یہ کہ شام کے صدر بشار الاسد اور فوجی قیادت کی اکثریت کا تعلق نصیری فرقہ سے ہے جو اہل تشیع میں بھی انتہاپسند گروہ شمار ہوتا ہے اور جس کا عقیدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود خدا تھے جو انسانی شکل میں دنیا میں چند روز کے لیے تشریف لائے تھے۔

ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ان کے عقائد کیا ہیں، البتہ اس بحران کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کے لیے یہ ذکر شاید نامناسب نہیں ہوگا کہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دور حکومت میں بھی اب سے ربع صدی قبل یہ سانحہ پیش آیا تھا کہ اہل سنت کے مذہبی مرکز ’’حماۃ‘‘ کو ایک مرحلے میں بلڈوز کر دیا گیا تھا، کم و بیش دس ہزار علماء کرام اور کارکنوں نے اس سانحے میں جام شہادت نوش کیا تھا اور بہت سے علماء کرام جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے تھے جن میں ہمارے استاذ محترم الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ تعالیٰ بھی شامل ہیں جو اس وقت اخوان المسلمون شام کے رئیس تھے اور جلاوطن ہو کر سعودی عرب آ گئے تھے۔ اب بھی عوامی مظاہرین اور ان پر تشدد کرنے والی سرکاری فورسز کی تقسیم کا منظر یہی بیان کیا جاتا ہے اور گزشتہ روز جدہ میں ایئر پورٹ کے قریب مسجد عائشہؓ میں نماز مغرب کے دوران امام محترم سے شامی حکمرانوں کے خلاف ’’قنوت نازلہ‘‘ سن کر ہمیں اس پہلو کی شدت کا اندازہ ہوا۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شامی بھائیوں کو اس بحران میں سرخ روئی اور کامیابی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter