صدام حسین اور عرب قومیت

   
۴ جنوری ۲۰۰۷ء

عیدِ قربان پر سابق عراقی صدر صدام حسین امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی اَنا کی سولی پر لٹک گئے، اور اتحادیوں نے عید کے روز عراقی عوام اور امتِ مسلمہ کو صدام حسین کی لاش کا تحفہ دے کر ایک بار پھر دنیا کو بتا دیا کہ مسلم دنیا میں امریکہ کی ’’ون قطبی طاقت‘‘ کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے والوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، اور اتحادی جب چاہیں اپنے باغیوں کی گردن میں پھندا فٹ کر کے انہیں زندگی کے حق سے محروم کر سکتے ہیں۔

صدام حسین دنیا میں عرب نیشنلزم کے اس عنصر کے نمائندہ کے طور پر عراق کے حاکم بنے تھے جس نے مذہب بیزاری کے جلو میں عرب قومیت کا پرچم بلند کیا تھا اور بائیں بازو کے افکار کی بنیاد پر عراقی نیشنلزم کی نیو اٹھائی تھی۔ وہ بعث پارٹی کے رہنما تھے جو سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کے خلاف ہے بلکہ اجتماعی معاملات میں مذہب کے کردار کی نفی کو ضروری سمجھتی ہے۔ لیکن ان کی زندگی کا اختتام اس کیفیت میں ہوا کہ قرآن کریم ان کے ہاتھ میں تھا، انہوں نے پھانسی گھاٹ کی طرف جانے سے قبل نماز پڑھی اور جب پھانسی کے تختے کی طرف بڑھے تو اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے تختے پر کھڑے ہو گئے۔ پھر بعض خبروں کے مطابق انہوں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور جب جلاد نے ان کے گلے میں پھانسی کا پھندا فٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جہنم میں جاؤ‘‘ تو صدام حسین نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ ’’جنت میں جاؤں گا‘‘۔ اور پورے وقار کے ساتھ منہ پر ماسک پہننے سے انکار کرتے ہوئے تختہ دار پر جھول گئے۔ اس سے قبل انہوں نے دعائیہ جملہ کے طور پر یہ آخری الفاظ کہے کہ ’’عراق سلامت رہے اور فلسطین عربوں کا ہے‘‘۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اعتبار خاتمہ کا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی جو شخص جس حالت میں دنیا سے رخصت ہوتا ہے آخرت کے معاملات اسی حوالے سے طے پاتے ہیں۔ اس لیے صدام حسین کے آخری لمحات کی کیفیات کو دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انہیں سرخروئی حاصل ہوگی اور ان کی زندگی کے یہ آخری لمحات ان کے متنازعہ ماضی کا کفارہ بن جائیں گے۔ مجھے صدام حسین کی زندگی کے آخری لمحات دیکھ کر حجاج بن یوسف یاد آگیا، وہ بھی عراق کا حاکم تھا، اس نے بھی اہلِ دین کے خلاف ظلم و جبر کی انتہا کر دی تھی۔ اس نے سلطنت کے استحکام کو باقی ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے ہزاروں صالحین کو تہہ تیغ کر دیا تھا۔ اس نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر کے بیت اللہ پر سنگباری کی تھی اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت سعید بن جبیرؒ جیسے اساطینِ امت کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے۔ لیکن اس کے کھاتے میں بڑی بڑی نیکیاں بھی ہیں۔ سندھ کے راجہ داہر کے ہاتھوں چند مسلمان خواتین کی گرفتاری پر اسی نے غیرت کھا کر اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی قیادت میں لشکر تیار کیا تھا اور دمشق کی خلافت سے اس لشکر کی روانگی کی اجازت طلب کر کے اسے سندھ کی طرف روانہ کیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق قرآن کریم پر اعراب لگوانے کا کام بھی اسی کی نگرانی میں تکمیل تک پہنچا تھا جس کی وجہ سے غیر عربوں کے لیے قرآن کریم کی براہ راست تلاوت آسان ہو گئی۔

حجاج بن یوسف کی زندگی متضاد کارناموں کا مجموعہ ہے لیکن بعض حضرات نے اس کی زندگی کے آخری لمحات کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ مرض الموت میں اس کی بوڑھی ماں نے اسے اس کے مظالم یاد دلاتے ہوئے جب کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس منہ سے پیش ہوگا؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ ماں مجھے ڈراؤ نہیں، اللہ تعالیٰ تجھ سے کہیں زیادہ مہربان اور شفیق ہے۔ ایک بار میں نے ایک عوامی خطاب کے دوران حجاج بن یوسف کی وفات سے قبل کے لمحات اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت پر اس کا یہ یقین قدرے تفصیل سے بیان کیا تو ایک صاحب نے مجھ سے سوال کر دیا کہ اللہ تعالیٰ اگر حجاج بن یوسف کو بخش دیں گے تو ان ہزاروں مظلوموں کا کیا بنے گا جن کے بے گناہ خون سے اس نے اپنے ہاتھ رنگے تھے۔ میں نے بعض بزرگانِ دین کے حوالے سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو بخشنا چاہتے ہیں تو اس کے مظالم کا بدلہ کئی گنا اپنی طرف سے مظلوموں کو ادا کر کے اس کی بخشش کا اہتمام کر دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی کی کوئی ادا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدگی کا درجہ پا لے تو باقی مراحل اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے طے فرما دیتے ہیں، اور یہ نہ انصاف کے خلاف ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے۔

صدام حسین کی زندگی بھی ایسے ہی تضادات سے عبارت رہی ہے۔ وہ اصلاً اس عرب نیشنلزم کے علمبردار تھے جس کی بنیاد بعث پارٹی نے مذہب کی نفی پر رکھی تھی اور وہ عالمی سیاست میں بائیں بازو کی نظریاتی سیاست کی نمائندگی کرتے تھے۔ عرب نیشنلزم کی اٹھان ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کی صدیوں کی حکمرانی کے ردعمل کے طور پر عربوں کی آزادی کے تصور کے ساتھ ہوئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے والوں نے جس طرح ترکوں کو یہ سبق پڑھایا تھا کہ وہ یورپین ہیں اور بالاتر قوم ہیں، اس لیے ان کا عربوں کے نتھی رہنا ان کے روشن مستقبل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اسی طرح عربوں کو بھی اس دور میں یہ سبق پڑھایا گیا تھا کہ وہ عرب ہیں اور عجمیوں کا ان پر حکمران ہونا عربوں کی بالاتری کے منافی ہے، اس لیے انہیں ترکی کی خلافت عثمانیہ سے جلد از جلد نجات حاصل کر لینی چاہیے۔ اس ’’عرب نیشنلزم‘‘ کے مختلف پہلو اور متعدد جہات تھیں:

  1. ایک جہت مذہبی تھی جس کا اظہار خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر شریف مکہ سید حسین ہاشمی کی اس بغاوت کی صورت میں ہوا۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ ترکی والے عجمی ہیں اور ظالم ہیں انہیں خلافت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ خلیفۂ اسلام کے لیے قریشی ہونا شرط ہے اور غیر قریشی خلیفۂ اسلام نہیں ہو سکتا۔ اس لیے شریفِ مکہ حسین نے، جو قریشی اور ہاشمی تھے، برطانوی استعمار کے اس وعدے پر ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی کہ انہیں عرب دنیا کا خلیفہ تسلیم کر لیا جائے گا۔ لیکن جب بغاوت کامیاب ہوئی اور ترکوں کو سرزمین عرب سے نکال دیا گیا تو شریفِ مکہ کے بیٹوں کو عراق اور اردن کی حکمرانی دے کر سرزمین حجاز پر آلِ سعود کا خاندانی اقتدار تسلیم کر لیا گیا، جبکہ اسی شریفِ مکہ کے ایک بیٹے کو عراق کا حکمران بنا دیا گیا جس نے ہاشمی ہونے کے ناتے سے عراق کی جداگانہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
  2. لیکن عرب نیشنلزم کا دوسرا پہلو، جس کی بنیاد مذہب کی بجائے سیکولرازم پر تھی، اس نے انقلاب کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل عبد الکریم قاسم اور بعث پارٹی عرب قومیت کے اسی ونگ کی قیادت کر رہے تھے اور صدام حسین کے اقتدار کا آغاز بھی اسی حوالے سے ہوا تھا۔
  3. عرب قومیت کا ایک تیسرا رخ بھی تھا جو سعودی عرب کی مذہبی عرب قومیت اور بعث پارٹی کی سیکولر عرب قومیت، دونوں سے مختلف تھی۔ اس کی قیادت مصر کے جمال عبد الناصر کے ہاتھ میں تھی، جو نہ تو سعودی عرب کی طرح ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے تیار تھے، اور نہ ہی بعث پارٹی کی طرح مذہب کی نفی کرتے تھے۔

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عرب قومیت ان تین رخوں پر آگے بڑھتی رہی، آپس میں ایک دوسرے سے الجھتے بھی رہے، سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس کے کیمپوں میں تقسیم بھی رہے، اور بہت سے عرب ملکوں میں اس بنیاد پر تقسیم اور انقلابات بھی رونما ہوئے۔ لیکن ان تمام جھگڑوں کے باوجود عرب قومیت ان سب میں قدرِ مشترک چلی آرہی ہے اور ’’عرب لیگ‘‘ کے فورم پر آج بھی سب مل کر فیصلے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران میں مذہبی انقلاب کی کامیابی کے بعد عرب دنیا میں اس کے نفوذ اور رسوخ کے امکانات واضح ہونے لگے تو صدام حسین نے ایران کے ساتھ آٹھ سال تک مسلسل جنگ لڑ کر اس کا راستہ روک دیا۔ اس جنگ میں انہیں امریکہ کی پشت پناہی بھی حاصل تھی کہ امریکہ کے مستقبل کے ایجنڈے کے لیے یہ جنگ ضروری تھی۔ لیکن پوری عرب دنیا اس جنگ میں صدام حسین کے ساتھ تھی اور اس کے پس منظر میں یہی عرب قومیت کارفرما تھی جو ایک عجمی قوت کے عرب دنیا میں اثر و نفوذ کو روکنے کے لیے اس جنگ کو ناگزیر تصور کرتی تھی۔

صدام حسین کو ایران عراق جنگ میں دو حیثیتیں حاصل تھیں۔ ایک یہ کہ وہ عرب دنیا کو عجمی اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کی جنگ لڑ رہے تھے، اور دوسری یہ کہ وہ عرب دنیا میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کی تقسیم کے پس منظر میں اہلِ سنت کے مفادات کا تحفظ کر رہے تھے۔ اس لیے ان کی پھانسی کے ذریعے موت کو عرب دنیا میں سنی شیعہ کشمکش بلکہ خانہ جنگی کے آغاز کا الارم تصور کیا جا رہا ہے۔ اور بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس موقع پر انہیں پھانسی دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے سنی شیعہ کشمکش کو خانہ جنگی کے ہدف تک لے جانا مقصود ہے، جس کا دائرہ صرف عراق تک محدود نہیں رہے گا بلکہ کویت، بحرین، لبنان اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار پوری عرب دنیا کے اس میں ملوث ہونے کا امکان موجود ہے۔ اور عرب دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے مذہبی رجحانات سے اسرائیل کو محفوظ رکھنے اور امریکی مفادات کو بچانے کے لیے اس سے زیادہ کامیاب نسخہ کوئی نہیں ہے۔

بہرحال اس تناظر میں صدام حسین اپنے حصے کا کام سرانجام دے کر بارگاہ ایزدی میں پیش ہو چکے ہیں، ان کے بہت سے کاموں سے اختلاف بلکہ شدید اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی زندگی کا آخری حصہ بہرحال استعمار کے خلاف جرأت و استقامت اور حوصلہ و عزیمت سے عبارت ہے، اور اسی حوالے سے ہم بارگاہ خداوندی سے امیدوار ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں گے اور رحمتِ خداوندی انہیں اپنے سائے میں جگہ دے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter