امریکہ سے وطن واپسی اور مولانا نذیر احمدؒ کا سانحۂ ارتحال

   
۷ جولائی ۲۰۰۴ء

۴ جولائی کو رات ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ گھر پہنچا تو یہ غمناک خبر ملی کی شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد کا فیصل آباد میں انتقال ہو گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے، چند ماہ قبل احوال پرسی کے لیے ان کے ہاں حاضری ہوئی تھی، اس وقت طبیعت کچھ بہتر تھی مگر تقدیر الٰہی کے فیصلوں میں ہر شخص کا وقت مقرر ہے اور ہر ایک نے اپنے مقررہ وقت پر دنیا سے رخصت ہو جانا ہے۔ حضرت مولانا نذیر احمدؒ کا شمار ان چیدہ اور سرکردہ علماءکرام میں ہوتا تھا جنہوں نے زندگی بھر تعلیم وتدریس اور وعظ ونصیحت کا مشغلہ جاری رکھا اور اصلاح وارشاد کے ذریعہ ہزاروں افراد کو راہ حق پر لگایا۔ وہ تدریس وتعلیم کے ساتھ ساتھ سلوک واحسان کے میدان کے شہسوار بھی تھے اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اس عظیم روحانی سلسلہ سے وابستہ تھے جو جنوبی ایشیا کے اس خطے میں بلامبالغہ لاکھوں مسلمانوں کی اصلاح کا ذریعہ بنا ہے اور جس سے منسلک ہزاروں علماءکرام اور اہل اللہ مختلف ممالک میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اصلاح نفس اور سلوک واحسان کے شعبہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

حضرت مولانا نذیر احمدؒ کا قائم کردہ دینی ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ امدادیہ‘‘ نہ صر ف فیصل آباد بلکہ ملک بھر میں بڑے تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ ہزاروں علماءکرام نے ان سے کسب فیض کیا، وہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی خاص ذوق رکھتے تھے، اساتذہ کو تدریسی تجربات سے آگاہ کرتے اور کامیاب تدریس کے گر سکھاتے۔ نظم ونسق میں بھی ان کا ذوق اور طریق کار قابل تقلید تھا، کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور کام میں مزید آگے بڑھتے رہنے کے لیے ابھارتے تھے۔ مجھے ان کی شفقت اور دعاؤں سے ہمیشہ وافر حصہ ملتا رہا۔ جب ملاقات ہوتی دعاؤں سے نوازتے۔ گذشتہ سال جامعہ امدادیہ میں حاضری ہوئی تو حکم دیا کہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کو اپنی سند حدیث کے ساتھ ایک حدیث نبویؐ پڑھاؤں۔ میرے لیے یہ بات اعزاز کے ساتھ ساتھ امتحان اور آزمائش کا درجہ بھی رکھتی تھی، چنانچہ حکم کی تعمیل اور خصوصی دعاؤں سے شادکام ہوا۔ میرے مضامین میں کوئی بات زیادہ پسند آ جاتی تو اس کا ملاقات میں تذکرہ فرماتے اور حوصلہ بڑھاتے۔

مولانا نذیر احمدؒ ان بزرگوں میں سے تھے جن کے پاس میں کبھی کبھی بیٹری چارج کرنے کے لیے حاضر ہوا کرتا تھا۔ ان میں سے اکثر رخصت ہو گئے ہیں۔ چند ایک باقی ہیں جو چراغ سحری ہیں اور مجھے یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ خدا نخواستہ یہ بھی جلد رخصت ہو گئے تو میں قلب وذہن کے لیے حرارت حاصل کرنے کس ’’طور‘‘ پر جایا کروں گا! حضرت مولانا نذیر احمدؒ بلاشبہ آج کے دور میں پرانے بزرگوں اور اسلاف کی زندگی اور طور طریقوں کا نمونہ تھے۔ اب اس نمونہ اور طرز کے لوگ خال خال رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

اس سے قبل نیویارک میں گزرنے والے چار ایام کا تذکرہ گذشتہ کالم میں کر چکا ہوں البتہ ایک دو باتوں کا تذکرہ باقی ہے۔ ایک پاکستانی دوست نے جن کا نام لینا شاید مناسب نہ ہو، مجھے اپنا ایک دلچسپ قصہ سنایا جو امریکی معاشرت کے ایک رخ کی عکاسی کرتا ہے اور جسے دیکھ کر بہت سے مسلم خاندان پریشان ہو کر وطن واپسی کی باتیں سوچنے لگ جاتے ہیں، لیکن ایسا کرنا ان کے بس میں نہیں رہتا اور وہ بے بسی کے عالم میں آزاد امریکی معاشرت کے اس سنہرے پنجرے میں پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ مسلسل بیمار ہیں اور گھر کا کام کاج کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہے، جبکہ ان کی ایک نوجوان بیٹی ہے جو سکول میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ امریکہ میں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بچے اور بچیاں اپنے اخراجات کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں، اس لیے وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم ملازمت بھی کرتے ہیں تاکہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ان مسلم گھرانوں کے بچے بھی ملازمت کرنے لگ جاتے ہیں جن کے اخراجات کی کفالت عام طور پر ان کے والدین کرتے ہیں اور انہیں ملازمت کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی پس منظر میں سکولوں اور کالجوں کے بچے سالانہ تعطیلات میں مختلف اداروں میں عارضی ملازمت کرتے ہیں۔

مذکورہ دوست نے بتایا کہ اس سال سکولوں کی تعطیلات میں ان کی بچی نے ملازمت کی خواہش کا اظہار کیا تو باپ نے کہا کہ گھر میں ماں بیمار ہے، اس لیے ملازمت کرنے کی بجائے اس کا ہاتھ بٹاؤ اور تعطیلات کے دوران اسے سہارا دو۔ مگر بیٹی اس کام کے لیے اس شرط پر تیار ہوئی کہ اسے باقاعدہ ملازمت تصور کیا جائے اور اسے اس کام کا معاوضہ دیا جائے۔ چنانچہ باپ اور بیٹی میں باضابطہ طور پر ایک معاہدہ وجود میں آیا جو تحریر کیا گیا اور جس پر دونوں نے دستخط کیے۔ اس معاہدے میں کام کی تفصیلات بھی درج ہیں اور معاوضہ کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ وہ صاحب اب یہ سوچ رہے ہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس آ جائیں، مگر میں نے ان سے عرض کیا کہ ایسا کرنا ان کے بس میں نہیں ہو گا، کیونکہ گھر کا کوئی فرد ان کے ساتھ مستقل رہنے کے لیے پاکستان واپس جانے کو تیار نہیں ہو گا۔

دوسرا واقعہ بھی نیویارک میں رہنے والے ایک مسلمان کا ہے۔ ایک مسجد میں بیان کے لیے حاضر ہوا تو وہاں کے امام صاحب نے جو بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعارف ایک صاحب سے کرایا اور بتایا کہ یہ صاحب کئی دنوں سے مسجد میں پناہ لیے ہوئے ہیں، اس لیے کہ اپنے گھر میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے آٹھ نو سالہ بچے کو گھر میں قرآن کریم پڑھانا چاہتے تھے اور اسے خود تعلیم دے رہے تھے۔ ایک روز سبق یاد نہ ہونے یا تعلیم کی طرف توجہ نہ دینے پر انہوں نے اپنے بچے پر سختی کی اور ایک آدھ تھپڑ رسید کر دیا، جس پر ان کی بیوی نے فون پر پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس آئی اور یہ تحقیق کر کے کہ واقعی باپ نے بچے کو تھپڑ مارا ہے، باپ کو گرفتار کر کے لے گئی اور اسے اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ جب تک اس کی بیوی دوبارہ یہ لکھ کر نہیں دے گی کہ اسے اپنے خاوند سے کوئی شکایت نہیں رہی، اس وقت تک وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ امام صاحب نے بتایا کہ گھر کا کرایہ یہ شخص دیتا ہے، خرچہ یہ برداشت کرتا ہے، لیکن اسے خود اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور وہ اللہ کے گھر میں پناہ لیے ہوئے ہے۔

اس قسم کی باتیں ہم اکثر سنا کرتے تھے، مگر ان سے دوچار ہونے والے افراد کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان بے شمار خاندانوں پر ترس آیا جو ڈالر کی تلاش میں امریکا آتے ہیں اور پونڈ کی طلب میں برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ پھر ڈالر اور پونڈ کماتے بھی ہیں، لیکن جب ڈالر اور پونڈ کی ثقافت ان کے خاندانی ماحول میں جڑ پکڑنے لگتی ہے تو ان کے لیے حسرت کے ساتھ کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ جاتا۔

ان ممالک میں رہنے والے ایسے خاندان بھی ہیں جنہوں نے اپنے خاندانی ماحول کو اب تک اس ثقافت کے اثرات سے کافی حد تک بچایا ہوا ہے، لیکن ان کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے اور اس کے لیے انہیں جو قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں ان کی ایک الگ داستان ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق وہ خاندان جنہوں نے گھروں میں نماز روزے کا ماحول قائم رکھا ہوا ہے، جن کے ہاں قرآن کریم کی تعلیم کو روز مرہ ضروریات کا حصہ سمجھا جاتا ہے، جو اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم اہتمام کے ساتھ کراتے ہیں اور ان کا دینی تعلیمی اداروں کے ساتھ گہرا تعلق ہے وہ کسی حد تک مذکورہ بالا ماحول سے بچے ہوئے ہیں۔

اسی لیے نیویارک میں احباب کی ایک نشست میں جب یہ سوال کیا گیا کہ ہمیں یہاں رہتے ہوئے اپنے دین و اخلاق کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ تو میں نے عرض کیا کہ آپ لوگوں کی سب سے بڑی اور اولین ذمہ داری یہ ہے کہ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا قرآن و سنت کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق استوار کریں۔ کیونکہ مادر پدر آزادی کے اس ماحول میں وہی نوجوان خود کو گمراہی اور بے راہ روی سے بچا سکے گا جس کا تعلق قرآن و سنت کے ساتھ شعوری ہو گا۔ اپنے بچوں کو قرآن کریم عربی گرائمر اور ترجمہ کے ساتھ پڑھائیے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور احادیث کا مسلسل مطالعہ کرائیے اور اپنے ماضی بالخصوص حضرات صحابہ کرامؓ کے حالات و واقعات سے انہیں آگاہ کرتے رہیے۔ یہی ایک صورت ہے کہ آپ اپنی نئی نسل کے ایمان و اخلاق کا بچاؤ کر سکیں گے اور انہیں اپنے ماضی اور دین کے ساتھ وابستہ رکھ سکیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter