جنوبی افریقہ کے علماء کرام کی سرگرمیاں

   
۱۳ مئی ۱۹۹۸ء

جنوبی افریقہ کے ایک عالم دین مولانا ابراہیم سلیمان بھامجی گزشتہ ہفتے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر سے ملاقات کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے اور دو تین روز قیام کیا۔ اس دوران جہلم کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کی وفات پر ان کے جنازے میں شرکت کے لیے حضرت شیخ الحدیث کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا تو مولانا ابراہیم سلیمان بھامجی بھی رفیق سفر تھے۔ ان سے جنوبی افریقہ کے حالات اور وہاں مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور بہت سی معلومات حاصل ہوئیں جن کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مولانا ابراہیم کا تعلق گجرات (انڈیا) کے ایک خاندان سے ہے، ان کے پردادا نقل مکانی کر کے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے اور اس وقت سے یہ خاندان وہیں آباد ہے۔ مولانا ابراہیم کی پیدائش اور پرورش وہیں کی ہے البتہ انہوں نے درس نظامی کی تکمیل جامعہ علوم اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی میں کی ہے، جوہانسبرگ کے قریب ایک بستی میں ان کا قیام ہے جہاں وہ ’’بیت المحمود‘‘ کے نام سے دینی درسگاہ کے منتظم ہیں۔ یہ درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔ مولانا موصوف جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ کے ذمہ دار حضرات میں سے ہیں، مرکزی سیکرٹری کے منصب پر فائز ہیں اور فوت ہونے والے مسلمانوں کی تجہیز و تکفین کا شعبہ ان کے سپرد ہے۔ یہ شعبہ منظم طور پر کام کر رہا ہے جو فوت ہونے والے مسلمانوں کے کفن دفن کا انتظام کرتا ہے، صاحب حیثیت لوگوں سے اخراجات کی حد تک فیس لی جاتی ہے اور جو ادا نہیں کر سکتے ان کے اخراجات جمعیۃ علماء افریقہ کے فنڈ سے ادا کیے جاتے ہیں۔

انڈیا کے علاقے گجرات سے تعلق رکھنے والے مسلمان دنیا کے بہت سے خطوں میں آباد ہیں اور ان کے اس امتیاز کا مشاہدہ خود راقم الحروف نے امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت متعدد علاقوں میں کیا ہے کہ دینی ماحول کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مساجد کا قیام، ان میں بچوں کی دینی تعلیم کا اہتمام، اپنے بچوں کو عالم دین بنانے کی کوشش، گھروں میں دینی ماحول اور اپنی علاقائی روایات و اقدار کا تحفظ، علماء کرام سے وابستگی، دینی مدارس کے ساتھ بھرپور تعاون اور اجتماعی دینی معاملات میں دلچسپی جیسی خصوصیات کے باعث گجراتی مسلمانوں کے چند گھرانے بھی کہیں ہوں تو وہ پورے علاقے میں امتیازی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔

سونے اور ہیرے جواہرات کی دولت سے مالا مال اور سرسبز شاداب جنوبی افریقہ کی پینتالیس ملین کے لگ بھگ آبادی میں مولانا ابراہیم کے بقول تین ملین کے قریب مسلمان ہیں جن میں اکثریت گجراتی مسلمانوں کی ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ تجارت پیشہ ہیں مگر دولت کی فراوانی کے باوجود دین اور اہل دین سے تعلق بدستور قائم ہے اور دینی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے علماء کرام نے جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ کے نام سے ایک دینی تنظیم قائم کر رکھی ہے جو وہاں کی مسلم کمیونٹی کی راہنمائی اور قیادت کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ کی سرگرمیوں کے بارے میں وقتاً وقتاً معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں اور جمعیۃ کا انگلش آرگن ’’الجمعیۃ‘‘ وقتاً فوقتاً دیکھنے میں آتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تنظیم فی الواقع ’’جمعیۃ علماء‘‘ ہے جو مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے منظم طریقہ سے مصروف کار ہے۔

جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ کی سرگرمیوں کا بڑا میدان دینی تعلیم کا ہے کیونکہ جس ملک میں مسلمان اقلیت میں ہوں اور تعلیم کے سرکاری اداروں میں دینی علوم کی ضروریات پوری نہ ہو سکتی ہوں وہاں نئی پود کو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم سے بہرہ ور کرنا اور بچوں کی دینی تربیت کا اہتمام کرنا بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ مسلمان بچوں اور بچیوں کے لیے الگ اسکولوں کے اہتمام کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جن میں سرکاری نصاب کے ساتھ دینی ضروریات کو بھی سمو دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے چھ سال سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے پرائمری سکول قائم کیے گئے ہیں جن میں سرکاری نصاب کے طور پر انگریزی اور ڈچ زبانیں اور حساب کتاب اور جغرافیہ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کے ساتھ قرآن کریم ناظرہ، ابتدائی دینی مسائل اور عربی و اردو زبانوں کی تعلیم کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے مسلمان بچے کا دینی تعلیم کے ساتھ بنیادی تعلق قائم ہو جاتا ہے اور یہ استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عالم دین بننے کے لیے کسی بڑے دینی دارالعلوم میں داخل ہونا چاہے تو اس کے تعلیمی نظام میں ایڈجسٹ ہو سکے اور اگر عصری علوم کے لیے کالج کا رخ کرے تو ایک مسلمان کے طور پر اس کی بنیاد محفوظ ہو۔

دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جنوبی افریقہ میں بڑے بڑے دارالعلوم قائم ہیں اور ان کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے بڑے دینی مدارس کی طرف بھی بہت سے نوجوان اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے رجوع کرتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک منظم ورک کے طور پر ہو رہا ہے جس کا کریڈٹ بہرحال جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ کو جاتا ہے۔

جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ دعوت و تبلیغ کے محاذ پر بھی سرگرم ہے اور دینی اجتماعات، جمعہ کے خطاب اور جرائد و اخبارات کے علاوہ ایک مستقل ریڈیو اسٹیشن بھی اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کو دینی معلومات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن جمعیۃ کے نام پر تھا مگر اب اس کا لائسنس منسوخ ہوگیا ہے اور کسی اور نام سے اسے دوبارہ شڑوع کرنے کے لیے کام جاری ہے۔ مولانا ابراہیم بھامجی کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت باہر سے آکر آباد ہونے والوں کی ہے، مقامی مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ البتہ اب آزادی کے بعد مقامی آبادی میں اسلام کی بات سننے اور اسے سمجھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور جمعیۃ علماء اس صورتحال سے بھرپور استفادہ کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔

جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ سماجی خدمات کے محاذ پر بھی سرگرم عمل ہے اور معاشرہ کے نادار افراد کی کفالت کے ساتھ ساتھ جہاں بھی مسلمان کسی مشکل اور آفت کا شکار ہوتے ہیں جمعیۃ ان کی امداد کے لیے اپنے وسائل اور استطاعت کے مطابق اہتمام کرتی ہے، وغیر ذٰلک۔ (مضمون کا بقیہ ندارد)۔

   
2016ء سے
Flag Counter