قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے گزشتہ روز گکھڑ میں اخباری نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے ملکی مسائل پر سیر حاصل تبصرہ کیا جس کی مفصل رپورٹ آئندہ شمارے میں ہمارے وقائع نگار خصوصی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں گے۔ اس موقع پر آپ نے قومی پریس پر عائد پابندیوں کا بھی ذکر فرمایا اور اخبار نویسوں پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے صحیح رپورٹنگ کیا کریں اور محض حکومت کو خوش کرنے کے لیے سیاسی قائدین کے بیانات کو توڑ موڑ کر نہ پیش کریں۔ خیال تھا کہ شاید اس مجلس کی رپورٹنگ کے بارے میں ہی اخبار نویس کچھ ذمہ داری کا احساس کریں گے، مگر دوسرے روز روزنامہ امروز دیکھنے کا موقع ملا تو یہ توقع نقش بر آب ثابت ہوئی۔
نامہ نگار کے حوالہ سے امروز نے مفتی صاحب کی طرف یہ الفاظ منسوب کئے کہ
’’یہ ضروری نہیں کہ خلفاء راشدین کی پیروی کی جائے کیونکہ ملکی حالات کے مطابق اسلامی سیاسی نظام میں ردو بدل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
حالانکہ مفتی صاحب نے یہ الفاظ قطعاً نہیں فرمائے۔ قصہ صرف اتنا ہے کہ ایک نامہ نگار نے سوال کیا کہ اسلام وحدانی طرز حکومت چاہتا ہے یا وفاقی؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس کے بارے میں اسلام اجازت دیتا ہے کہ حالات کے تحت جو صورت مناسب ہو اختیار کر لی جائے۔ نامہ نگار نے پھر سوال کیا کہ اسلام کے سیاسی نظام میں حالات کے تحت ردوبدل ہو سکتا ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا، اسلام میں جو امور قطعی ہیں ان میں ردوبدل کی گنجائش نہیں لیکن جن امور میں اسلام نے کوئی قطعی حکم نہیں دیا ان میں حالات کے تحت جو صورت مناسب ہو اختیار کی جا سکتی ہے۔
اس کی وضاحت میں مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر سربراہ حکومت حضرت صدیق اکبرؓ یا حضرت عمرؓ جیسا عادل شخص ہو تو میں اس بات کی حمایت کروں گا کہ اس کو جتنے زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جا سکتے ہیں دیئے جائیں کیونکہ اس سے اختیارات کے غلط استعمال کی توقع نہیں۔ لیکن اگر حکومت کی باگ ڈور ایوب خان، یحییٰ خان اور بھٹو جیسے افراد کے ہاتھ میں ہو تو میں کہوں گا کہ ان کے اختیارات کو جس قدر ہو سکے محدود کر دو تاکہ یہ لوگوں پر ظلم نہ کر سکیں۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ مفتی صاحب کے ان ارشادات کو اس طرح توڑ موڑ کر پیش کیا گیا کہ اس کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ دراصل قومی پریس خصوصاً ٹرسٹ کے اخبارات کی ہم پر یہ کوئی نئی نوازش نہیں، اس سے قبل بھی ہمیشہ اپوزیشن خصوصاً جمعیۃ اور نیپ کے راہنماؤں کو بدنام کرنے کے لیے اس قسم کے حربے اختیار کئے گئے ہیں۔
ابھی حال ہی میں نوائے وقت نے، جو بظاہر اپوزیشن کا ترجمان کہلاتا ہے، لیاقت آباد کے نامہ نگار کے حوالہ سے ایک خبر میں کہا کہ مفتی صاحب اور عبد الولی خاں صاحب نے چشمہ میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ جبکہ گزشتہ اڑھائی برس سے مفتی صاحب چشمہ میں نہیں گئے۔
جس ملک میں قومی پریس کا یہ کردار ہو، اور اخبار نویس اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے مفادات کے چکر میں الجھ کر رہ جائیں، اور ان کا قلم حقائق و واقعات کی نقاب کشائی کرنے کی بجائے آمریت کی مدح سرائی اور حق گو قائدین کی کردار کشی کے لئے وقف ہو جائے، اس ملک میں جمہوری اقدار و روایات اور اسلامی اخلاق و آداب کی ترویج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
ہم صحافی بھائیوں سے مؤدبانہ گزارش کریں گے کہ کرسی پر کوئی ہمیشہ نہیں رہتا اور حق و صداقت کے اظہار کے بغیر آپ اپنی ذمہ داری سے عند اللہ و عند الناس سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ اس لئے اگر آپ حق کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں پاتے تو کم از کم جھوٹ اور بہتان تراشی سے تو پرہیز کریں۔