الحاج عبد الرحمان باوا تحفظ ختم نبوت کے محاذ کے سرگرم اور مشنری رہنما ہیں۔ پہلے برما میں قادیانیت کے خلاف مصروف عمل رہے، پھر مشرقی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا میدان بنایا، سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان آئے اور کراچی میں مجلس تحفظ ختم نبوت کو منظم کرنے میں دن رات ایک کر دیا۔ لندن میں ختم نبوت مرکز قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تو ان کا اور مولانا منظور احمد الحسینی کا انتخاب ہوا۔ دونوں نے مل کر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو برطانیہ میں منظم کیا اور اسٹاک ویل کے علاقہ میں ختم نبوت سنٹر کے قیام میں اپنی توانائیاں صرف کر دیں۔ اب کچھ عرصہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نظم سے ہٹ کر لندن کے ایسٹ ہیم کے علاقے میں اسلامک دعوہ کونسل کے نام سے مرکز قائم کیے ہوئے ہیں اور ختم نبوت اکیڈمی چلا رہے ہیں۔ ان کے بیٹے مولانا سہیل باوا ان کے معاون ہیں، شب و روز مصروف و متحرک رہتے ہیں اور کام وہی ہے: عقیدہ ختم نبوت کا پرچار اور قادیانیت کا تعاقب جو ان کے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے اور جس کے بغیر الحاج عبد الرحمان باوا کا شخصی تعارف بھی مکمل نہیں ہوتا۔
جب بھی لندن حاضر ہوتا ہوں ان کا اصرار ہوتا ہے کہ ان کے مرکز میں حاضری دوں اور ان کے کام میں تھوڑا بہت حصہ ضرور ڈالوں۔ مجھے بھی خوشی ہوتی ہے کہ ایک نیک کام میں شرکت ہو جاتی ہے۔ میری شرکت کی صورت انہوں نے یہ رکھی ہوئی ہے کہ انٹرنیٹ پر ایک حلقہ انہوں نے قائم کیا ہوا ہے جس میں وقتاً فوقتاً مجالس ہوتی ہیں، مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے دوست اس میں شریک ہوتے ہیں، ایک آدھ بیان ہوتا ہے، پھر سوال و جواب کی محفل ہوتی ہے اور اس طرح مختلف ممالک میں اپنے گھروں اور دفاتر میں بیٹھے ہوئے لوگ کسی موضوع پر ایک ’’انٹرنیشنل سیمینار‘‘ منعقد کر لیتے ہیں۔ مجھ سے ان کی فرمائش ہوتی ہے کہ ان کے اس پروگرام میں کبھی کبھار ضرور شریک ہوا کروں۔ گزشتہ سال لندن آیا تو اس قسم کی ایک محفل انہوں نے قائم کی جو میرا زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ اب پھر انہوں نے میری حاضری پر ایک محفل کا اعلان کر رکھا تھا جو ۲۷ مئی ۲۰۰۳ء کی شب کو منعقد ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ درجن بھر ممالک کے ستر کے قریب افراد اس میں شریک تھے۔ دوبئی، پیرس، کراچی اور دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے حضرات نے سوالات بھی کیے اور کم و بیش ایک گھنٹے تک یہ محفل چلتی رہی۔
باقاعدہ تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا، ایک صاحب نے کمپیئرنگ کی جو دوبئی میں بیٹھے ہوئے تھے، پیرس کے ایک صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کے ’’کارناموں‘‘ پر پنجابی میں دو نظمیں سنائیں جو ان کا اپنا کلام تھا، مجھے یوں محسوس ہوا کہ نصف صدی قبل کے ماحول میں شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں بیٹھا ہوں اور تحریک ختم نبوت کا کوئی جلسہ سن رہا ہوں۔ مجھ سے کہا گیا کہ مسلمانوں کی موجودہ عالمی صورتحال پر گفتگو کروں اور اس کے ساتھ قادیانیت کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں۔ میں نے اپنی مختصرًا گفتگو میں گزارش کی کہ میرے نزدیک یہ دو موضوع الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی موضوع کا حصہ ہیں۔ اس لیے کہ آج مسلمان دنیا بھر میں جس مقام پر پہنچے ہیں اور انہیں جس صورتحال کا سامنا ہے اس کے پس منظر میں قادیانیت کا بھی ایک کردار ہے اور مسلمانوں کو اس کیفیت تک پہنچانے میں قادیانیوں کا ایک مستقل رول ہے، اس لیے یہ ایک ہی موضوع کے دو حصے ہیں۔
مسلمان اس وقت عالمی سطح پر جس صورتحال سے دوچار ہیں اسے مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دو صدیوں کی کشمکش میں مغرب نے مسلمانوں کو سیاست، معیشت، عسکریت، تجارت، سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت کے محاذوں پر نہ صرف مسلسل شکست سے دوچار کر رکھا ہے بلکہ یک طرفہ عالمی نظام کے شکنجے میں جکڑ کر بے بسی اور لاچاری کا عبرتناک نمونہ بنا دیا ہے۔ اس میں ہماری کوتاہیوں اور نااہلیوں کا کتنا دخل ہے یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ان سب شعبوں میں مغرب کے رحم و کرم پر ہیں اور اس کے بنے ہوئے سازشوں کے جال میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک محاذ ایسا بھی ہے جس میں مغرب کو کامیابی حاصل نہیں ہو رہی اور وہ اس میں اپنی ہر کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر بری طرح دانت پیس رہا ہے۔ وہ ہے عقیدہ اور ثقافت کا محاذ جہاں مغرب کی تمام محنتیں اب تک اکارت گئی ہیں۔ اور اس کی دو صدیوں کی مسلسل محنت کے باوجود آج بھی صورتحال یہ ہے کہ عام مسلمان کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ قائم ہے۔ یہ ایمان و یقین کا تعلق ہے، محبت و عقیدت کا تعلق ہے اور ان کی سچائی و حقانیت کے بے لچک اظہار کا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر آپ دنیا کے کسی علاقے میں کسی بھی مسلمان سے یہ دریافت کر کے دیکھ لیں کہ فلاں مسئلہ پر قرآن و سنت اور سنت نبویؐ کا حکم یہ ہے لیکن آج کی عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے اس کے برعکس یہ کہتے ہیں تو وہ خود اس مسئلہ سے واقف ہے یا نہیں اور اس کو قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے آگاہی ہے یا نہیں مگر اس کا دوٹوک جواب کسی تامل کے بغیر یہ ہوگا کہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ کا ارشاد درست ہے اور عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کا کہنا درست نہیں ہے۔
دنیا بھر کے عام مسلمانوں کی اپنے دین کے ساتھ یہ کمٹمنٹ مغرب کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور دینی مدارس و مراکز کو اس کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ابھی چند روز قبل میں نیویارک کے کوئینز کے علاقہ کے ایک دینی مدرسہ دارالعلوم نیویارک کی ایک تقریب میں شریک تھا، مجھے بتایا گیا کہ اس مدرسہ میں اس سال گیارہ بچوں نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز اور اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی جس سطح پر مخالفت ہو رہی ہے اس کے باوجود اس کے حافظوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دینی مدارس و مکاتب کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ مغربی تہذیب نے اگرچہ مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد دنیا کے ہر خطے میں بلکہ خود مغرب میں بھی اپنی تہذیب و ثقافت پر قائم ہے، اپنے خاندانی نظام کو باقی رکھے ہوئے ہے اور اپنی تہذیبی اقدار کی حفاظت کر رہی ہے۔
اس محاذ پر مسلمانوں کو پسپا کرنے کے لیے مغرب نے جو جتن کیے وہ اصحاب نظر سے مخفی نہیں ہیں۔ انہی میں سے ایک حربہ جھوٹے نبیوں کو کھڑا کرنا تھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی، مرزا بہاء اللہ شیرازی اور اس قسم کے دجالوں کو اس لیے کھڑا کیا گیا اور انہیں نبی کے طور پر پیش کیا گیا جنہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں عقیدہ اور فکر کا انتشار پیدا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال مرحوم نے جب قادیانیوں کے خلاف کھل کر اظہار کیا تو ان سے اس کی وجہ دریافت کی گئی۔ انہوں نے جواب دیا کہ نئی نبوت کا مطلب مرکز عقیدت اور مرکز اطاعت کو تبدیل کرنا ہے کیونکہ نبی اپنی امت کی عقیدت و اطاعت کا واحد مرکز ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک امت کی عقیدت اور اطاعت کا مرکز ہیں ان کے بعد کسی اور کو نبی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ عقیدت اور اطاعت دونوں کا مرکز تبدیل ہوگیا ہے اور اب کوئی نیا مرکز قائم ہوگیا ہے اس لیے مسلمانوں میں جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کے بعد قیامت تک کسی نئی نبوت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے اپنی گفتگو میں احباب سے گزارش کی کہ قادیانیوں، بہائیوں اور اس کے دیگر فتنہ پردازوں کی مہم کا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو عقیدہ و فکر کے خلفشار سے دوچار کیا جائے اور انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ لیکن تحریک ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کی جدوجہد کی برکت سے امت مسلمہ کا بہت بڑا حصہ اس سے محفوظ ہے اور مغرب ان فتنوں کے ذریعے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا اس میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی جس پر وہ سیخ پا ہے اور اہل دین کو اپنی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ آج مغرب اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش اسی عقیدہ و فکر اور تہذیب و ثقافت کے محاذ پر جاری ہے جو اگرچہ ہمارا آخری مورچہ ہے لیکن ہمارا عقیدہ ہے اور حالات بھی یہی بتا رہے ہیں کہ یہیں سے مسلمانوں کی واپسی شروع ہوگی اور اسلام ایک بار پھر دنیا کے افق پر پوری شان و شوکت کے ساتھ نمودار ہو کر رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مورچے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں، مسلمانوں کی نئی نسل کو قرآن و سنت کے ساتھ شعور و فہم کی وابستگی سے ہمکنار کرنے کے لیے محنت کریں، انہیں عقیدہ و ثقافت کے فتنوں سے بچانے کی کوشش کریں اور پورے فہم و ادراک اور بصیرت و شعور کے ساتھ اسلامی عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کی جنگ میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کریں۔