ہانگ کانگ میں چار دن گزار کر آج وطن واپس جا رہا ہوں۔ اس وقت بینکاک کے ایئرپورٹ پر ہوں اور کراچی کے لیے فلائٹ میں دو گھنٹے کے وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں۔ ہانگ کانگ کی مساجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں سالانہ اجتماعات میں شرکت کے لیے مجھے دعوت دی تھی اور ’’تذکرۂ خیر الورٰی‘‘ کے عنوان سے ان اجتماعات کا سلسلہ مسلسل چار روز تک جاری رہا۔
ہانگ کانگ میں باضابطہ مساجد پانچ ہیں جن کے لیے ایک بورڈ آف ٹرسٹیز کام کر رہا ہے جس میں پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے حضرات کے علاوہ چینی مسلمانوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ سب سے بڑی مسجد کولون مسجد کہلاتی ہے اس میں مولانا مفتی محمد ارشد امام و خطیب ہیں بلکہ وہ تمام مساجد کے چیف خطیب بھی ہیں اور بورڈ کے تحت مساجد کے نظام اور سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ مفتی محمد ارشد شجاع آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے بزرگ ساتھی مولانا رشید احمد مرحوم کے فرزند ہیں جو جمعیۃ علماء اسلام میں ایک عرصہ تک سرگرم عمل رہے اور شجاع آباد میں جامعہ فاروقیہ کے نام سے دینی ادارہ ان کی یادگار ہے۔ مفتی محمد ارشد نے جامعہ خیر المدارس ملتان میں دورہ کیا، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم اے کیا اور آرمی میں تین سال تک خطابت کے فرائض سرانجام دے کر ایئرفورس میں چلے گئے جہاں وہ کیپٹن کے طور پر آٹھ سال تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پھر ہانگ کانگ چلے گئے جہاں کم و بیش دس سال سے کولون کی مرکزی جامع مسجد میں خطابت و امامت کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ اردو، انگلش اور عربی پر عبور رکھتے ہیں اور خطابت کے ساتھ تحقیق و مطالعہ کے ذوق کے حامل بھی ہیں۔ جبکہ بورڈ آف ٹرسٹیز اور پاکستان ایسوسی ایشن میں کیپٹن شہزادہ سلیم، جناب سعید الدین، حاجی شبیر احمد اور دیگر مخلص احباب پر مشتمل ایک بھرپور ٹیم ان کی معاون ہے۔
مجھے ہانگ کانگ میں یہ ماحول دیکھ کر خوشی ہوئی کہ علماء کرام اور کمیونٹی لیڈروں کے درمیان رابطہ اور ہم آہنگی موجود ہے بلکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام بھی باہمی روابط اور مفاہمت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ شب میں نے اپنے پروگرام کا آخری خطاب جس مسجد میں کیا اس کے امام و خطیب ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حافظ غلام فرید ہیں جو پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ادارہ منہاج القرآن سے وابستہ ہیں، انہوں نے خود ہمیں دعوت دی اور پورے اعزاز کے ساتھ ہماری میزبانی کی۔
جمعہ کے روز میں نے ختم نبوت موومنٹ کے مرکز میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس مرکز کے سربراہ مولانا مفتی محمد طیب ہیں جن کا تعلق کبیروالا سے ہے اور ہمارے پرانے دوست ہیں۔ متحرک بزرگ ہیں اور یہاں کے مسلکی دوستوں کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں دینی بیداری پیدا کرنے اور مسلکی ذوق کو اجاگر کرنے میں سب سے زیادہ محنت مولانا قاری محمد طیب نے کی ہے۔ وہ اچھے قاری ہیں اور حفظ و تجوید کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی محنت سے ختم نبوت موومنٹ نے ہانگ کانگ کے مختلف علاقوں میں مساجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز سے ہٹ کر کرائے کے مکانات میں قرآن کریم کے حفظ کے سات مدارس اب تک قائم کیے ہیں جن میں مجموعی طور پر نو سو کے لگ بھگ بچے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ چھچھ سے تعلق رکھنے والے جہانزیب خان صاحب موومنٹ کے سیکرٹری ہیں اور ان کے ساتھ مخلص رفقاء کا ایک گروپ ہے جو نئی نسل کو قران کریم اور دینی تعلیمات کے ساتھ وابستہ رکھنے کے جذبہ کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ میں نے ان سات میں سے تین مدارس دیکھے اور وہاں کا تعلیمی ماحول اور طلبہ کی گہماگہمی دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ مجھے بتایا گیا کہ اب سے دس پندرہ سال قبل ہانگ کانگ میں تراویح کے لیے پاکستان یا انڈیا سے حافظ منگوائے جاتے تھے مگر اب چین، جاپان، ہانگ کانگ اور اردگرد دیگر علاقوں کی مساجد کو یہاں سے حفاظ فراہم کیے جاتے ہیں اور حفظ قرآن کریم کا یہ سلسلہ بحمد اللہ تعالیٰ دن بدن پھیل رہا ہے۔
ہفتہ کے روز پاکستان کلب میں پاکستان ایسوسی ایشن کے زیراہتمام سیرت کانفرنس تھی جس کی صدارت ہانگ کانگ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قونصل جنرل ڈاکٹر بلال احمد نے کی۔ ان کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کے والد دیال سنگھ کالج کے پرنسپل رہے ہیں، اچھا دینی ذوق رکھتے ہیں اور دینی سرگرمیوں میں تعاون کرتے ہیں۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کی دعوت پر ایران سے قراء کرام اور نعت خواں حضرات کا ایک گروپ بھی ہانگ کانگ آیا ہوا ہے جو مختلف محافل میں قرآن کریم کی تلاوت، حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سرگرمیوں میں شریک ہے۔ پاکستان کلب کی سیرت کانفرنس میں بھی اس گروپ نے اپنے فن اور ذوق کا مظاہرہ کیا اور آخر میں انہوں نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی تباہی پر عربی زبان میں ایک پرسوز مرثیہ پیش کیا جس میں غزہ کی مظلوم خواتین اور بچوں کے ساتھ بطور خاص ہمدردی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مجھے اس کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی خطاب کی دعوت دی گئی اور میں نے اپنے تفصیلی خطاب میں اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
اتوار کو محافل کےاس سلسلہ کا مرکزی پروگرام کولون کی جامع مسجد میں تھا جو صبح دس بجے سے عصر تک جاری رہا اور اس کی صدارت ایران کے قونصل جنرل جناب عبد اللہ نیکونام نے کی جبکہ ایرانی مہمانوں کے گروپ نے بھی تفصیل کے ساتھ اپنا پروگرام پیش کیا۔ راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں خصوصی طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت کا صرف زبانی اظہار کافی نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی میں بھی اس کے آثار نظر آنے چاہئیں اس لیے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اصل تعلق یہ ہے کہ وہ ہمارے آئیڈیل ہیں اور ہم آپؐ کے پیروکار ہیں۔ اور کسی آئیڈیل کا اصل پیروکار وہ ہوتا ہے جو اس کی ہر ادا سے محبت کرتا ہے اور اسے اپنانے کی بے ساختہ کوشش کرتا ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات پر عمل اور رسول اکرمؐ کے معمولات و سنت کی اتباع کے ساتھ ساتھ ذاتی ذوق اور ادا کی بھی پیروی کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو شوق سے کھاتے دیکھا تو انہیں کدو سے محبت ہوگئی، حتیٰ کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں انہیں بصرہ میں زمین الاٹ کی تو انہوں نے وہاں کدو ہی بونا شروع کر دیے جو محبت و اطاعت کی بہترین مثال ہے۔
میں نے عرض کیا کہ آج کی دنیا کو اور بالخصوص مغربی اقوام کو قرآن کریم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی جذباتی وابستگی پر تعجب ہوتا ہے اور وہ اسے سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس اپنے پیغمبروں کی تعلیمات محفوظ حالت میں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ان کی آسمانی کتابیں اصل صورت میں میسر ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس قرآن کریم اصلی او رمحفوظ حالت میں موجود ہے، مسلمان اسے پڑھ بھی رہے ہیں اور اس سے استفادہ بھی کر رہے ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پوری دنیا کے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو دنیا کی اقوام تک پہنچانے کی طرف توجہ دیں۔
پیر کو گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان دوست جاوید صاحب نے پاکستان کلب میں پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا جس کی وجہ مناسبت یہ تھی کہ میرا سسرالی گاؤں گلیانہ ضلع گجرات ہے اور جاوید صاحب کا گاؤں بھی اس کے قریب ہے۔ انہوں نے اس خوشی میں بہت سے دوستوں کو مدعو کر رکھا تھا اور پاکستان ایسوسی ایشن کے عہدے داروں نے بھی بطور خاص اس میں شرکت کی۔ مغرب کے بعد مجھے ختم نبوت موومنٹ کے ایک مدرسہ میں گفتگو کے لیے کہا گیا، میں نے گزارش کی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری نجات ایمان اور اعمال صالحہ میں رکھی ہے او رہم نیک اعمال اسی لیے کرتے ہیں کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی اور اجر و ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ اچھے اعمال پر بہت اجر دیتے ہیں اور نیکیاں عطا فرماتے ہیں۔
ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ یہ نیکیاں کیا ہوتی ہیں اور ہمیں کس شکل میں ملتی ہیں؟ میں نے گزارش کی کہ یہ آخرت کی کرنسی ہے، جس طرح دنیا کے معاملات روپے، ڈالر اور ریال وغیرہ کے ذریعے طے ہوتے ہیں آخرت کے معاملات نیکیوں کے ذریعے طے پائیں گے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کا بھی بندوبست کریں اور ان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اس لیے کہ کمائی وہی فائدہ مند ہوتی ہے جو ضرورت کے وقت کام آجائے، جو کمائی ضرورت پڑنے سے پہلے ہی ضائع ہو جائے وہ کسی کام کی نہیں ہوتی۔ نیکیوں کی ضرورت آخرت میں حساب کتاب کے وقت ہوگی، اگر وہ دنیا میں ہی ضائع ہوگئیں تو آخرت میں شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال کی بھی نشاندہی کی ہے جو نیکیوں کے برباد ہوجانے کا باعث ہوتے ہیں، مثلاً فرمایا کہ شرک کرنے سے نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ اچھے اعمال کے ساتھ ساتھ ان اعمال سے بچنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے جو نیکیوں کو برباد کر دیتے ہیں اور اجر و ثواب کے ضائع ہونے کا باعث بنتے ہیں۔
مجھے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً جانے کا موقع ملتا ہے اور میرے زیادہ تر مخاطب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اردو سمجھتے ہیں اور پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ یہ بات شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ اگر ہم ان ملکوں کے لوگوں سے ان کی زبانوں میں بات کر سکیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو ان کی زبان میں ان کی نفسیات کے مطابق پیش کر سکیں تو ہمارے ان تبلیغی اسفار کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے اور وقت کی ایک اہم ضرورت کی تکمیل کا بھی شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ یہ بات ملک کے بڑے بڑے اور باوسائل دینی مدارس کے سوچنے کی ہے کہ وہ اس ضرورت کو محسوس کریں اور اس کو پورا کرنے کے لیے کوئی عملی پروگرام تشکیل دیں۔