بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے بارے میں سالانہ کانفرنس کی تجویز

   
۱۱ ستمبر ۱۹۸۷ء

دوبئی سے قاہرہ روانگی سے قبل میں نے اپنے تاثراتی مضمون میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے بعض مسائل اور مشکلات کا ذکر کیا تھا اور جب قاہرہ پہنچا تو یہاں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مصریوں کی سالانہ کانفرنس شروع تھی۔ اس کانفرنس کا اہتمام حکومتِ مصر کرتی ہے اور اس میں بیرونِ مصر کام کرنے والے مصریوں کے سرکردہ نمائندوں کے علاوہ حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس وقت مصر کا قومی اخبار ’’الاہرام‘‘ میرے سامنے ہے، اس کی شہ سرخی نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع جناب ابو غزالہ کے خطاب سے لی گئی ہے جو انہوں نے مذکورہ کانفرنس میں کیا ہے۔ اس خبر کا عنوان ہے کہ ’’مصر ہر حملہ آور کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ اور اپنے خطاب میں جناب ابو غزالہ نے مصر کی دفاعی صورتِ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور خبر کا عنوان ہے ’’بیرونِ ملک کام کرنے والے مصری علماء بھی اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں شریک ہیں‘‘۔ یہاں ’’علماء‘‘ کا لفظ مطلقاً اہلِ علم کے لیے استعمال ہوتا ہے ، ان میں علماء دین بھی شامل ہیں اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین کو بھی اسی خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

مصری سائنس دانوں، انجینئرز، ڈاکٹروں اور دیگر اہلِ فنون کی اچھی خاصی تعداد بیرون ممالک میں کام کرتی ہے حتیٰ کہ چاند پر پہنچے والے امریکی خلائی جہاز اپالو ۱۱ کی منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر بھی ایک مصری سائنس دان ڈاکٹر عبد العزیز تھے۔ اسی طرح جامعہ ازہر کے نظام کے تحت عربی زبان کی تعلیم کے لیے مصری اساتذہ مختلف ممالک میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور خود پاکستان کے متعدد تعلیمی اداروں میں مصری اساتذہ عربی زبان کی تعلیم دے رہے ہیں۔ یہ کانفرنس تین روزہ ہے اور اس کے پروگرام کی جو تفصیل اخبارات میں آئی ہے اس کے مطابق تقریباً نصف درجن وزراء کے علاوہ اقتصادی ماہرین اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ حضرات نے بھی اس سے خطاب کرنا ہے۔ مختلف ممالک سے اس کانفرنس میں شریک ہونے والے مصریوں کے نمائندے کانفرنس میں اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس ہال میں یہ کانفرنس ہو رہی ہے مجھے اس کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے، ہال سے باہر مختلف بینر لگے ہوئے ہیں جن میں ایک بینر کا مضمون یہ ہے کہ ’’وطن سے دور وطن کی خدمت کرنے والوں کو ہم مرحبا کہتے ہیں‘‘۔ اسی قسم کے متعدد بینروں سے کانفرنس ہال کے بیرونی دروازے اور گزرگاہیں آراستہ ہیں۔

اس کانفرنس کے دیگر فوائد کے علاوہ دو بڑے فائدے واضح طور پر محسوس ہو رہے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے ذریعے حکومتِ مصر نے اپنی قومی پالیسی کے بارے میں بیرون ملک مقیم مصریوں کو اعتماد میں لینے کا راستہ اختیار کیا ہے اور دوسرا یہ کہ بیرون ممالک میں کام کرنے والے مصریوں کے مسائل اور مشکلات سے حکومت کو براہِ راست آگاہ حاصل ہوئی ہے۔ اور اس طرح دونوں کے درمیان ایک ایسے اعتماد کی فضا قائم ہوئی ہے جو وطن کے لیے محبت اور خدمت کے جذبہ میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم مصریوں کی کام کرنے کی استعداد اور رفتار میں ترقی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں سالانہ حج کانفرنس ہوتی ہے جس میں عازمینِ حج کو درپیش مسائل و مشکلات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان کے حل کے لیے پیش کی گئی تجاویز کی روشنی میں آئندہ سال کی حج پالیسی مرتب کی جاتی ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے امور کی وزارت اسی طرز پر ایک سالانہ کانفرنس کا اہتمام کرے، اس کے لیے قاہرہ میں ہونے والی مذکورہ کانفرنس کی تفصیلات اسلام آباد کے مصری سفارت خانے سے حاصل کر کے ان سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں بیرون ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے سرکردہ نمائندوں بالخصوص ان پاکستانیوں کی مختلف تنظیموں، ایسوسی ایشنوں اور سوسائٹیوں کے ذمہ دار حضرات کو دعوت دی جائے اور اس میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت، منصوبہ بندی کی وزارت، وزارتِ خزانہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں کے ذمہ دار حضرات بھی شریک ہوں۔ میرے خیال میں اس قسم کی کانفرنس بیرونِ ملک پاکستانیوں کی صلاحیت کار میں اضافہ کرنے کے علاوہ وطن کی محبت اور خدمت کے جذبے کو فروغ دے گی اور ان لاکھوں پاکستانیوں کی محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی دولت کے زیادہ تر غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے کا جو رجحان بڑھ رہا ہے اس کی روک تھام کی بھی کوئی مناسب صورت نکل آئے گی۔

قاہرہ میں یہ میری حاضری کا پہلا موقع ہے، اس سے قبل ۱۹۸۵ء میں لندن کی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے بعد مولانا منظور احمد چنیوٹی، ڈاکٹر علامہ خالد محمود اور راقم الحروف نے حج کے لیے براستہ قاہرہ جدہ جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے مصری ایئرلائن کا ٹکٹ لیا۔ ان دنوں قاہرہ میں پاکستان کے سفیر راجہ محمد ظفر الحق تھے، وہ اپنی حب الوطنی اور دینی ذہن کے حوالے سے ہمارے مہربان اور کرم فرما ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ قاہرہ میں ایک دو روز قیام کا موقع مل جائے۔ راجہ صاحب کے ساتھ لندن سے فون پر بات ہوئی انہوں نے بے حد مسرت کا اظہار کیا لیکن الجھن یہ پیش آئی کہ مصری ایئرلائن نے ہمیں لندن سے قاہرہ پہنچنے کے ساتھ دوسرے ہی روز علی الصبح جدہ کے لیے کنفرم سیٹیں دے دی تھیں اور حج سے قبل ان کے متبادل کنفرم سیٹیں نہیں مل رہی تھیں۔ راجہ صاحب نے بھی بہت کوشش کی مگر حج کے بے پناہ رش کی وجہ سے کامیابی نہ ہوئی اس لیے ہم ایک رات مصری ایئرلائن کے مہمان کی حیثیت سے ایئرپورٹ کے قریب کنکارڈ ہوٹل میں گزار کر جدہ روانہ ہوگئے اور راجہ محمد ظفر الحق صاحب کی موجودگی میں قاہرہ دیکھنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

راجہ صاحب کے دورِ سفارت کو قاہرہ میں پاکستان سفارت خانہ کی تاریخ کے ایک اچھے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہاں کے علمی اور سیاسی حلقوں میں پاکستان کے اچھے تعارف اور روابط کے لیے جو کام کیا ہے اس کے اثرات قائم ہیں اور ان کی متانت، بردباری اور معاملہ فہمی کا ذکر مجالس میں ہوتا رہتا ہے۔ بالخصوص پاکستانی باشندے اور طلبہ انہیں بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ مجھے اب جامعہ ازہر میں ایم اے کے ایک پاکستانی طالب علم احمد شیرانی صاحب کے ہمراہ پاکستانی سفارت خانہ تک جانے کا موقع ملا لیکن کچھ اچھے تاثرات قائم نہ ہو سکے۔ مجھے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ گوجرانوالہ سے جمعیۃ اہل السنۃ کے صدر الحاج میاں محمد رفیق اور میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر میاں محمد عارف ایڈووکیٹ نے بھی اسی روز قاہرہ پہنچنا تھا مگر انہوں نے کراچی سے آنا تھا اور میں ’’الامارات‘‘ کی پرواز سے دوبئی سے قاہرہ پہنچا تھا۔ فلائٹوں کے نمبروں میں ردوبدل کی وجہ سے قاہرہ پہنچنے کے بعد ہمارا آپس میں رابطہ نہ ہو سکا۔ متوقع مقامات پر تلاش کیا مگر ان حضرات کا پتہ نہ چل سکا، خیال ہوا کہ وہ حضرات بھی اگر پہنچ گئے ہیں تو ضرور تلاش میں ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ سے رابطہ قائم کریں۔ اس خیال سے معلومات حاصل کرنے کے لیے ہم سفارت خانہ پہنچے، دفتری ٹائم اگرچہ ختم ہو چکا تھا مگر گیٹ پر دربان کے علاوہ ایک اور صاحب بھی موجود تھے جو دفتری عملہ میں سے معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھا تو ان کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے جیسے انہیں ہماری آمد پر بڑی کوفت ہوئی ہو۔ پھر جب مدعا بیان کیا تو روکھے سے انداز میں کہا کہ انہوں نے یہاں آکر کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا کہ بھائی! وہ پاکستانی ہیں اگر انہیں کوئی مشکل پیش آئے گی تو وہ پاکستانی سفارت خانہ میں ہی آئیں گے جیسے ہم آئے ہیں۔ لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی، پھر میں نے اپنا کارڈ انہیں دیا کہ ہو سکتا ہے اس سے رویہ میں کچھ فرق آجائے، انہوں نے کارڈ کو ایک دو دفعہ الٹ پلٹ کر دیکھا پھر مجھے دیکھا، یوں لگتا تھا کہ شاید انہیں یقین نہیں آرہا۔ بہرحال یہ معلومات مل گئیں کہ ان حضرات نے ابھی تک سفارت خانہ سے رابطہ قائم نہیں کیا اور ہم سفارت خانہ کا ٹیلی فون نمبر لے کر ان صاحب کو تذبذب کی حالت میں چھوڑ کر بڑے گیٹ کے باہر سے ہی لوٹ آئے۔

   
2016ء سے
Flag Counter