دینی مدارس کے نصاب و نظام میں عصری علوم کو شامل کرنے کے حوالہ سے مختلف اصحابِ دانش نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس مفید مباحثہ کے نتیجے میں بہت سے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں جن پر غور و خوض یقیناً اس بحث کو مثبت طور پر آگے بڑھانے کا باعث ہوگا۔ اس سلسلہ میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک طالب علم محمد افضل کاسی آف کوئٹہ کا خط پیش خدمت ہے، راقم الحروف کے نام اس خط میں انہوں نے اس مسئلہ پر ایک طالب علم کے طور پر اپنے جذبات و تاثرات پیش کیے ہیں جو یقیناً قابل توجہ ہیں۔ ہماری ایک عرصہ سے یہ رائے چلی آرہی ہے جس کا مختلف محافل میں ہم نے اظہار کیا ہے اور بعض مضامین میں لکھا بھی ہے کہ ہمیں باہر کی آواز سننے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے لیکن دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی بات ضرور سننی چاہیے اور انہیں اس مباحثہ میں شریک کرنا چاہیے۔
ہمارا خیال ہے کہ اگر دینی مدارس کے سینئر اساتذہ کے لیے ملک کے چند بڑے مدارس میں مشاورتی اجتماعات اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جن میں وہ دو تین روز شریک رہ کر دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو درپیش تعلیمی، تربیتی اور فکری مسائل پر کھلے دل کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکیں تو اس کے بہت مفید نتائج سامنے آئیں گے اور اس کے بارے میں کوئی واضح رخ متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ پروگرام وفاق المدارس کے زیر انتظام ہوں تو زیادہ مؤثر اور محفوظ ہوں گے، کوئی اور فورم اس کا اہتمام کرے گا تو اس سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اس سلسلہ میں ایک طالب علم کا نقطۂ نظر اور تجاویز ملاحظہ فرمائیں اور یہ دیکھیں کہ جو طبقہ اس معاملہ میں ’’مبتلیٰ بہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے اپنے جذبات اس حوالے سے کیا ہیں؟
’’دینی مدارس میں دنیوی تعلیم کا امتزاج کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اور کیا یہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ امتزاج کیا جائے تو کن خدشات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس موضوع پر مختلف حضرات اپنی آراء دے چکے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن چونکہ میں خود ایک طالب علم ہوں۔ اور طلبہ کے درمیان رہتے ہوئے ان کی دلی خواہشات اور حالات سے زیادہ شناسا ہوں اس وجہ سے اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں طلبہ کے حالات اور ان کی سوچ کے حوالے سے بحث کروں گا۔
دینی مدارس میں بعض طلبہ تو صرف وقت گزاری کے لیے مدارس میں ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت ان کی ہوتی ہے جنہیں والدین نے یا گھر کے کسی بڑے نے زبردستی مدرسے میں داخل کرایا ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کو نہ تو مدارس کے نصاب سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی جدید علوم سے، البتہ یہ جدید علوم کو دینی تعلیم پر فوقیت دیتے ہیں اور مدارس میں یہ امتحان پاس کرنے کے لیے مجبوراً کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ بعض طلبہ کو دینی اور دنیوی تعلیم، دنوں کا شوق ہوتا ہے اور محنت بھی کرتے ہیں لیکن ان کی ذہنی استعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ دونوں کو یکجا کر سکے لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ جدید علوم حاصل کرنے کے چکر میں ان کے دینی تعلیم کا نقصان ہوتا ہے۔ اور بعض طلبہ صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور جدید علوم کے متعلق بات کرنے کو بھی اخلاص کے منافی سمجھتے ہیں اور جو طلبہ عصری علوم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ان پر دل کھول کر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ اور بعض طلبہ جو دینی و عصری علوم حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور دونوں کے ایک ساتھ حاصل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر مدارس کے روایتی نظام الاوقات کی وجہ سے یا مدرسے کی بعض پابندیوں کی بنا پر جدید علوم سے رہ جاتے ہیں۔
طلبہ کے حالات جاننے کے بعد اب ہم دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کی بحث کرتے ہیں جس میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ دینی علوم میں کمزوری پیدا ہو جائے گی اور اس کی طرف توجہ میں کمی واقع ہوگی۔ اس خدشے سے خلاصی اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ طلبہ جو عصری علوم کی تحصیل کا شوق رکھتے ہو، ان کے لیے مدرسے کے امتحان میں اعلیٰ درجے سے کامیابی شرط قرار دی جائے جو طلبہ مذکورہ شرط پر پورا اترے ان کو عصری علوم حاصل کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ ان کے لیے کلاسز اور تمام جدید وسائل کا انتظام کیا جائے۔ کیونکہ اگر اہل مدارس عصری علوم کے لیے خصوصی کلاسز کا بندوبست نہیں کریں گے تو جو طلبہ عصری تعلیم کے دلدادے ہیں وہ ہر صورت میں اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے ان کو مدارس سے باہر جانا پڑے گا اور بھاری فیسیں دینی پڑے گی اور دینی علوم کے گھنٹوں کو قربان کریں گے اس بنا پر ان کی دینی تعلیم متاثر ہوگی۔ اس کا مشاہدہ مدارس کے طلبہ سے مل کر ان کے حالات جان کر کیا جا سکتا ہے کہ چند طلبہ انگریزی سیکھنے اور بعض طلبہ کمپیوٹر ٹریننگ، اور چند طلبہ بی اے کی تیاری کے لیے اور بعض صحافت، خطابت، و فلکیات غرض مختلف کورس کرنے کے لیے مدارس سے باہر جاتے ہیں جس سے طلبہ کو شدید دقت ہوتی ہے۔ اگر اہل مدارس ان کورسز کے لیے دینی تعلیم کے گھنٹوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے خصوصی کلاسز کو انعقاد کریں اور سابقہ شرائط کے تحت طلبہ کو داخلہ دیا جائے تو طلبہ پر احسان عظیم ہوگا۔
چونکہ مدارس میں ان جدید علوم کے لیے کوئی خاص بندوبست نہیں اگر ہے بھی تو صرف تخصص کے طلبہ کے لیے، اس وجہ سے جو طلبہ کالج، یونیورسٹی وغیرہ سے پڑھ کر دعوت و تبلیغ یا کسی اور سبب کی بنا پر مدارس آتے ہیں وہ بھی کمپیوٹر اور انگریزی وغیرہ کے عدم استعمال کی وجہ سے سب کچھ نہ سہی مگر بہت کچھ بھول ہی جاتے ہیں کیونکہ آئے روز کمپیوٹر میں نت نئے پروگرامز آرہے ہیں اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ بھی تکلم و مطالعہ نہ ہونے کے سبب ذہن کے سکرین سے آہستہ آہستہ آؤٹ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مدارس کے منتظمین اور اساتذہ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ اگر جدید علوم کے تمام کورسز نہ سہی تو کم از کم انگریزی اور کمپیوٹر کی طرف توجہ فرمائیں۔
محمد افضل کاسی، کوئٹہ‘‘